کئی سرکاری اداروں میں آتشزدگی کی روک تھام کا نظام ہی نہیں

سرکاری افسران کی بے حسی،سندھ سیکریٹریٹ کی مختلف عمارتوں میںآگ بجھانے کا کوئی مناسب انتظام نہیں کیاگیا


عبدالرزاق ابڑو November 10, 2019
بعض محکموں میں افسران مخصوص مفادات کی خاطرآگ لگنے کے واقعات کی مکمل روک تھام چاہتے ہی نہیں ہیں،ذرائع۔ فوٹو: فائل

آگ لگنے کے مختلف واقعات کے باوجود تاحال سندھ سیکریٹریٹ کی مختلف عمارتوں میں آگ بجھانے کا کوئی مناسب انتظام نہیں کیا گیا جبکہ مذکورہ عمارتوں میں آگ لگنے کی صورت میں امرجنسی الارم سسٹم تک موجود نہیں ہے۔

آگ لگنے کے واقعات کی روکتھام میں افسرشاہی کی دلچسپی نہ ہونے کا تاثر حال ہی میں ایک مرتبہ پھر مضبوط ہوا جب محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی جانب سے مختلف سرکاری محکموں کو آگ لگنے کے واقعات کی روکتھام کے لیے لکھے گئے خطوط کا جواب ہی نہیں دیا گیا، یہ خطوط خصوصی طور پر محکمہ ورکس اینڈ سروسز، محکمہ داخلہ سندھ اور محکمہ بلدیات کو لکھے گئے تھے۔

الگ الگ ارسال کیے گئے مذکورہ خطوط میں محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے مستقبل میں آگ لگنے کے واقعات کی روک تھام کے سلسلے میں مختلف تجاویز دی تھیں اور بعض ضروری اقدامات کی نشاندہی کی تھی جو ہونے چاہئیں تھے لیکن نہیں اٹھائے گئے، عام طور پر سرکاری دفاتر میں آگ لگنے کے واقعات کا سبب بجلی کے شارٹ سرکٹ بتایا جاتا رہا ہے اس وجہ سے محکمہ ورکس اینڈ سروسز کو لکھے گئے۔

خط میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ کے الیکٹرک کی مدد سے فزیکل سروے کے ذریعے یہ معلوم کیا جائے کہ سندھ سیکریٹریٹ کی تمام عمارتوں میں بجلی کا منظور شدہ لوڈ کتنا ہے۔

بعض سرکاری افسران کا خیال ہے کہ اگر آگ لگنے کے واقعات بجلی کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہوتے ہیں تو اس میں ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ سیکریٹریٹ کی عمارتوں میں بجلی کا اصل لوڈ منظور شدہ لوڈ سے زائد ہے، اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے شارٹ سرکٹ کی ایک وجہ بجلی کی تاروں کا ناقص ہونا بھی ہوسکتا ہے اس لیے محکمہ ورکس اینڈ سروسز کو بجلی کی تاروں کو بھی دیکھنے کا کہا گیا ہے۔

اپنے خط میں محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے محکمہ سول ڈیفنس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے ہیں، مذکورہ خط میں اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا گیا ہے کہ محکمہ سول ڈیفنس کی جانب سے آگ لگنے کے واقعے کی موثر جانچ ہی نہیں کی جاتی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ محکمہ سول ڈفینس کو نہ صرف آگ لگنے کے واقعات کی انکوائری کرنی چاہیے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ تمام سرکاری محکموں میں ایس او پیز (اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز) پر عملدرآمد ہو رہا ہے یا نہیں۔

محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی جانب سے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ سندھ سیکریٹریٹ اور اس سے ملحقہ ریڈ زون کی دیگر عمارتوں کے لیے الگ سے فائر بریگیڈ گاڑی اور اسٹاف کا انتظام ہونا چاہیے،اس کے ساتھ تمام عمارتوں میں ایمرجنسی الارم سسٹم کی تنصیب کی بھی سفارش کی گئی، محکمہ داخلہ کو لکھے گئے خط میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں فوری رابطے کے لیے سندھ سیکریٹریٹ میں تعینات سیکیورٹی اسٹاف کو وائر لیس واکی ٹاکی سسٹم دیا جائے، جبکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سندھ سیکریٹریٹ میں ایمرجنسی ریسپانس یونٹ قائم کیا جائے۔

ایکسپریس کی جانب سے رابطہ کرنے پر سیکریٹری محکمہ داخلہ قاضی عبدالکبیر نے کہا کہ محکمہ داخلہ مذکورہ تجاویز پر عمل درآمد کرے گا، ایکسپریس کی جانب سے جب محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کے سیکریٹری خالد حیدر شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ تاحال کسی بھی محکمے نے ان کے لکھے گئے خطوط کا جواب نہیں دیا،ہم ان کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کچھ دن انتظار کرنے کے بعد ہم دوبارہ انھیں خط ارسال کریں گے اگر پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا جاتا تو پھر ہم وزیر اعلیٰ سندھ کو درخواست کریں گے کہ وہ مذکورہ محکموں کو اپنے پاس بلائیں۔

واضح رہے کہ محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی جانب سے مذکورہ محکموں کو خط گزشتہ مہینے سندھ سیکریٹریٹ بلڈنگ نمبر ون کی دوسری منزل پر آگ لگنے کے واقعے کی روشنی میں لکھے گئے تھے، اس واقعے میں محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کے لیگل سیکشن کا رکارڈ جل گیا تھا، اس سے قبل بھی مختلف اوقات پر آگ لگنے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ سال فروری کے مہینے میں پیش آیا جس میں نیو سندھ سیکریٹریٹ کی تیسری منزل پر واقع محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے دفاتر میں آگ لگنے کے باعث انتہائی اہم ریکارڈ جل کر تباہ ہوگیا تھا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں