اردو کا دربار سجا ہے ایکسپریس کی دوسری عالمی کانفرنس کا تذکرہ

ایکسپریس کی دوسری عالمی اردو کانفرنس نے حاضرین کے ذہنوں پر اَن مٹ نقوش چھوڑے۔


Iqbal Khursheed October 21, 2013
ترکی، چین، روس، برطانیہ، کینیڈا، ہندوستان، ، ازبکستان، بنگلادیش اور پاکستان کے نام وَر اہل علم کی شرکت نے تقریب کو یادگار بنا دیا۔ فوٹو : ایکسپریس

یہ قصّہ دو اُجلے دنوں پر محیط ہے۔ اِس میں کئی کردار ہیں۔

اور ہر کردار انفرادی حیثیت کا حامل ہے۔ کہانی کا ہر مکالمہ ناقابل فراموش ہے کہ وہ دانائی سے پُر ہے۔ بہت کچھ تو بین السطور ہے۔ کچھ ایسا، جو مکالموں میں سنائی نہیں دیتا، مگر اپنی موجودی کا بھرپور تاثر چھوڑتا ہے!

یہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے تحت ہونے والی دوسری عالمی کانفرنس کا تذکرہ ہے، جو 12۔ 13 اکتوبر شہر لاہور میں منعقد ہوئی، ہوٹل آواری ٹاورز میں، جہاں اَن گنت روشن لمحات نے جنم لیا، جنھوں نے حاضرین کے ذہنوں پر اَن مٹ نقوش چھوڑے۔ ایسی تقریب کا شاہد بننا، بلاشبہ، کسی اعزاز سے کم نہیں۔



کانفرنس کا باقاعدہ آغاز 12 اکتوبر کی صبح کو ایکسپریس میڈیا گروپ کی اسٹیرنگ کمیٹی کے رکن جناب احفاظ الرحمٰن کی افتتاحی تقریر سے ہوا، جس میں سادہ، مگر واضح الفاظ میں اِس سرگرمی کے مقاصد، تقاضے اور اہمیت بیان کی گئی۔ تقریر کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں اور دنیا بھر سے آئے ہوئے ماہرلسانیات، دانش وَروں اور اہل علم نے اپنے مقالات پڑھے۔ بہ ظاہر تو اس یادگار کانفرنس کا آغاز 12 اکتوبر کی چمکیلی صبح ہوا، مگر اِس سے پہلے کی بھی ایک داستان ہے۔ سُننے لائق قصّہ ہے، جس میں وہ بیج پوشیدہ ہیں، جنھوں نے اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ ساٹھ سے زاید، انتہائی قابل احترام شخصیات کو ایک پلیٹ فورم پر اکٹھا کرنا، یقینی طور پر سہل نہیں تھا۔

اس کہانی کا آغاز کئی ماہ قبل، ایک ارادے سے ہوا۔ کہتے ہیں، اگر ارادے پختہ ہوں، تو منزل ازخود قریب آجاتی ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ 2011 کے بعد، ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے پاکستان کے تاریخی شہر لاہور میں دوسری عالمی کانفرنس کے انعقاد کا ارادہ باندھا گیا۔ سینچری پبلی کیشنز کے سی ای او، جناب اعجاز الحق کی سربراہی میں کام شروع ہوا۔ ماضی کی طرح جناب امجد اسلام امجد، جناب پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، محترمہ زاہدہ حنا اور جناب احفاظ الرحمٰن پر مشتمل اسٹیرنگ کمیٹی نے یہ ذمے داری اٹھائی۔



اگلے چند ماہ گہماگہمی اور مصروفیات سے بھرپور تھے۔ مندوبین اور شعرا کی فہرست مرتب کی گئی۔ رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور یہ عمل کئی دنوں پر محیط تھا۔ ٹیلی فون نمبرز اور ای میل ایڈریسز کا حصول، ٹائم زون سامنے رکھتے ہوئے بیرون ملک مقیم اردو کے عشاق سے رابطہ، پھر دعوت ناموں کی تیاری۔ اِس پورے عمل کا حصہ بننا یادگار رہا کہ یہ، طویل ہونے کے باوجود، تجسس سے بھرپور تھا۔

