آزادی مارچ اور این آر او
عمران خان بھی جوکر رہے ہیں،اس کے نتائج آنا شروع ہوگئے۔
کچھ معاہدے تحریری ہوتے ہیں اور کچھ معاہدے حالات و واقعات کے تحت وجود میں آتے ہیں۔ جب وکلا کی تحریک چلی تو ایک اصطلاح و حقیقت کا چرچہ عام ہوا جس کو ہم این آر او کے نام سے جانتے ہیں ۔ نہ ہی یہ تحریک چلتی نہ این آر او ہوتا ۔ اور تحریک بھی کیوں کر نہ چلتی یہ جو تحریکیں ہیں کوئی چلاتا نہیں ہے بس چل جاتی ہیں۔
تضادات کچھ اسطرح سے ابھرتے ہیں کہ پھر ایسا ہونا ناگزیر سا ہوجاتا ہے ۔ اس وقت بھی سیاسی قوتیں اتنی مضبوط نہ تھیں کہ اپنے زور بازو پر تحریک چلا پاتیں مگر تحریک تو چلنی تھی سیاسی قوتیں نہ سہی وکلا ہی سہی ۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی نہ کوئی ان تحریکوں کو اپنے حوالے سے رخ دیتا ہے اور ان لوگوں کو مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ فہم و دانش رکھتے ہوئے لوگ تحریک کو ان خطرات سے بتاتے رہتے ہیں ۔ ایم آر ڈی 83 19 کی تحریک چلی تو میری عمر اٹھارہ برس تھی ۔ میں نے اس تحریک کی بنیادوں سے سیاسی شعور حاصل کیا ۔ مجھے پتا ہی نہ چلا کہ کس طرح سیاست عشق بن کے میری رگوں میں لہو کی طرح دوڑنے لگی۔ ہم گیت لکھتے تھے راتوں کو جاگتے رہتے تھے ۔
ہمارے کئی کامریڈ انڈر گراؤنڈ تھے نگر نگر بستی بستی ہم پیغام انقلاب دیتے رہتے تھے ۔ کون نہ تھا ایم آر ڈی کی تحریک میں ۔ دائیں بائیں دونوں جانب ، سب افکار اور نظریے اس تحریک کا حصہ تھیں۔ ضیاء الحق چاہتے تھے اس تحریک کے سرخے قیادت کریں، امریکا کے جھنڈے جلائیں اور وہ امریکا کو ڈرائے۔ ہمارے کامریڈ یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے اور خوب امریکا کے جھنڈے جلائے ۔ وہ زمانہ سرد جنگ کا زمانہ تھا ،کتنی مضبوط ترین تحریک تھی اور کتنی آہنی ہاتھوں والی وہ دنیا تھی ۔ سب پابند سلاسل ہوئے ۔ جیل ایسے بھرے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ایسا نہ ہوا تھا ۔ وہ تحریک اپنے اتار چڑھائو لیتے لیتے بل آخر ایک این آر او کی شکل میں سامنے آئی اور بے نظیر اپنے وطن کو آئیں۔
امریکا نے آمریت سے جان چھڑانا چاہی، سوویت یونین افغانستان سے چلا گیا اور محمد خان جونیجو صاحب کہتے ہیں کہ کٹھ پتلی وزیر اعظم تھے مگر آمر کی ناک میں ایسا رسہ ڈالا کہ ضیاء الحق صاحب گھبرا گئے۔ وہ وزیر اعظم تو تھے مگر آمر کے زیر دست۔ وہ کئی جمہوری وزراء اعظم سے اپنے کردار و فہم میں بہت ہی اونچا مقام رکھتے تھے جونیجو صاحب ہمارے جمی کارٹر تھے ۔
قصہ مختصر ضیاء الحق صاحب بھی C 1 30 کی نذر ہوئے اور پھر یوں جمہوری قوتوں کو اقتدار ملا ۔ خود بے نظیر صاحبہ نے ملکی خارجہ پالیسی اور بہت سی اہم ذمے داریاں اسٹیبلشمنٹ کے پاس برقرار رکھیں ۔ ایک فالج زدہ وزیر اعظم تھیں ابھی حکومت کا سال بھی نہ گزار پائی تھیں کہ ان کے خلاف مڈ نائٹ جیک آل کے نام پر ایک سازش رچی، جس نے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اختیار کی مگر وہ بچ گئیں اور پھر بل آخر 58(2)(b) کا شکار ہوئیں ۔ وہ تھیں تو محصور وزیر اعظم مگر لیڈر وہ بھرپور تھیں ۔ ایسے آمروں سے ڈٹ کر لڑیں کہ کون سا مرد لڑا ہوگا؟ پھر کیا ہوا پاکستان کی تاریخ کے وہ متنازع انتخابات ! پھر ایک اور سازش ہوئی ۔ مہران بینک کے دروازے کھول دیے گئے ۔
بڑے بڑے سیاستدان مستفید ہوئے ان زمانوں میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب نواز شریف اس طرح تھے جس طرح آج عمران خان ہیں ۔اور بے نظیر بھٹو یگانہ و یکتہ جمہوریت کی اس میدان میں صف آرا تھیں ۔ میاں صاحب کو پہلی بار پتا چلا کہ جس کرسی پے وہ بیٹھے ہیں وہ تو بہت کمزور ہے مگر تھی تو ان کی کرسی اور اس کرسی سے ان کو بہت لگائو ہوگیا تھا وہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑ پڑے ۔ سازشوں کی پھر سے یلغار 58(2)(b) ہوا اور اس سے بچ بھی گئے اور بل آخر جبری سبکدوشی ۔ لیکن اس سازش میں بے نظیر بھی اسٹیبلشمنٹ کا ایک نیم مع مہرہ تھیں اور اسٹیبلشمنٹ امریکا کے ہاتھوں میں ۔ کون بنے گا وزیر اعظم امریکا کے آشیرواد کے بغیر یہاں تو آمریت بھی ممکن نہ تھی۔
