نیا عمرانی معاہدہ نظر انداز کیوں
اپنا فائدہ ہو تو فوج کی پولنگ اسٹیشنوں پر تعیناتی کا مطالبہ ہوتا ہے اور نہ ہو تو اب انھیں دور رکھنے کا مطالبہ ہوا ہے۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے چیف جسٹس آف پاکستان کے حوالے سے کہا ہے کہ فاضل چیف جسٹس نے نئے عمرانی معاہدے کی تجویز دیتے ہوئے کہا تھا کہ ازسر نو ایک عمرانی معاہدہ ہونا چاہیے ہم آئین سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ ہر ادارہ مداخلت کر رہا ہے ، عوام مطمئن نہیں ہیں۔
پاکستان میں آئین کی حیثیت کیا ہے؟ لہٰذا تمام اداروں کو بیٹھ کر یہ طے کرنا ہوگا کہ آئین محترم اور سپریم ہے ، اس کی بنیاد پر ہی ملک چلنا چاہیے اور یہ عہد کرنا ہوگا کہ پاکستان میں آئین کی پاسداری ہو۔ مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد کے اجتماع میں یہ بھی واضح طور پر کہا کہ پاک فوج سب کے لیے محترم ہے۔
مولانا نے یہ اظہار شاید پاک فوج کے ترجمان کے استفسار پر وضاحت کے لیے کیا جنھوں نے مولانا سے متنازعہ ادارہ کی نشاندہی کے لیے کہا تھا اور مولانا صاحب ہی نہیں ، تمام اپوزیشن جماعتیں پاک فوج کو ملک کی محافظ قرار دیتی ہیں اور عزت و احترام دیتی ہیں۔
پاک فوج کی عزت و احترام تو متنازعہ ہے ہی نہیں بلکہ اپوزیشن بھی چیف جسٹس آف پاکستان کی تجویز سے متفق ہے کہ آئین سپریم ہے جس کے مطابق ملک کے ہر ادارے کو اپنی آئینی حد میں رہنا چاہیے اور دوسرے اداروں کے معاملات میں مداخلت بالکل نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ملکی آئین میں ہر ادارے کی حدود کا تعین کر دیا گیا ہے جس پر سختی سے عمل ہونا بھی چاہیے۔
اپوزیشن کی طرف سے پہلی بار مطالبہ کیا ہے کہ نئے انتخابات فوج کی نگرانی کے بغیر کرائے جائیں۔ اپوزیشن کے اس مطالبے سے اس ادارے کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ اپوزیشن کس قومی ادارے کی مداخلت کی شکایت کر رہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ہر ادارہ دوسرے اداروں کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔
اب تک تو اس مداخلت کی تردید ہو جاتی تھی مگر چیف جسٹس کی بات اور اپوزیشن کے مطالبے کے بعد مداخلت کرنے والے اداروں کو دیگر اداروں کے معاملات میں مداخلت سے گریزکرنا ہو گا تا کہ یہ شکایت ختم ہو۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور اپوزیشن کی نئے عمرانی معاہدہ کی تجویز پر حکومت کو غورکرنا چاہیے کیونکہ پی ٹی آئی جس کی ملک میں حکومت ہے پر بھی ایک قومی ادارے کی پشت پناہی کی باتیں آج بھی ہو رہی ہیں اور 2014ء کے دھرنے میں بھی پی ٹی آئی پر امپائر کا الزام لگایا گیا تھا۔
پاک فوج کے ترجمان کی اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاک فوج بطور قومی ادارہ حکومت کے احکامات پر عمل کا آئینی طور پر پابند ہے اور اس کا کام ملک کا دفاع، مقننہ کا کام قانون سازی، حکومت کا ملک چلانا اور الیکشن کمیشن کا کام ملک میں صاف و شفاف اور منصفانہ الیکشن کرانا ہے مگر بدقسمتی سے ملک میں جتنے بھی انتخابات ہوئے وہ ہمیشہ متنازعہ قرار پائے۔ جس پارٹی کی اکثریت ہوئی اس کو دوسری پارٹیوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا جب کہ 2018 کے عام انتخابات سب سے زیادہ متنازعہ قرار پائے تھے اور موجودہ حکومت کی حلیف پارٹیاں ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بی این پی مینگل نے بھی عام انتخابات کو متنازعہ اور مداخلت سے بھرپور قرار دیا تھا اور الیکشن کمیشن پر کڑی تنقید ہوئی تھی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن کبھی با اختیار نہیں رہا۔ جس کا ذمے دار الیکشن کمیشن نہیں بلکہ موجودہ اور سابقہ تمام حکومتیں اور بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں جنھوں نے خود الیکشن کمیشن کو با اختیار بنانے پر جان بوجھ کر توجہ نہیں دی۔ جب بھی ملک میں عام انتخابات ہوئے اس میں مداخلت ہوئی اور ہر بااثر نے مداخلت کر کے فائدہ اٹھایا۔ جس پارٹی کو دھاندلی کے نتیجے میں فائدہ ہوا وہ الیکشن کمیشن سے خوش اور دوسری پارٹیاں ناراض رہیں۔
