انصاف مل جاتا
عادلانہ نظم حکمرانی جمہوری معاشروں کی تعمیر میں صحت مند عامل کا کردار ادا کرتا ہے.
این آر او عمل درآمد کیس کے حوالے سے توہین عدالت کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے مورخہ 27 اگست کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ اگرچہ بعض حلقوں کی جانب سے قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ اس مرتبہ حکومت عدلیہ کے ساتھ عدم تعاون کا نیا محاذ کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے اور راجہ پرویز اشرف اپنے پیش رو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرح عدالت میں پیش نہیں ہوں گے تاہم صدر آصف علی زرداری نے حکومت کی اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد عدالت سے کسی بھی قسم کی محاذ آرائی سے گریز کا دانشمندانہ فیصلہ کیا اور عدالتی حکم کی تعمیل میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے مورخہ 27اگست کو سپریم کورٹ کے معزز بینچ کے سامنے پیش ہوکر ثابت کردیا کہ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادی عدالتوں کا مکمل احترام کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے عدالت میں نہایت شائستہ لب ولہجے معزز ججز صاحبان سے مکالمہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ انھیں ابھی منصب وزارت عظمیٰ سنبھالے ہوئے صرف 60 روز ہوئے ہیں ملکی صورتحال اچھی نہیں ہے اور بے شمار مسائل و مشکلات کا سامنا ہے اور یہ معاملہ (توہین عدالت) بھی پیش نظر ہے جس کے لیے انھیں اپنے اتحادیوں اور کابینہ ارکان سے تفصیلی مشاورت کرنی ہے تاکہ اس معاملے کا مستقل حل تلاش کیا جاسکے لہٰذا انھیں 4/6 ہفتے کا وقت دے دیا جائے جس پر عدالت نے وزیراعظم کو 3ہفتے یعنی 18ستمبر تک مہلت دے دی ہے۔
دراصل وزارت عظمیٰ میں زیر سماعت قومی مفاہمتی آرڈیننس کے حوالے سے وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کا بنیادی نکتہ سوئس حکام کو ایک خط ارسال کرنا ہے تاکہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف وہ مقدمات دوبارہ کھل جائیں جو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے اکتوبر 2007ء میں جاری کردہ قومی مفاہمتی آرڈیننس المعروف این آر او کے تحت ختم ہوچکے تھے تاہم بعد میں عدالت عظمیٰ نے این آر او کو کالعدم قرار دے دیا اور سوئس حکام کو اس ضمن میں خط لکھنے کا حکم جاری کردیا۔
حکومت پاکستان کا سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے موقف یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 248شق دو کے تحت صدارت کے منصب جلیلہ پر فائز شخصیت خواہ وہ صدر آصف علی زرداری ہوں یا کوئی اور کو مدت صدارت تک مقدمات سے استثنیٰ حاصل ہے لہٰذا آئین کی پاسداری کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری کے منصب صدارت پر فائز رہنے کی مدت تک ان کے خلاف مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا جاسکتا۔ اس حوالے سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بڑا واضح اور دو ٹوک موقف رکھتے تھے۔
انھوں نے ایک موقعے پر لاہور میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''کسی کی ایڈوائس پر نہیں بلکہ آئین پر چلوں گا۔آئین صدر کو استثنیٰ دیتا ہے جسے پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اس استثنیٰ کو آئین میں ترمیم کیے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا اور یہ کام پارلیمنٹ کا ہے اگر میں چیف جسٹس ہوتا تو معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیتا۔اگر توہین عدالت لگانی ہے تو مجھ پر نہیں پارلیمنٹ پر لگائی جائے جس نے استثنیٰ کو اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں ترمیم میں بھی برقرار رکھا۔ اگر سوئس حکام کو خط لکھنا ہوتا اتنی دیر کیوں لگاتا۔'' یوسف رضا گیلانی اپنے اس موقف پر آخر وقت تک پورے یقین کے ساتھ قائم رہے۔ نتیجتاً انھیں توہین عدالت کے جرم میں نا اہلی کا سامنا کرنا پڑا۔
بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ حکومت کے نزدیک یہ آئین کی پاسداری کا معاملہ ہے اور ملک کا آئین ہر حوالے سے سپریم ہے اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ کاروبار مملکت چلانے کے لیے آئین ہی سب سے زیادہ مستند اور مقدس دستاویز ہے، ریاست کے تمام ادارے آئین کے تحت ہی قائم ہوتے ہیں اور آئین میں متعین حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض و ذمے داریاں ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف ہوں، یوسف رضا گیلانی ہوں یا کوئی اور وزیراعظم آئین کی پاسداری اور ملک سے وفا کا حلف اٹھاتا ہے اور تمام حکومتی معاملات آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے حل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام عادلانہ اور جمہوری معاشروں میں آئین و قانون کی پاسداری سب سے پہلا رہنما اصول مانی جاتی ہے اور آئین کی عمل داری ہی وہ پہلی اکائی ہے جو جمہوری نظام حکومت کے استحکام کی ضامن ہے۔
عادلانہ نظم حکمرانی جمہوری معاشروں کی تعمیر میں صحت مند عامل کا کردار ادا کرتا ہے جب کہ انا پرستی، ذاتی عناد، باہمی رنجشیں ، شخصی تضادات کے پس منظر میں آئین و قانون سے صریحاً انحراف کے باعث لاتعداد مسائل جنم لیتے ہیں جہاں طاقت، ضد، منتقمانہ مزاجی اور آمرانہ طرز عمل کے ذریعے ہر صورت اپنی بات منوانے اور رہنما آئینی اصولوں کو نظر انداز کرنے کی بودی روایت پڑجائے وہاں عادلانہ جمہوری نظام کے قیام، ریاستی اداروں کے استحکام، آئین و قانون کی بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں تمام آئینی و ریاستی ادارے ایک دوسرے پر بالادستی حاصل کرنے کی دوڑ میں مصروف رہتے ہیں۔
آج ملک کی عدلیہ آزاد ہے اور پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت آئین کی پاسداری کا عزم کیے ہوئے ہیں اسی عزم مصمم کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی نا اہل ہوگئے جس کو وال اسٹریٹ جنرل نے ''ایک سول حکومت کی غیر فطری موت'' قرار دیا تھا جب کہ بھارت کے ایک ریٹائرڈ جسٹس مرکھنڈے کانجو نے اپنے تبصرے میں کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنی آئینی حدود سے تجاوزکیا۔ اعتزاز احسن کہتے ہیں دنیا کی گزشتہ 500 سالہ تاریخ میں کسی ریاستی عدالت نے اپنے سربراہ مملکت کو کسی دوسرے ملک کی عدالت کے سامنے نہیں بھیجا۔ یہ تجزیے یقیناً غور طلب ہیں کیا اب راجہ پرویز مشرف کی باری ہے؟ ہمارے ایک مہربان ضیاء کھوکھر صاحب نے بڑی دلچسپ اور معنی خیز بات کہی کہ وزیراعظم نے عدالت سے وقت مانگا جو مل گیا اگر وہ ''انصاف'' مانگتے تو انھیں ''انصاف'' مل جاتا ...!