پھر بے نظیر آئیں اور پھر سے ایک فالج زدہ وزیر اعظم بنیں ۔ بھائی کا قتل اسی پولیس سے ہوا جس کی وہ سربراہ تھیں، سندھ ماتم کدہ تھا ۔ بے نظیر اپنے لوگوں سے کاٹ دی گئیں اور بڑی آسانی سے پھر سے 58(2)(b) ان پر صادر ہوئی۔ اور اس دفعہ نواز شریف اس سازش میں شانہ بشانہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے رہے ۔
اس بار جو انتخابات ہوئے میاں صاحب بھاری مینڈیٹ لے کر جیتے ۔ دو تھائی اکثریت ان کے ہاتھ میں آ گئی۔ میاں صاحب کے پائوں زمیں پر لگتے نہ تھے۔ وہ یک بہ یک سب کچھ اڑاتے گئے ۔ 58(2)(b) ہو ، سپہ سالار ہو ، صدر پاکستان ہو، دھڑا دھڑ گراتے گئے ۔ پھر کیا ہوا؟ جب جنرل مشرف کو گرانے کی کوشش کی تو ہی خود شکار ہوچلے ۔
عزیز ہم وطنو! بے نظیر کو جلاوطن نواز شریف نے کیا اور نواز شریف کو جلا وطن مشرف نے کیا۔ بھٹو جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھے شیخ مجیب کے خلاف، وہ بھٹو لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کا مضبوط ترین وزیر اعظم تھے ، چونکہ زمینی حقائق جمہوریت کے لیے اتنے بہتر نہ تھے۔ یہ دونوں مضبوط وزیر اعظم پاکستان کی سیاسی تاریخ کی راہوں پے مارے گئے ۔ ان قتل گاہوں کو چن کو جو وزیر اعظم آئے تو آکر ایسے چلے گئے کہ جیسے کوئی رسوائی ہوں۔
میثاق جمہوریت ہوا ، بے نظیر اور نواز شریف نے اب یہ طے کیا کہ اب وہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ایک دوسرے کے خلاف مہرہ نہیں بنیں گے اور چھین کے لیں گے جمہوریت ۔
جب این آر او ہوا تو بے نظیر امین فہیم کے ساتھ دبئی پہنچیں اور جنرل مشرف ،جنرل کیانی کے ساتھ دبئی پہنچے اور پیچھے سارا کام امریکا کی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس گاہے بگاہے دیکھتی رہی ۔ یہ این آر او بے نظیر کے ساتھ ہوا تھا جس کا فائدہ نواز شریف کو بھی پہنچا اور اب نواز شریف کے ساتھ جو عمران خان یا اسٹیبلشمنٹ نے کیا ہے اس کا فائدہ ضرور آصف زرداری کو بھی ملے گا۔ مگر یہ این آر او مولانا فضل الرحمان کی آزادی مارچ کے بغیر ممکن نہ تھا۔ میاں صاحب لندن روانہ ہونے کے لیے تیار ہیں ، میاں صاحب کا زندہ رہنا اور صحت مند رہنا بھی ضروری ہے کیوں کہ اگر اس دفعہ پنجاب کو بھی شہید مل جائے گا تو یہ خبر بہت بری ہوگی۔
باقی زرداری صاحب اگر شہید ہو بھی گئے تو سندھ اسے شہید نہیں مانے گی ۔ کچھ عجیب انداز سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس دفعہ۔ سیاسی قوتوں کی کمزوری کی وجہ سے جس طرح وکلا نے آمریت کے خلاف تحریک کی قیادت کی اس بار ان دو اہم سیاسی پارٹیوں کی یا مجموعی جمہوری قوتوں کی کمزوری کی وجہ سے اس تحریک کی قیادت مولانا فضل الرحمان نے کی ۔ وہ آج کی بے نظیر بھٹو بن گیا ہے ۔ جس طرح بے نظیر بھٹو کے ساتھ سندھ شانہ بشانہ کھڑا رہا، اسی طرح مولانا کے ساتھ پختون قوم بھی شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ لیکن کیوں ابھی تو ان کو آئے ڈیڑھ سال بھی نہیں ہوا تھا ۔
نواز شریف پھر وہی غلطی کر بیٹھے جو بار بار وہ کرتے رہے ۔ اور پھر عمران خان کو بھی لانگ مارچ کا اشارہ ہوا ، پھر جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ آج عمران خان بھی جوکر رہے ہیں،اس کے نتائج آنا شروع ہوگئے ۔ پہلے تو ان لوگوں کو صرف جمہوریت دی جاتی تھی مگر اس دفعہ تو ان لوگوں کی روٹی بھی چھین لی گئی ہے اسی عنصر نے پھر آزادی مارچ میں جان ڈالی ۔ آزادی مارچ ابھی تک رواں دواں ہے اور اگر اس شکل میں رواں نہیں تو کسی شکل میں بھی مگر اس نے اپنی منزل پالی۔ یہ دنیا نئی دنیا ہے یہاں جو ہائبرڈ ڈیموکریسی کا تجربہ کیا گیا وہ شاید کامیاب نہ ہو پایا مگر اس کی ایک واضح خبر ابھی آنے کو ہے۔