2018ء کے الیکشن میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایم کیو ایم اپنے مضبوط گڑھ ایف بی ایریا اور پیپلز پارٹی اپنے دیرینہ گڑھ لیاری سے ہار گئی اور بے نظیر بھٹو کا بیٹا اور ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ بلاول جو پی پی کا چیئرمین ہے ہار گیا جب کہ اس حلقے سے بلاول بھٹو کے نانا اور ماں باپ ہی نہیں بلکہ پی پی کا ہر رہنما 1970ء سے یہاں سے کامیاب ہوتا رہا مگر ان دونوں حلقوں سے کامیاب پی ٹی آئی کے وہ امیدوار ہوئے جن کا ان حلقوں میں کسی نے نام تک نہیں سنا تھا وہ گھر بیٹھے جیت گئے یا جتوائے گئے جو حیرت انگیز تھا۔
مولانا فضل الرحمن نے الیکشن کمیشن کے لیے کہا ہے کہ وہ تو ہم سے بھی زیادہ بے بس ہے جو پانچ سال میں غیر ملکی فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کے کیس میں فیصلہ نہیں دے سکا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی نااہلی فیصلے سے لگایا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایک سال تفتیش کے بعد قاسم سوری کو نا اہل کیا جو اعلیٰ عدلیہ میں الیکشن کمیشن کے خلاف گیا اور الیکشن کمیشن کو فریق بنائے اور سنے بغیر پہلی سماعت پر ہی بحال ہو گیا۔
الیکشن کمیشن اور قومی احتساب بیورو (نیب) دونوں آئینی ادارے ہیں ، جن کے سربراہوں کا تقرر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر باہمی مشاورت سے کرتے ہیں۔ حکومت ہر دور میں اپنی حدود سے نکل کر دوسرے اداروں کے معاملات میں غیر قانونی مداخلت کرتی رہی ہے ، جس کے فیصلے عدالتوں میں چیلنج ہوتے ہیں اور غیر قانونی قرار پاتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے تو صدر مملکت سے بھی غیر قانونی تقرر کرا کر انھیں متنازعہ بنا دیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی تقرری کا صدارتی حکم معطل کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے مقابلے میں نیب بہت زیادہ با اختیار ہے اور چیف الیکشن کمشنر کے مقابلے میں چیئرمین نیب ضرورت سے زیادہ با اختیار اس لیے ہیں کہ چیئرمین نیب کے تقرر میں حکومت اور اپوزیشن اپنا مفاد پہلے دیکھتی آئی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے خلاف نیب کو با اختیار بنایا مگر جب پی پی اور بعد میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو دونوں نے اپنا سیاسی مقام اور انتقام مدنظر رکھا اور نیب کے وہ اختیارات کم نہیں کیے جو اب انھیں برے لگ رہے ہیں کیونکہ نیب کا رویہ حکومت کے مقابلے میں (ن) لیگ اور پی پی کے ساتھ انتہائی سخت ہے۔ الیکشن کمیشن کو بے اختیار رکھا ہی جاتا ہے کہ انتخابی دھاندلیوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔
اپنا فائدہ ہو تو فوج کی پولنگ اسٹیشنوں پر تعیناتی کا مطالبہ ہوتا ہے اور نہ ہو تو اب انھیں دور رکھنے کا مطالبہ ہوا ہے۔ ملک کے موجودہ سیاسی انتشار اور اداروں سے متعلق شکایات کے سدباب کے لیے نیا عمرانی معاہدہ اشد ضروری اور وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ منصفانہ انتخابات یقینی ہوں اور بعد میں منتخب حکومت کو جعلی قرار نہ دیا جا سکے۔