بہت بڑی تبدیلی کی خبر
کان لگاکر سنا کہ آخر یہ آنکھیں اتنے پردہ نشین آنسووں کو بے پردہ کر کے کونسا ’’وظیفہ‘‘ کروا رہی ہیں۔
خبر پکی ہے لیکن ابھی عام نہیں ہوئی، ہمیں بھی ایک دانائے راز بصیغہ راز نے بتائی ہے جو اپنی خوش قسمتی اور ہماری بدقسمتی سے کالم نگار بھی ہے، تجزیہ کار بھی اور دانش بگھار بھی۔ اس نے بتایا کہ ملک میں اندر ہی اندر بہت بڑی ''تبدیلی'' واقع ہو رہی ہے لیکن یہ تبدیلی اتنے دبے پاؤں اور بے آواز و بے ساز انتہائی راز کے ساتھ آ رہی ہے کہ صرف خال خال ہی لوگ اسے محسوس کر رہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے اس تبدیلی نے ایک جھلک دکھائی تھی لیکن پھر ''کشمیر'' نے اسے ڈانٹ کر پردے میں رہنے کو کہا۔ یہ تبدیلی بھی''پردے'' ہی سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ پردہ صرف خواتین تک محدود نہیں بلکہ اور بھی بہت ساری چیزیں ''پردہ ہے پردہ'' کی قائل ہوتی ہیں یعنی پردے میں رہنے دو۔ جہاں تک خواتین کے پردے کا تعلق ہے تو وہ تو بہت پہلے ایک بزرگ اکبرالہ آبادی خبر دے چکے ہیں کہ وہ پردہ خواتین نے مردوں کو دے دیا ہے۔
بقول اکبرالہ آبادی جب میں نے ان خواتین سے پوچھا کہ تمہارا پردہ کدھر گیا تو وہ گویا ہوئیں کہ مردوں کی عقل ننگی ہو رہی تھی چنانچہ ہم نے ازراہ ترحم مردوں کو دے دیا کہ وہ اپنی عقل کی پردہ پوشی کر لیں، کہیں لوگوں نے اسے دیکھ لیا تو لگ پتہ جائے گا۔ کہ اس ملک کے مردوں کی عقل کتنی غربت زدہ ہے کہ اپنی ستر پوشی بھی نہیں کر سکتی۔
ویسے بھی ہمیں بھڑوں کا چھتا چھیڑنے کی عادت نہیں کہ بھڑیں انتہائی''ڈنک مار'' ہو چکی ہیں، بات بات پر ''ہراسگی'' کا ڈنک لہراتی ہیں جن چیزوں کے پردے کا ذکر ہم کرنا چاہتے ہیں وہ عام یعنی بے پردہ نہیں ہیں لیکن ہم نے تحقیق سے پتہ لگا لیا ہے کہ بہت ساری چیزیں پردہ نشین ہوتی ہیں، مثال کے طور پر چشم گل چشم عرف سوائن فلو کا کہنا ہے کہ علامہ بریانی کے گھر کے ''برتن'' بھی پردہ کرتے ہیں، ان کے گھر کی خواتین بھی اتنا پردہ نہیں کرتیں کبھی کبھی برقعہ چادر میں باہر آجاتی ہیں لیکن ''برتن'' آج تک پردے سے نہیں نکلے ہیں۔
بہت زمانہ پہلے ایک چائے کی پیالی غلطی سے ایک فقیر کے منہ لگی تھی، علامہ کو پتہ چلا تو اس پیالی کو توڑ کر اس پر کافی غصہ ہوئے تھے کہ گھر کے برتنوں کو اگر اس بے پردگی کا چسکا پڑ گیا تو کل کلاں سارے برتن مہمانوں، مسافروں اور غیروں کے منہ لگنے لگیں گے۔ ہماری تو ساری عزت مٹی میں مل جائے گی۔ ہمارے بھی اکثر دوست برتنوں کے پردے کے سخت قائل ہیں بلکہ اب تو یہ وبا اتنی پھیل چکی ہے کہ جہاں چائے پلانا لازم ہو، اس کے لیے بھی کاغذ کے برتن لائے جاتے ہیں۔
دوسری قسم کا پردہ دانتوں کا ہوتا ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے ہیں، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ آج تک کسی نے اس کے دانت نہیں دیکھے ہیں سوائے خود اس کے اور ایک مرتبہ دانتوں کے ایک ڈاکٹر کے۔ وہ دانتوں کے پردے کے اتنے پابند ہیں کہ آپ دس چارلی چپلن، بارہ بات ہوپ، چودہ رنگیلے اور بیس مسٹر بین اس کے سامنے لے آئیں، دنیا کے سارے لطیفے سنائیں یہاں تک کہ کسی لیڈر کی تقریر سنوائیں یا پاپ میوزک دکھائیں، مجال ہے کہ اس کے ہونٹ اپنی جگہ سے ہلیں اور اس کے دانتوں کا پردہ فاش کریں۔ اکثر لوگ خاص طور پر خدمت گاران ملک و ملت تو بہت پردے میں رکھتے ہیں یہاں تک کہ ضمیر بھی۔
