انسانی صفت کی ایک عام اور بری قسم
بدقسمتی سے ہمارے سماج ، ہمارے معاشرے یا ہمارے گرد وپیش میں اکثریت لوگوں کی زندگی نمائشی اور مصنوعی ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ اگر چشم بینا ہو تو انسان قدم قدم پر نہ صرف عبرت سمیٹتا ہے بلکہ اس سے سبق بھی حاصل کرتا ہے۔ چشم فلک نے تکبر ، رعونیت اور رعب و دبدبے کو چکنا چور ہوتے بھی دیکھا اور بے بس بھی۔ اس لیے جب ہم شوبزکے متعلق العنان لوگوں ، حکمرانوں ، بیوروکریٹس اور میڈیا سے وابستہ لوگوں کو شہرت یا اقتدارکے تکبر میں مبتلا دیکھتے ہیں تو پھر وہی اٹل حقیقت نظر آتی ہے کہ بڑی ذات صرف اللہ ہی کی ہے اور اپنے اپنے وقت کے آسمان بالآخر پیوند خاک ہوگئے۔ جو کل تھے وہ آج نہیں اور جو آج ہیں وہ کل نہ ہوں گے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ غرور ، گھمنڈ یا تکبر سب ایک خاص لیکن بہت ہی بری قسم کے نام ہیں جو تقریباً ہر با وسیلہ انسان کو بالآخر ایک روز حقیر شخص میں ظاہرکرکے ہرکس و ناکس کے سامنے لاکھڑا کرتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے سماج ، ہمارے معاشرے یا ہمارے گرد وپیش میں اکثریت لوگوں کی زندگی نمائشی اور مصنوعی ہے۔ ان میں خاندانی وضع داری نام کو نہیں اور ان کا سمبل یا اسٹیٹس صرف اور صرف دولت اور اس کا دکھائوا ہے ایسے ''نو دولتیے'' اپنے آپے سے باہر ہوگئے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ قدرتی طور پر قد وقامت کے لحاظ سے بہت چھوٹے لیکن اپنے قد سے بہت اونچی باتیں اور حرکتیں کرتے رہتے ہیں اور بعض قدآور بھاری بھرکم تن وتوش والے اپنے حجم یا اپنے وزن کو بھی نہیں دیکھتے اور اتنی سستی، ہلکی، تمسخرانہ اور سطحی گفتگوکرتے ہیں اور صرف ظاہر داری یا دکھائوے اور مال ومتاع کو ہی سب کچھ سمجھتے اورکسی کوکچھ نہیں سمجھتے۔
ہمارے مشاہدے میں یہ بات بھی ہے کہ ہمارے اطراف رہنے والے بیشتر لوگوں کی گردنوں میں سریا آگیا ہے اور وہ حد درجہ متکبر ہوتے جا رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ غرور یا تکبر اللہ کو قطعی پسند نہیں۔ اسی بنا پر ایسے لوگ جلد یا بدیر اللہ کی پکڑ میں آکر عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کِبر اللہ کا وصف ہے اور اللہ اپنا یہ وصف کسی بندے کے پاس برداشت نہیں کرتا ، غرور کو اللہ کی چادر بھی کہا جاتا ہے اور جو اسے کھینچتا یا اپنے اوپر اوڑھتا ہے وہ جلد یا دیر سے اللہ کی پکڑ میں آجاتا ہے۔
معاشرہ ہو یا ملک یا پھر لوگ تاریخ گواہ ہے یہ فرعون اور نمرودکی طرح عبرت کا نشان بن جاتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں آج تک کسی مغرور شخص کو عزت وتوقیر نصیب نہیں ہوئی اور وہ بالآخر ذلت و رسوائی تک پہنچ کر رہا۔ ہم نے اپنی صحافتی زندگی میں ایک بات یہ سیکھی ہے کہ جو شخص طاقتور ہوکر جھکا، لوگوں کو عزت دی اور ان کی آسانیوں کا سبب بنا دلوں میں امر ہوگیا۔ مگر جو شخص اقتدار میں آکر متکبر ہوا وقت آنے پر بے یارومددگار اور ذلیل و رسوا ہوا۔ آپ اور ہم لوگوں کو پیار سے جیت سکتے ہیں تکبر یا اختیار کی لاٹھی سے نہیں۔
ریڈیو پاکستان میں ایک پروگرام پروڈیوسر ہوا کرتے تھے جن کا کہنا تھا کہ '' کوئی مانے یا نہ مانے دنیا کی اہم ترین ہستی میں ہوں ، مجھ سے برتر اور مجھ سے بہتر اورکوئی ہے ہی نہیں۔'' ریڈیو پاکستان کے یہ پروڈیوسر بس میں اس لیے سفر نہ کرتے کہ ان کے برابر میں نہ جانے کون بیٹھ جائے۔ وہ رکشے یا ٹیکسی میں سفرکرتے۔ کوئی بھی شخص وہ خواہ کسی حیثیت کا ہو وہ اس سے اس طرح بات کرتے جیسے وہ خود کسی پہاڑکے اوپر کھڑے ہیں اور ان کا مخاطب نشیب میں کھڑا گردن اٹھا کر ان کی طرف دیکھ رہا ہے۔
