اور لائن کٹ گئی
مولانا کے آزادی مارچ میں جو مجھے اچھا نہ لگا، وہ ان کا آخر کار مذہبی بیانیہ میں پناہ لینا تھا۔
لگتا نہیں کہ سب ایک پیج پر ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی اس حوالے سے پہل کر چکے ہیں۔ حکومت کی میاں صاحب کے حوالے سے جو پالیسی ہے اس پر کھل کر تنقید بھی کر چکے ہیں۔ متحدہ کے امین الحق بھی اپنی رائے دے چکے ہیں۔ ان کے اتحادیوں میں اختر مینگل ان سے بھی ایسی امید کی جا سکتی ہے اور وہ بھی کسی وقت اپنے خیالات سے ہمیں آشنائی دیںگے۔ چوہدری شجاعت تو دو قدم اور آگے آکے بول رہے ہیں کہ حالات یوں خراب ہو رہے ہیں کہ تین مہینے بعد کوئی بھی وزیر اعظم کا عہدہ قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو گا۔
باتیں تو خان صاحب سب ہی مانتے تھے مگر لگتا ہے کہ میاں صاحب کے معاملے میں وہ کچھ پرسنل ہو گئے ہیں۔ یہ وہ پوائنٹ ہے جہاں سے ڈور الجھی تھی اب تک وہ سلجھ ہی رہی ہے کہ فضل الرحمان کس کے اشارے پر میدان میں اترے تھے، کیا صرف ایک طرف سے اشارہ تھا یا اطراف سے اشارے تھے؟ خیر یہ بات اب کہی جا سکتی ہے کہ چوہدری برادران پہلے سے مولانا سے رابطے میں تھے اور اس سے پہلے بھی جس طرح پنجاب حکومت چل رہی تھی وہ اس پر مختلف مواقع پر اظہار بھی کر چکے ہیں۔ خود پنجاب کی حکومت بھی وفاقی حکومت کی طرح اتحادی حکومت ہے اور سب سے بڑی اتحادی پارٹی چوہدری برادران ہیں۔
مگر ابھی تک اس زنجیر وہ کڑی نہیں ملی کہ چوہدری برادران کے پیچھے کون ہے؟ کیا مولانا سے کوئی رابطہ اسٹیبلشمنٹ کا بھی تھا؟ لیکن اس بارے میں ہمیں اب بہت دیر تک انتظار نہیں کرنا پڑیگا۔ اب دھرنا بھی ختم یا یوں کہیے پلان اے پلان بی کے تحت تحلیل ہو گیا ہے اور اب ملک گیر ہو کر وہ تمام شاہراہیں جو پورے ملک کو آپس میں جوڑتی ہیں وہ بند کی جا رہی ہیں مگر مجموعی طور پر مولانا اور ان کا آزادی مارچ اتنی راہیں تو کھول چکا ہے کہ ممکن ہے کہ ان ہائوس تبدیلی والی تحریک اب کے اس کا نعم البدل ہو اور ہو سکتا ہے کہ ابتداء پنجاب اسمبلی ہو۔
جو معاشی بحران خان صاحب کو ورثے میں ملا۔ جنرل مشرف کے بعد یہ پہلی حکومت ہے جو اس ڈیڑھ سال میں مالیاتی ڈسپلن لاگو کرنے میں بہت اعتماد کے ساتھ آگے بڑھی ہے۔ جو بھی ملک پر قرضے ہیں وہ تو ماضی کی حکومتوں بالخصوص اسحاق ڈار کے زمانے میں لیے گئے تھے لیکن اس مالیاتی ڈسپلن کی قیمت اتنی نہ ہوتی اگر یہ حکومت کچھ تجربہ رکھتی۔ غربت ایک وبا کی طرح پھیل رہی ہے اور افراط زر بھی۔ اس لیے یہ بات ہمیں ماننی چاہیے کہ معاشی اصلاحات سے اصولی وابستگی اگر ان بیس سالوں میں آنیوالی حکومتوں میں سے کسی کی رہی ہے تو یقینا وہ خان صاحب کی حکومت کی ہے۔
کچھ تاثر یہ بھی ہے کہ اس میں خان صاحب کا کچھ لینا دینا نہیں یہ کام براہ راست آئی ایم ایف اور ان کے پیچھے کے لوگ کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر خان صاحب کے پاس ہے کیا؟ خان صاحب کی حکومت میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے کچھ کام بہت بہتر بھی ہوئے ہیں، میاں صاحب نے کشمیر کے مسئلے میں اگر کچھ متحرک ہوئے بھی تھے تو زیادہ سے زیادہ ایک تعطیل کا اعلان کر دیا بس۔ یہ خان صاحب تھے جنہوں نے تعطیل کی بجائے ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ یہاں سے بارڈر کراس کر کے جانے سے یا کسی بھی ایڈونچر سے کشمیر کاز کا نقصان ہو گا۔ یقینا جو اس دفعہ کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ گرائے گئے ہیں اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی مگر ہم سوائے اس کے کہ ان کی اخلاقی مدد کریں اور کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