خیر وہ تو ہرکسی کا اپنا اپنا نظریہ اور عقیدہ ہے کہ کس چیز کو پردے میں رکھیں اور کس چیز کو نہ رکھیں مثلاً ہم کچھ ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو اپنی بیویوں کو پردے میں بالکل نہیں رکھتے لیکن اپنے بوڑھے والدین کو سخت سات پردوں میں رکھتے ہیں۔ لیکن جس پردے یا پردہ دری کا ذکر ہم کرنا چاہتے ہیں جس کی خبر ہمیں مصدقہ ذرایع سے ملی ہے وہ کچھ اور ہے۔ بلکہ تبدیلی ہے اور بہت بڑی تبدیلی ہے کہ پردہ ایک جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ جا چپکا ہے یعنی جو بے پردہ تھے وہ پردہ دار ہو گئے اور جسے لوگ ہزار پردوں میں چھپاتے تھے وہ بالکل عریاں ہو گئی ہیں۔
تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں پنہاں
رات ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہوگئیں
ان بنات النعش گردوں بلکہ بنات النعش انصاف کا نام ''آنسو'' ہے، لوگ ہزارجتن کر کے اپنے آنسو چھپاتے تھے بلکہ اکثر شعراء نے یہ مضمون بھی بہت باندھا ہے کہ ہم آنسو بہا کر اپنی پردہ دار خواتین کو بے پردہ ہرگز نہیں کریں گے اور اگر کرتے بھی تھے تو رات کے اندھیرے میں کہیں چھپ چھپا کرآنسو بہا لیتے تھے۔
اشکوں کے موتی ہم نے پروئے تمام رات
اس بے وفا کی یاد میں روئے تمام رات
اور اس بے وفا کا نام ہنسی ہے جو لوگوں کے ہونٹوں سے نہ جانے کہاں چلی گئی ہے بلکہ پردے میں چلی گئی۔ بلکہ یوں کہے کہ دانت پردے میں چلے گئے اور آنسو پردے سے نکل آئے اور یہ بہت ہی بڑی تبدیلی ہے۔ اتنی بڑی کہ ہمیں اس دانائے راز کی بات پر یقین نہیں آیا اور بازار میں خود جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ خبر جھوٹی نہیں ہے واقعی جن چہروں پر ہنسی رہتی تھی اور دانت بات بات پر بے پردہ ہو جاتے تھے وہاں ہونٹ اتنی سختی سے بند ملے جیسے رات کو لوگ دروازہ بند کرتے ہیں۔ کہیں پر کسی کے دانتوں کی جھلک بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی جب کہ اوپر کی کھڑکیوں سے موسلا دھار آنسو بہہ رہے تھے ،گویا پردے نے جگہ بدل لی۔ خواتین کا پردہ مردوں کی عقل پر پڑگیا تھا اور یہاں آنسووں کا پردہ ہونٹوں اور دانتوں پر پڑگیا۔
یہ کس کا تصورہے یہ کس کا زمانہ ہے
جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانہ ہے
کان لگاکر سنا کہ آخر یہ آنکھیں اتنے پردہ نشین آنسووں کو بے پردہ کر کے کونسا ''وظیفہ'' کروا رہی ہیں، صرف ایک ہی لفظ پلے پڑا، مہنگائی مہنگائی مہنگائی۔ ایک دکاندار نے تو یہاں تک کہا کہ اب جی چاہتاہے کہ یہ اشک آور دکانداری چھوڑ دوں، پہلے لوگ کیا کھکھلاکر اور اپنے دانت مکمل بے پردہ کر کے آتے تھے اور اب کہیں دور تک دانت دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
وے دانت اے الہیٰ کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کی آنکھیں ترستیاں ہیں
بلکہ آنکھیں برستیاں ہیں، اس تجزیہ نگار کالم نگار اور دانش بگھار نے کہا کہ میرا تجزیہ تو یہ ہے کہ دانتوں کا پردہ ایک دن اتنا سخت ہو جائے گا کہ لوگ آئینے میں بھی اپنے دانت دیکھنے کو ترس جائیں گے اور آنسو اتنے بے پردہ ہو جائیں گے کہ لوگوں کو منہ دھونے کے لیے پانی یا ورد کرنے کے لیے تسبیح کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کیا آپ اب بھی اسے تبدیلی نہیں کہیں گے ؟
کیوں نہ ڈوبے رہیں یہ دیدہ ئے تر پانی میں
ہے بنا مثل حباب اپنا تو گھر پانی میں
اشک سے میرے فقط دامن صحرا نہیں تر
کوہ بھی سب ہیں کھڑے تابہ کمر پانی میں