انھوں نے ایک مرتبہ ایک صحافی سے کہا '' میں ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں جس کا عنوان ہوگا '' میں ، میں اور میں'' صحافی نے برجستہ کہا '' سرورق پر بکری کی تصویر ضرور لگوائیے گا کیونکہ ایسی آوازیں تو اسی کے گلے سے نکلتی ہیں۔''
سبھی جانتے ہیں کہ منصب ، عہدے ، اختیار اور اقتدار ملنے کے بعد ہر فانی انسان اپنا آپ بھول جاتا ہے اور اپنے ارد گرد حاشیہ برداروں کی فوج رکھ لیتا ہے، جو اسے حقیقت کی دنیا کی طرف جانے ہی نہیں دیتے اور پھر ایسے انسانوں کی غالب اکثریت اقتدار یا منصب کی مسحورکن خوشبو میں اس بری طرح جکڑتی ہے کہ اس سے باہر نکلنے، دیکھنے اور محسوس کرنے کی اسے مہلت ہی نہیں ملتی۔ اور کون سا انسان اس دنیا میں ایسا ہے جو خوش یا آسودہ رہنا نہ چاہتا ہو۔ اقتدار میں پیسہ ، اختیار ، شہرت اور تعریف و توصیف سب کی سب خوشی اور سرشاری کا سبب ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے خوشی کا یہ سامان کون چھوڑنے پر تیار ہوسکتا ہے؟
ملکی افق پر جانچیں تو اختیار و اقتدار نے کتنے ہی اور کس قدر حکمرانوں کو غرور و تکبر میں بد مست ہاتھی کی طرح ڈولتے اور بالآخر خاک چاٹتے دیکھا ہے۔ ان کی حرکتیں، اقدامات، جملے ان کا بڑبولا پن بالآخر انھیں ہلکا اور بعدازاں ''چلتا '' کرنے کی مرکزی وجہ بنا۔ دورکیوں جائیں لمحہ موجود میں جھانکیں اور دیکھیں سپریم سطح پر ہو کیا رہا ہے؟ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ وقت میں ایک سخت گیر سیاسی بندوبست، آمرانہ رجحانات اور ریاستی طاقت کا بے محابا استعمال نوشتہ دیوار ہے۔ لیکن تاریخ نے اس دیوار پر انمٹ روشنائی سے لکھ دیا ہے کہ یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوسکتا، کیونکہ انفرادی توسیع پسندی کی تسکین ممکن ہے لیکن قومی امکان کے پر پرواز پرگرہ نہیں لگائی جاسکتی۔
کاش زوال کا گھونٹ بھرنے اور عروج کا جام نوش کرنے کے تمنائی یہ جان پاتے کہ دنیا کی زندگی بڑی عارضی ہے، فانی ہے۔ ایسے لوگ جن کے گرد کل ہماری سیاست گھومتی تھی، ایسے لوگ جو کل تک ہمارے میڈیا کی رونق ہوا کرتے تھے وہ آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اس وقت جو لوگ میدان عمل میں ہیں وہ دنیاوی حقیقت اور زندگی کے آگے اپنی طاقت کو ہی سامنے رکھتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کل انھی مناصب اور انھی جگہوں پر دوسرے لوگ بیٹھے تھے جو شاید ہر حوالے سے ہم سے بڑے لوگ تھے۔
چشمِ تصور سے دیکھیں تو قد آدم سے کچھ زیادہ قامت رکھنے والے وہ مہربان چہرے آنکھوں میں گھومنے لگتے ہیں جو اب نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ اس سے گو رات کا اندھیارا دور نہیں ہوتا اور دن کی بے آبرو فحاشی کی خجالت کم نہیں ہوتی مگر یہ حوصلہ ضرور ملتا ہے کہ آنے والے کل کی جستجو میں آج کی تاریخی سے کشمکش ہمارے پرکھوں کی امانت بھی تو ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ لوگوں کو عزت، احترام اور پیار دینے والے لوگ اقتدار اور منصب سے الگ بھی ہوجائیں تو بھی ان کی خوشبوگم یا کم نہیں ہوتی لیکن جہاں غرور ،گھمنڈ یا تکبر والے لوگ اگر بااختیار بھی ہوں تو ان کی بدبو پھیل جاتی ہے۔
یہ اقتدار اور اختیار والوں کے ہی ہاتھ میں ہے کہ لوگوں کو عزت دے کر اپنی خوشبو کو امر کر دیں یا تکبر کے ذریعے اپنی شخصیت کو بدبودار بناکر ہر سو پھیلا دیں۔ ویسے بھی ہم جیسے ناقص العقل انسان بہرحال ہر وقت سیکھنے اور سمجھنے کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ جو آج ہیں کل نہیں تھے اور جو آنے والے کل ہوں گے وہ آج نہیں ہیں۔