رابطوں کے بعد کتابچے کے لیے مندوبین کے کوائف جمع کیے گئے۔ احفاظ الرحمٰن کی زیرنگرانی کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے میگزین سیکشنز نے اس عمل میں بھرپور حصہ لیا۔ کانفرنس کے آغاز والے روز چار خصوصی صفحات شایع کیے جانے تھے، جن کے مواد اور ڈیزائن کے انتخاب میں ٹھیک ٹھاک وقت صَرف ہوا۔ پھر انتظامی شعبے کے اہل کاروں نے مندوبین کے سفری اور رہایشی انتظامات کی جانب توجہ مبذول کی۔

ایکسپریس ٹیم کی شب روز محنت کا پہلا نتیجہ 11 اکتوبر کی شام، لاہور میں مندوبین کے اعزاز میں دیے جانے والے عشائیے میں سامنے آیا، جس میں پاک و ہند سمت دنیا بھر سے آئے ہوئے اہل علم ایک چھت تلے موجود تھے۔ اس شام کا شاہد بننے والا بہ آسانی اندازہ لگا سکتا تھا کہ اگلی صبح ایک یادگار ادبی تقریب کا آغاز ہونے کو ہے۔ اور 12 اکتوبر کی صبح لاہور کے علم دوست باسیوں نے اِس اندازے پر تصدیق کی مہر ثبت کردی۔ جب کمپیئر، عالیہ شاہ نے مائیک سنبھالا، آواری ٹاورز کا خورشید ہال پوری طرح بھر چکا تھا۔

افتتاحی خطبے کی ذمے داری محترم پیرزادہ قاسم کو نبھانی تھی، مگر ذاتی مصروفیات کی وجہ سے وہ لاہور نہ پہنچ سکے، جس کے بعد جناب احفاظ الرحمٰن نے خرابی صحت کے باوجود یہ ذمے داری اپنے کاندھوں پر لی، اور نہ صرف اِسے بہ خوبی نبھایا، بلکہ ان خطوط کی بھی نشان دہی کر دی، جن پر اس سرگرمی کو آگے بڑھنا تھا۔

اب پہلے سیشن ''اردو رسم الخط کے مسائل'' کا آغاز ہوا۔ صدارت برطانیہ سے آئے ہوئے ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز کر رہے تھے۔ معروف ماہر لسانیات، ڈاکٹر عطش درانی کے علاوہ دیگر مقررین میں ڈاکٹر تاش مرزا (ازبکستان)، ڈاکٹر خلیل توقار(ترکی) اور ڈاکٹر محمود الاسلام (بنگلادیش) شامل تھے۔

اِس سیشن میں یادگار گفت گو ہوئی۔ ڈاکٹر عطش درانی نے تحفظ اردو کے لیے اِسے جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ساتھ ہی خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ہم نے رسم الخط کو کمپیوٹر دوست نہیں بنایا، تو اس زبان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیل توقار نے اردو رسم الخط میں تبدیلی کے امکانات کو رد کر دیا۔ ڈاکٹر محمود الاسلام نے رسم الخط کو زبان کی روح قرار دیا۔ ڈاکٹر تاش مرزا نے مائیک سنبھالنے کے بعد یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھی کہ ان کا نام تاش کے پتوں والے ''ت'' سے شروع ہوتا ہے۔ انھوں نے چند ایسے دُکھ بھرے واقعات بھی سنائے، جو پاکستانی سفارت خانوں میں تعینات افسران کی اردو سے بے زاری کی عکاسی کرتے تھے۔ صدر، ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز کا کہنا تھا کہ اردو کا رسم الخط انتہائی دل کش ہے، اسے ہر صورت باقی رہنا چاہیے۔ انھوں نے اردو کا مستقبل روشن قرار دیا۔

پہلے سیشن کے اختتام پر جب چائے کا دور چلا، تو سیشن میں پڑھے جانے والے مقالات زیر بحث رہے۔

دوسرے سیشن ''دیگر پاکستانی زبانوں سے اردو کی ہم آہنگی'' کی صدارت کر رہے تھے ممتاز ادیب، عبداﷲ حسین، جو ہال میں اپنی آمد کے ساتھ ہی مرکز نگاہ بن گئے۔ مقررین میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر معین نظامی، ڈاکٹر نجیب جمال اور ڈاکٹر نجیبہ عارف جیسے اہل علم شامل تھے۔ ڈاکٹر معین نظامی کسی وجہ سے تقریب میں شرکت نہیں کرسکے۔

اس سیشن میں حاضرین کی بڑی تعداد موجود تھی، جنھوں نے مقررین کے پُرفکر مقالات کو بھرپور توجہ سے سُنا۔ اس دوران تالیاں بھی بجیں، قہقہے بھی لگے۔ خصوصاً ڈاکٹر نجیبہ عارف نے بڑے پُر لطف اور شگفتہ انداز اپنا مقالہ پیش کیا۔ جب سیشن کے صدر، عبداﷲ حسین نے مائیک سنبھالا، تو ماحول یک سر بدل گیا۔ انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا،''صدر کی کرسی پر بیٹھنے والے کو اِس کی فیس ادا کرنی پڑتی ہے، یعنی کچھ بولنا پڑتا ہے، چاہے اِسے کچھ آتا جاتا نہ ہو!'' جس پر ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔

ظہرانے کے بعد تیسرے سیشن ''عام فہم زبان'' کا آغاز ہوا، جس کے صدر، ڈاکٹر شمیم حنفی تھے۔ مقررین میں پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر شاہ محمد مری، ڈاکٹر تھانگ منگ شنگ (چین) اور اشفاق حسین (کینیڈا) جیسی شخصیات شامل تھیں۔ سب نے فکر انگیز اور خیال افروز باتیں کیں۔ اشفاق حسین نے اِس بات پر روشنی ڈالی کہ کیسے سادہ اور اچھے الفاظ، اپنے گھٹتے استعمال کے باعث محدود ہو جاتے ہیں، اور کچھ برسوں بعد متروک خیال کیے جانے لگتے ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری نے اپنی تقریریں کانفرنس میں بہتری کی چند تجاویز پیش کیں۔



جناب صدر نے کہا کہ کسی بھی منافق معاشرے میں پہلا حملہ زبان پر ہوتا ہے، اصلاح کے نام پر زبان کو بگاڑا جاتا ہے۔ پروفیسر تھانگ منگ شنگ چین میں رہتے ہوئے جن تجربات سے گزرے، انھیں بڑی خوب صورتی سے انھوں نے اپنے مقالے کا حصہ بنایا۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا کہ بلوچی، پنجابی، پشتو اور سندھی علاقائی نہیں، بلکہ قومی زبانیں ہیں۔ اپنے جارحانہ آہنگ اور کاٹ دار اسلوب کی بدولت انھوں نے حاضرین سے خوب داد سمیٹی۔

12 اکتوبر کی رات بین الاقوامی شہرت یافتہ ستار نواز، استاد رئیس خان نے اپنے صاحب زادے، فرحان رئیس کے ساتھ اپنی کلا کا شان دار مظاہرہ کیا۔ اس تقریب میں لاہور کے کئی معروف فن کار اور اہل ذوق موجود تھے۔

13 اکتوبر کو پہلا اجلاس ''اردو پر دیگر زبانوں کے اثرات'' کے زیرعنوان ڈاکٹر لڈمیلا ویسیلیوا (روس) کی صدارت میں ہوا، جو فیض شناسی کے حوالے سے اردو دنیا کا معروف نام ہیں۔ مقررین میں ڈاکٹر فخر الحق نوری، ڈاکٹر نعمان الحق، ڈاکٹر آصف فرخی، ڈاکٹر شاداب احسانی اور عطیہ سید شامل تھے۔ تمام مقررین نے گرفت کے ساتھ اپنے مقالات پیش کیے، جنھیں حاضرین نے دل چسپی سے سُنا۔ البتہ ڈاکٹر لڈمیلا کی تقریر سیشن کا اہم ترین واقعہ تھی، جنھوں نے خود کو اردو کا عاشق قرار دیا، اور کہا کہ وہ خود کو صدارت کی اہل نہیں سمجھتیں کہ وہ غریبِ شہر بھی ہیں، اور پھر ماہر لسانیات بھی نہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انتظار حسین کو مین بکر پرائز نہ ملنا سراسر ناانصافی ہے۔ اس بات کی حاضرین نے بھرپور تائید کی۔

