ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
الیکشن کے زمانے میں دو چار پارٹیاں ایسی تھیں جن کے جلسوں پر خودکش حملے ہوئے۔ وہ ساری پارٹیاں سیکولر...
الیکشن کے زمانے میں دو چار پارٹیاں ایسی تھیں جن کے جلسوں پر خودکش حملے ہوئے۔ وہ ساری پارٹیاں سیکولر خیالات رکھتی تھیں۔ الیکشن کے بعد سب سے زیادہ اس پارٹی کو نشانہ بنایا گیا جو حملہ کرنے والوں کی زیادہ وکالت کیا کرتی تھی اور اب بھی کرتی ہے۔ مذاکرات کی دعوت کا شور و غوغا جتنا اب ہو رہا ہے اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مگر وہ کہتے ہیں ''آئیں مذاکرات کریں مگر آپ اپنے آئین کو مذاکرات سے پہلے دفن کر کے آئیں۔'' اور حقیقت یہ ہے کہ خود مذاکرات کی، آئین کے دیے ہوئے طریقہ کار سے ملے ہوئے مینڈیٹ کے ذریعے سے دعوت دی گئی ہے۔ اس دعوت کو پوری قوم کی تائید حاصل ہے اور یہ دعوت خود آئینی دعوت ہے، تو پھر ایک لحاظ سے اس پر ردعمل ظاہر کرنا خود آئین کو بحیثیت اس ملک کا اعلیٰ ترین قانون ماننے کے مترادف ہے۔ لیکن وہ جس سے مذاکرات اگر چاہتے بھی ہیں تو اسے بھسم کرنا بھی چاہتے ہیں۔
خود آئین ایک Legal Order ہے، یعنی لوگوں کے رہن سہن، ان کی سوچ، ان کی روایات، ان کے اچھی بری سوچ کی تمیز رکھنے کا مظہر ہے، جو آئین اس طرح نہیں ہوتے وہ پھر آئین بھی نہیں ہوا کرتے۔ یعنی آئین کا Grundnorm ہونا ضروری ہے، قانون کا فلسفہ (jurisprudence) کہتا ہے کہ جب آئین اور Grundnorm میں تضاد آ جائے تو پھر آئین نہیں Grundnorm کا بول بالا ہوتا ہے، یعنی لوگوں کی روایات، اپنے بنائے ہوئے طریقے، جرگہ وغیرہ چلتے ہیں۔ اس لیے آئین کو آمر نہیں لوگ بنایا کرتے ہیں، ان کے اسمبلی میں بھیجے ہوئے منتخب نمائندے بنایا کرتے ہیں، جسے آئین ساز اسمبلی کہا جاتا ہے، جو 1970میں الیکشن کے ذریعے بنی تھی اور یہ آئین آسانی سے نہیں بنا تھا، پاکستان کے وجود میں آنے کے 26 سال جمہوری تگ و دو کے بعد بنا تھا۔
1947میں معروضی وجود میں آنے کے بعد برطانیہ کی پارلیمنٹ نے Indian Independence Act کے تحت اس ملک کے لیے ایک آئین ساز اسمبلی بنائی تھی اور ہندوستان کے لیے بھی۔ انھوں نے چار سال میں آئین بنا لیا اور ہم 26 سال میں آئین نہیں دے سکے۔ 1956 میں جو آئین آیا وہ ایک سال بھی نہ چل سکا، ایوب نے جو آئین دیا وہ خود آئین کے بنیادی طریقہ کار کے منافی تھا یعنی لوگوں کے منتخب نمائندوں نے اس کی تشکیل نہیں کی تھی، وہ کمزور آئین تھا اسے جنرل یحییٰ نے ختم کیا اور پھر یہ ملک ٹوٹ گیا۔ شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام تو دیا مگر جناح کی گیارہ اگست والی تقریر سے انحراف نہیں کیا، ان کے آرٹیکل دو کے تحت ملک کو ایک جھٹکے میں سیکولر ریاست قرار دے دیا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے اور کئی چیلنجز تھے، ان کے پاس اکیلے آئین کو بنانے کا مینڈیٹ نہیں تھا، انھیں سب کو ساتھ لے کر چلنا تھا۔ بھٹو نے قرارداد مقاصد کو آئین کا preamble بنایا، آرٹیکل دو میں یہ واضح کہا گیا کہ پاکستان اسلامی فلاحی ریاست ہے اور قادیانی کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آئین اگر اپنی روح میں Grundnorm نہیں ہو گا، نہ کوئی آمر آئے گا اور اس کا حشر بھی وہی ہو گا جو 1956ء کے آئین کا ہوا، اور جو 1962ء کے آئین کا ہوا، اس لیے آئین پر کلی اتفاق Consensus ڈاکومنٹ ہونا ضروری تھا۔
ابھی پاکستان آئین کی جڑیں گہری نہیں کر پایا تھا کہ امریکا کو ہمارا ایٹمی طاقت ہونا پسند نہ آیا، بھٹو کا اسلامی سربراہی کانفرنس بلانا اچھا نہیں لگا۔ اس ایک شخص نے مزا چکھا جس نے مذہب کو استعمال کیا اور اسلام کا نام لے کر لوگوں کا حق حکمرانی ان سے چھین لیا۔ اس کے باوجود وہ آئین کو ختم نہیں کر سکا اور ختم کر بھی نہیں سکتا تھا، کیونکہ آئین بھٹو کا بنایا ہوا نہیں تھا، یہ تو سب کا بنایا ہوا تھا۔ یہ متفقہ دستاویز Consensus ڈاکومنٹ تھا، ہاں مگر اس کا حلیہ بہت بگاڑ دیا ۔ بہت سوں کی رائے یہ ہے کہ اس کو اور اسلام کے عین قریب کیا۔ اس دو رائے میں اگر اختلاف بھی ہو سب اس بات پر متفق ہیں کہ آئین میں ترمیم یا تبدیلی لانے کا طریقہ کار وہی ہے جو آئین میں دیا گیا ہے۔ اس لیے ضیاء الحق کے زمانے میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے کی ہوئی ترامیم میں ترمیم یا وہ ختم اسی صورت و طریقہ کار کے ذریعے کی جائیں گی جو آئین کے آرٹیکل 238 میں وضع کی ہوئی ہیں۔ بالکل اسی طرح حکومت کی مذاکرات کی طالبان کو دی ہوئی دعوت خود پاکستان کے آئین کی دی ہوئی دعوت ہے اور اس آئین کے ساتھ وفاداری کا حلف نہ صرف وزیر اعظم نواز شریف نے لیا ہوا ہے بلکہ خود وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے لے کر سپریم کورٹ کے ہر جج اور فوج کے ہر جنرل سے لے کر ہر نوجوان نے لیا ہوا ہے۔
اگر طالبان الیکشن میں کھڑے ہو جائیں اور اس آئین میں ترامیم لانے کا ایک Menifesto دے کر انتخاب لڑیں اور اگر جیت جائیں تو بے شک بڑی خوشی سے آئین میں ترامیم لائیں۔ یہ کوئی حسنی مبارک والا آئین تو ہے نہیں یا آج مصر جس کرب سے گزر رہا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ان ساٹھ سال میں وہ آئین کی حقیقی روح کے مطابق آئین نہیں دے سکے۔ ورنہ سامراج کے ساتھ ٹکرانے میں جمال ناصر سے بڑا کوئی اور لیڈر کون ہو گا، مگر تھے وہ بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سیکولر۔ مسلم امہ کو سامراجی شکنجوں سے بچانے کے لیے کسی اور نے اتنی قربانیاں نہیں دی جتنی اس سیکولر مسلمان قیادت نے دی ہے۔
امریکا نے جب چاہا ہمارے مذہب کے اندر کچھ مکتبہ فکر کے لوگوں کے ساتھ مل کر ہمیں یورپی یونین سے لڑایا۔ پھر ہم میں شیعہ و سنی کا تفرقہ ڈالا، ہمیں اِس سے لڑایا، اُس سے لڑایا اور آج دنیا کے کسی مذہب والے آپس میں اتنے دست و گریبان نہیں جتنے ہم آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ یہاں اگر طالبان کو یہ شوق ہے کہ وہ بالشویک کے انقلاب کی طرح انارکی پھیلا کر اقتدار پر قبضہ کر لیں گے تو پھر یوں کہیے کہ وہ وہی شریعت دیں گے جو ان کے قائد ملا عمر نے افغانستان کو دی تھی۔ ہو سکتا ہے عمران خان یا کوئی اور ڈر کے مارے اسے قبول بھی کر لے لیکن وہی امریکا اور پوری دنیا ان سے براہ راست ٹکرائو میں آ جائے گی جس طرح ملا عمر کے خلاف اکٹھا ہو گئی تھی۔ رہا سوال یہ کہ بالشویک انقلاب کیوں کامیاب ہو گیا تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا کی طاقتیں آپس میں لڑ بھڑ کر بہت کمزور ہو گئی تھیں اور یہ موقع ٹراٹسکی کے بقول بہت سنہری موقع ہے مگر وہ بھی اس لیے نہیں چل سکا کہ وہ آئین کے بنائے ہوئے ایک اصول سے انحراف کر گیا، وہ تھا انسانی حقوق، وہ بھی نظریاتی ریاست بن گیا۔
ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ جسے Basic Structure تھیوری بھی کہا جاتا ہے، اس کا سب سے بڑا ستون بنیادی حقوق پر استوار ہے اور کوئی بھی آئین، آئین نہیں ہو سکتا جب تک اس میں بنیادی حقوق واضح انداز میں موجود نہ ہوں۔ اس بنیادی حقوق کا علمبردار بن کے دنیا ملالہ کو پیش کر رہی ہے اور یہ بات طالبان بالکل سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کو ڈرون اتنے تباہ نہیں کر سکتے جتنی یہ بات کہ وہ بنیادی انسانی حقوق ، مثال کے طور پر عورتوں کے حقوق یا برابری کا درجہ دینے کے خلاف ہیں، ان کے تعلیم حاصل کرنے کے خلاف ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آئین اور کچھ نہیں بلکہ Social Contract ہے، یہ سماجی معاہدہ ہے۔ پاکستان کے 18 کروڑ عوام کو طالبان کون سا سماجی معاہدہ دینا چاہتے ہیں، خود ان کو اس بات کی خبر نہیں۔ نیا سوشل کنٹریکٹ اگر وہ دینا بھی چاہتے ہیں یا یہ کہ ان کے پاس ہے تو میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ سوشل کنٹریکٹ یا آئین بندوق کی نوک پر نہیں دیے جاتے بلکہ رضا مندی سے دیے جاتے ہیں۔ غالبؔ کا مشہور شعر عرض ہے۔
ہم کو ان سے ہے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
جن کو آئین و مذاکرات کی باتیں سمجھ نہ آئیں، ان سے باتیں یا مذاکرات کرنے کا قوم کو کیا فائدہ؟