خان صاحب کے زمانے ایک اہم پیشرفت کرتارپور راہداری کا آغاز ہے اور اب صرف خان صاحب ہیں یا اسٹیبلشمنٹ ہے جو چین کے قریب بھی ہے اور امریکا کے بھی۔ اب دنیا کا جو پاکستان کے بارے میں نظریہ ہے اس کو آہستہ آہستہ اہمیت دی جا رہی ہے ۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کو اہمیت دینے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ یہاں تک کہ اب سعودی عرب بھی چاہتا ہے کہ پاکستان، ہندوستان کے ساتھ جو دیرینہ تنازعات ہیں وہ حل کرے۔ ہمارے اوپر ایف اے ٹی ایف کا گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔
اس وقت تمام بین الاقوامی گارنٹیاں جو پاکستان کے حق میں ہیں اگر خان صاحب چلے بھی جاتے ہیں تب بھی یہ کہیں نہیں جاتیں۔ اور اگر خاں صاحب رہ بھی جاتے ہیں تو بھی کوئی بری بات نہیں مگر خان صاحب کو سیاست اور اپنے جذباتی رویوں اور پی ٹی آئی کے اندر موجود بیانیہ سے الگ رکھنا ہو گا ورنہ پھر یہ نہ ہو کہ مؤرخ پھر سے کوئی کتاب نہ لکھ دے جو مولانا کوثر نیازی نے ''اور لائن کٹ گئی'' کے عنوان سے تحریر کی تھی۔ بہت ہی وفادار تھے، جنرل ضیاء الحق، ہمارے بھٹو صاحب کے مگر حالات جو تبدیل ہوئے تو پھر سب سے پہلے بھٹو پر گھیرا تنگ کرنیوالا کوئی اور نہیں جنرل ضیاء الحق ہی تھا۔
ہماری سرحدیں ہندوستان کے ساتھ وہ بھی کرتارپور کے طرز پر، کسی معجزہ سے کم نہیں اور یہ کام کسی اور نے نہیں بلکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے کیا ہے۔ ماضی میں جب واجپائی لاہور آئے تھے، اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل مشرف ان سے ملنے کو تیار نہ تھے اور پھر کچھ مہینوں میں کارگل کا واقعہ بھی پیش آگیا اور اب یہ عالم ہے کہ ہم وہ کام کر رہے ہیں جو کام ماضی بعید میں کیے جاتے تھے کہ گاندھی، جناح یا پھر نہرو جیسی قیادتیں کریں گی۔
اب یقینا یہ بات دور تلک جائے گی۔ ہم بھی خواجہ کے پاس اجمیر شریف جائینگے اور وہاں سے بھی یاتری سندھ اڈیرو لال آئینگے۔ یہ راستے پھر ایران کی طرف بھی کھلیں گے۔ جوں جوں اعتماد کی فضا بڑھے گی ملکوں کی سرحدیں آپس میں ملتی جائینگی۔ دنیا کا بدنصیب خطہ ہے، جہاں ہم رہتے ہیں، اس طرح سرحدوں کا بند ہونا شاید ہی کسی خطے میں ایسا ہوتا ہو؟ اور پھر نقصان کیا ہوا؟ مہنگائی عروج پر، ٹماٹر تین سو روپے کلو! کوئی یہ تو بتائے ایران میں ٹماٹر کی کیا قیمت ہے؟ اگر بارڈر کھلے ہوں تو اربوں ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔ جس طرح جرمنی، فرانس اور دوسرے ممالک بچاتے ہیں۔
تجارت وہ عنصر ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے جس کو معیشت کی زبان میں comparative advantage کہتے ہیں یعنی جو چیز آپ اچھی اور سستی بنا سکتے ہیں وہ آپ بنائیں میں آپ سے خریدوں گا اور جو چیز میں سستی اور بہتر بنا سکتا ہوں وہ آپ خریدیں گے۔ کل تک ہم ہندوستان کے ساتھ تب ہی حالات بہتر بنانے پر بضد تھے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل ہو لیکن آج جب کہ وہاں ایک انتہاپرست ہندو حکومت کر رہا ہے توہم نے اپنی پالیسی کو حقائق کے اور قریب کر دیا ہے۔ یہ معجزہ کیسے اور کیوں کر ہوا؟ دراصل ہم نے اب محسوس کرلیا ہے کہ پاکستان کو صرف نظریاتی پیمانے پر آگے نہیں لے جایا جا سکتا، پاکستان فلاحی ریاست بننے سے ابھی تک بہت دور ہے لیکن اب جو راہ ہم نے چنی ہے اس نے ضرور اپنا کام کر کے دکھانا ہے۔
مولانا کے آزادی مارچ میں جو مجھے اچھا نہ لگا، وہ ان کا آخر کار مذہبی بیانیہ میں پناہ لینا تھا۔ وہ یقینا بہت ہی مدبر لیڈر ہیں لیکن پاکستان کے کروڑوں سیکولر سوچ رکھنے والے لوگوں کے جذبات کو ساتھ لے کر نہ چل سکے۔ کرتارپور کا کھلنا مجموعی طور پر پاکستان میں جمہوری اقدار کی فتح ہے۔