پانچویں سیشن کا موضوع تھا، ''پاکستانی معاشرے کا خلفشار اور ادیب کا کردار''، جس پر متنوع اور پُرجوش انداز میں گفت گو ہوئی۔ اس کی صدارت، ڈاکٹر سلیم اختر نے کی، جب کہ مقررین میں اسد محمد خان، مسعود مفتی، مستنصر حسین تارڑ، مسعود اشعر، زاہدہ حنا اور سلیم راز جیسی قابل شخصیات شامل تھیں۔ مسعود مفتی نے اپنے طویل مقالے میں ذاتی تجربے کو برتتے ہوئے بڑی فکر انگیز گفت گو کی۔



سلیم راز نے کھل کر اظہار خیال کیا، اور کہا، ہمارے اہل قلم کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے عوام کو اجتماعی جدوجہد کا راستہ دکھائیں۔ ساتھ ہی انھوں نے پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی تجویز دی۔ اسد محمد خان نے علامتی کہانی کے انداز میں اپنا مقالہ پیش کیا، جسے بہت پسند کیا گیا۔ مستنصر حسین تارڑ نے اپنی مختصر تقریر کے آغاز میں کہا، وہ عمر کے اس حصے میں جہاں اکثر اعضا آرایشی ہوجاتے ہیں، جس پر ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ زاہدہ حنا نے اپنے مقالے میں موضوع کا سیاسی اور سماجی پس منظر کے ساتھ بڑی خوبی سے جائزہ لیا۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے موضوع سمیٹتے ہوئے اہم نکات اٹھائے اور کہا کہ ادیبوں کو نمک حرام نہیں ہونا چاہیے، مگر ہمارے ادیب نمک حرامی سے باز نہیں آتے۔

آخری اجلاس ''بھارت میں اردو'' ممتاز فکشن نگار انتظار حسین کی صدارت میں ہوا۔ مقررین میں ڈاکٹر شمیم حنفی، زبیر رضوی، اصغر ندیم سید اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر شامل تھے۔ اصغر ندیم سید اور ڈاکٹر ناصر عباس نیّر نے اس مسئلے کو مطالعے اور مشاہدے کے وسیلے بڑی خوبی سے پیش کیا، جب کہ زبیر رضوی اور ڈاکٹر شمیم حنفی نے ذاتی تجربے اور براہ راست معلومات کو برتتے ہوئے خیالات کو الفاظ کا پیراہن عطا کیا۔ انتظار حسین نے فاضل مقررین کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے اپنا تجزیہ پیش کیا۔



مذکورہ سیشنز میں اسٹیج سیکریٹری اور کمپیرنگ کے فرائض، عالیہ شاہ اور پروفیسر ڈاکٹر کامران نے احسن طریقے سے ادا کیے۔ آخر میں جناب احفاظ الرحمٰن نے تین قرار دادیں پیش کیں، جن کی حاضرین نے بھرپور انداز میں تائید کی۔ اس کے بعد مندوبین کو شیلڈز اور سند ہائے اعتراف تقسیم کی گئیں۔ دوسرے دن کے اختتام پر مشاعرے کا انعقاد ہوا، جو رات گئے تک جاری رہا۔ اور یوں یہ یادگار تقریب اپنے اختتام پر پہنچی۔

کانفرنس تو ہوگئی، مندوبین اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے، مگر اِس کے اثرات ابھی باقی ہیں۔ یہ اثرات بیرون ملک اور پاکستان کے دیگر شہروں سے آنے والے اہل علم کے ذہنوں میں محفوظ رہیں گے۔ ساتھ ہی احساس کی صورت ان سیکڑوں افراد کے ذہنوں میں بھی باقی رہیں گے، جنھوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس تقریب میں اہل لاہور کو جہاں ترک، ازبک، روسی، چینی اور بنگلا لہجوں میں اردو کی فکرانگیز تقاریر سننے کا موقع ملا، وہیں انھیں پنجابی، پشتو، سرائیکی، براہوی، بلوچی اور دیگر قومی زبانوں کے اُن ادیبوں کے خیالات سے مستفید ہونے کا بھی موقع ملا، جو اردو سے محبت کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں