قربتوں میں دُوری کا دکھ
دوست بنانا یا رشتے استوار کرنا دنیا کا آسان ترین کام ہے مگر دوستی اور رشتوں کو نبھانا اور ...
دوست بنانا یا رشتے استوار کرنا دنیا کا آسان ترین کام ہے مگر دوستی اور رشتوں کو نبھانا اور انھیں قائم رکھنا ایک ایسا فن ہے جو ہر کسی کو نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ دوستیاں ناراضگی میں بدل جاتی ہیں اور محبتیں نفرتوں اور غلط فہمیوں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ روّیوں میں اعتدال اور لفظوں کا توازن برقرار رکھنا مشکل کام ہے۔ درحقیقت جس انسان میں یہ خوبیاں ہوں تو وہ دوستی اور رشتوں کا محور بنے رہتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ کہاں بستے ہیں؟ یہ سوال کچھ عرصہ پہلے ایک اداس لڑکی شازمہ نے کیا تھا۔ جو اپنے شوہر کے لیے کہتی ہے۔
''شادی سے پہلے وہ بہت مختلف تھا۔ اسے میری سالگرہ یاد رہتی، کارڈز کے تبادلے ہوا کرتے۔ اظہار میں ایک عجیب سی خوبصورتی تھی۔ مگر جیسے ہی شادی ہوئی وہ تمام حسین منظر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ فقط ہدایتیں اور غصہ رہ گئے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ہمارے ساتھ؟''
مجھے معلوم ہے کہ وہ لڑکی دکھی ہے۔ وہ قربتوں میں دوریوں کا دکھ جھیل رہی ہے۔ وہ جو اپنی ذات میں مکمل ہستی ہے۔ خوبصورت اور سلیقہ مند ہے اور زندگی کو سمجھنے کا ہنر رکھتی ہے۔ لیکن اس کا المیہ یہ ہے کہ اسے پا کر اس کا محبوب بدل گیا۔ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو ترس گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کبھی فاصلے انسان کو ذہنی طور پر قریب کر دیتے ہیں اور کبھی قربتیں ذہنی فاصلہ پیدا کر دیتی ہیں۔ یہ انسانی فطرت کا المیہ ہے کہ انسان چیزوں کو پا کر انھیں غیر اہم سمجھنے لگتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مرد اور عورت کے مزاج میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ یہ فرق اگر سمجھ لیا جائے تو زندگی کے کافی جھگڑے نمٹ سکتے ہیں۔ اور مزید کئی گھر ٹوٹنے سے بچائے جا سکتے ہیں۔ وہ گھر جن میں بچے بھی رہتے ہیں، جو والدین کے جھگڑوں میں الجھ کر اپنی ذات میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اسی موضوع سے تعلق رکھنے والی کتاب کچھ عرصہ پیشتر میری نظر سے گزری۔ جو مرد اور عورت کے مزاجوں کے فرق اور تضاد کو سمجھنے کے حوالے سے ایک مفید کتاب ہے۔ مصنف Jhon Gray مرد کو Mars سے منسوب کرتا ہے۔ Mars اور عورت اس کے لیے وینس کے قریب تر ہے۔ مرد طاقت کے زور پر دنیا کو مغلوب کرنا چاہتا ہے جب کہ عورت حسن و عشق کی دیوی ہے۔ عورت رابطے کی متلاشی ہے۔ وہ اپنی سوچیں و جذبات بانٹنا چاہتی ہے۔ مرد کے لیے مقصد اور کامیابی اہم ہے جب کہ عورت اپنی ذات کا اظہار چاہتی ہے۔ مگر یہ بات سمجھنا مرد کے لیے مشکل ہے۔ کیونکہ وہ حقیقت کی دنیا کا باسی ہے جب کہ عورت کی آنکھیں خواب دیکھتی ہیں۔
مصنف کے لیے مرد Goal Oriented (مقصد سے متصل) ہے اور عورت Relationship Oriented (رشتے بناتی ہے) ہے۔ مقصد اور رشتے دو متضاد رخ ہیں۔ عورت رشتوں کے حوالے سے کاملیت چاہتی ہے۔ وہ مقصد کو بھی اگر ساتھ لے کر چلتی ہے تو بھی رشتوں کو اولیت دیتی ہے۔ لیکن مرد کا اپنا الگ نقطہ نظر ہے۔ وہ مقصد کے پیچھے نکلتا ہے تو راستے کی بھول بھلیوں میں کہیں گم ہو جاتا ہے اور رشتے اسے ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں یا یہ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ مرد چونکہ باہر کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور وہ خارجی مسائل کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہے لہٰذا اسے اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ اس کی زندگی میں کہیں توازن ڈگمگا رہا ہے۔ اگر کہیں وہ داخلی دنیا کو بھی محسوس کر رہا ہے تو بھی اس کا مرکز اپنی ذات ہوتی ہے۔ دوسری طرف عورت چونکہ داخلی دنیا کی مسافر ہے۔ اس کے پاس ایک خود کلامی کی سی کیفیت موجود رہتی ہے۔ اسے خود رحمی اور حساسیت بعض اوقات ورثے میں ملتے ہیں اور کبھی یہ رویے حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ چونکہ عورت گھر کے رویوں سے لے کر معاشرتی تضاد کو دل کی گہرائی سے محسوس کرتی ہے۔ گھر اور معاشرہ اسے حالات سے سمجھوتہ کرنے کا سبق دیتے ہیں۔
جس کی وجہ سے اس کی انا اور تشخص مجروح ہوتے ہیں۔ اس کی ذات میں یہ خواہش بدرجہ اتم موجود رہتی ہے کہ اسے ذات کی سچائی کے ساتھ قبول کیا جائے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ مستقل میٹامارفوسس (تبدیلی) کے عمل سے گزرتی رہتی ہے۔ درحقیقت خود کو تبدیل کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے اور یہ پیچیدگیاں کہیں نہ کہیں گھر کے نظام کی ترتیب پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ وہ اپنی ذات کا اظہار چاہتی ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے اہمیت دی جائے، سراہا جائے۔ چونکہ وہ رشتے بناتی، سنبھالتی اور سمیٹتی ہے تو اس کی سوچ بھی ان کے ارد گرد محاصرہ کیے رہتی ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ مرد کے بنائے ہوئے اس سماج میں عورت کے مزاج کی باریک بینیاں اور حساسیت مرد کے تسلط اور غلبے کی نذر ہو جاتی ہیں۔ شازمہ کا سوال بھی اسی مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کا شوہر بار بار اسے حد میں رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ایسا سلوک رکھتا ہے جیسے وہ کوئی انسان نہیں بلکہ کٹھ پتلی ہو۔ جب کہ شازمہ چاہتی ہے کہ یہ رشتہ برابری کی بنیاد پر ہو۔ لیکن Man are from Mars Women are from Venus کتاب کے مصنف Jhon Gray کہتے ہیں کہ جب مرد کام کی زیادتی یا مسائل کا شکار ہوتا ہے تو وہ ایک غار میں چلا جاتا ہے۔
وہ خاموش اور لاتعلق دکھائی دیتا ہے جب تک وہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔ اسی دوران عورت اس رویے کو سمجھ نہیں پاتی اور اس سے لڑنے لگتی ہے۔ مرد جب مشکل میں ہوتا ہے تو وہ کسی دوسرے کی تکلیف کو سمجھ نہیں سکتا۔ دوسری طرف مسائل جب عورت کی زندگی میں سر اٹھاتے ہیں تو وہ لوگوں کے درمیان رہ کر ان سے شیئر کر کے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ وہ عادت ہے جو مرد کو پسند نہیں ہے۔ لیکن یہ تضاد دونوں کی فطرت کا حصہ ہیں۔ انھیں سمجھنا چاہیے۔ مصنف یہ کہتا ہے کہ مرد تبدیل ہونا نہیں چاہتا۔ جب عورت کسی بھی مسئلے میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس پر اعتبار نہیں کرتی کہ وہ خود یہ مسئلہ حل کر لے گا یا اسے لگتا ہے کہ وہ اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عورت جب مرد کو حد سے زیادہ توجہ دیتی ہے تو اسے مرد اپنے لیے ایک قید خانے کی طرح محسوس کرتا ہے۔ مجھے اس وقت اپنی دوست مریم یاد آ رہی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ وہ جتنا شوہر کا خیال رکھتی وہ اس سے اتنا ہی دور ہوتا جاتا تھا۔
وہ ہمیشہ یہ کہتی تھی کہ وہ ہر وقت یہ کوشش کرتا ہے کہ کوئی ایسی بات کرے جس سے مجھے دکھ پہنچے۔ بہت سے معاملوں میں وہ ایسا رویہ رکھتا ہے جیسے میری اس کی زندگی میں کوئی اہمیت نہ ہو۔ جب کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ جہاں بھی جاتا اس کی پسند کے کپڑے لاتا۔ ہر طرح سے اس کی ضرورتوں کا خیال رکھتا۔ مگر وہ زبان سے کبھی اسے اپنی اہمیت کا احساس نہ دلاتا تھا۔ حقیقت میں وہ اس کے سوالوں اور توجہ سے بے زار ہو چکا تھا۔ جسے مریم کبھی سمجھ نہ پائی۔ اور مریم کی زندگی کی خوشیاں انا پرست مرد کی خاموشی کی نذر ہو گئیں۔ اسی کتاب میں مصنف یہ کہتا ہے کہ جب دونوں (میاں بیوی) بہت قریب رہتے ہیں تو عورت اس قربت سے خوش رہتی ہے جب کہ مرد کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی آزادی کھو بیٹھا ہے۔ وہ بیوی کی خواہشات، مسائل اور ذہنی و جذباتی ضرورتوں کے بوجھ تلے اپنی ذات سے خود کو دور ہوتا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اور جب وہ دور جاتا ہے تو وہ اپنی ذات میں خود کو مکمل اور آزاد تصور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد حضرات گھر سے دور اپنے دوستوں کی محفل میں خوش و خرم دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وہ لمحے ہیں جو ان کی عمر کا دورانیہ بڑھا دیتے ہیں۔
دیکھا جائے تو اس کتاب میں مصنف نے بڑی باریک بینی سے عورت و مرد کی فطرت کا جائزہ لیا ہے، جیسے وہ عورت کو لہروں سے تشبیہہ دیتا ہے۔ محبت کا احساس اسے ایک لہر کی طرح اونچائی پر لے جاتا ہے۔ جب اس کا مزاج تبدیل ہوتا ہے تو لہر منتشر ہوجاتی ہے۔ پھر وہ سطح پر آ جاتی ہے سکون کی کیفیت میں۔ امریکا کے مشہور ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے نے بھی عورت کو سمندر سے تشبیہہ دی ہے۔ سمندر جو گہرا، پراسرار اور ناقابل یقین ہے۔ عورت کی فطرت بھی اس کی طبعی ساخت کے زیر اثر ہوتی ہے۔ اس کے احساس میں گہرائی اور بھنور موجزن رہتے ہیں۔ مصنف یہ کہتا ہے کہ اگر عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے مزاجوں کے فرق کو جاننے لگیں، توقعات کا دائرہ محدود کر لیں اور ایک دوسرے کی آزادی کے احساس کو صلب کرنے کی کوشش نہ کریں تو اس خوبصورت رشتے میں قربت اور ہم آہنگی قائم رہے گی۔
جب تک دوست تھا بہت مختلف تھا جیسے ہی شوہر بنا اس کے الفاظ بدل گئے۔ ''بیوی ہو تو بیوی بن کے رہو'' کوئی سوال مت کرو اور اپنی حد میں رہو۔