مٹاپا دور کرنے کا سرکاری نسخہ

ہمارا نسخہ تو یہ تھا کہ موٹاپے کی سب سے بڑی وجہ اچھے کھانے پکانے والی بیویاں ہوتی ہیں۔


Saad Ulllah Jaan Baraq November 19, 2019
[email protected]

موٹاپے کا ایک تیر بہدف،رام بان اور بلٹ آن ٹارگٹ نسخہ تو ہم نے بھی دریافت کیاہواہے اور پھر اسے اخبار کے اشتہار واجب الاظہار کے ذریعے افادہ عام اور صاحبان لحام وشحام کے لیے مشتہر بھی کیاہواہے۔لیکن اب ایک اور بڑا موثر نسخہ اخبار میں پڑھا تو اپنا نسخہ اس کے آگے کان پکڑتے، ناک رگڑتے اور ہاتھ جوڑتے ہوئے پایا۔

ہمارا نسخہ تو یہ تھا کہ موٹاپے کی سب سے بڑی وجہ اچھے کھانے پکانے والی بیویاں ہوتی ہیں کیونکہ ان کی کسی دادی یا نانی نے ان کو بتایا کہ مرد کے دل کا راستہ اس کے پیٹ سے ہوکر جاتاہے، اس لیے موٹاپے کا شکار لوگ دیکھیں اگر ان کی بیویاں اچھا کھانا پکانے والی ہیں تو فوراً ترک کردیں۔

کھانے نہیں بلکہ فساد کی اصل جڑ یعنی بیویوں کو اور کہیں سے ڈھونڈ کر ایسی بیویاں لائی جائیں جو صرف ہراسگی کی ماہر ہوں ،کھانوں کی نہیں لیکن یہ پراسس اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس لیے اکثر حضرات کے لیے اس کا استعمال ممکن نہیں ہوگا۔لیکن اب کے یہ نسخہ جو اخبار میں آیاہے اتنا تیربہدف،رام بان اور بلٹ آن ٹارگٹ پڑھا تو آپ یقین کریں ہمارا تو اس کے پڑھنے سے ہی چار کلو وزن کم ہوگیا۔ لکھاہے، موٹاپے کا علاج ''چلغوزوں''سے کریں۔

تفصیلات میں انکشاف کیاگیاہے کہ چلغوزے کھانے سے موٹاپے میں کمی آجاتی ہے اور یہ بات ہم نے فوراً مان لی کیونکہ پچھلے سے پچھلے اور پھر اس سے بھی پچھلے سال ہم نے مینگورہ کے ایک دکاندار سے چلغوزوں کا نرخ پوچھاتھا تو اس نے دو ہزار روپے کلوبتایاتھا۔لیکن یہ مت سمجھیے کہ ہم نے یہ نرخ چلغوزوں کی خواہش میں پوچھاتھا بلکہ سامنے شیشے کی ایک جار میں سالوں بعد اس کا دیدار ہوا تو ویسے ہی پوچھ لیا تھا۔

خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے مرحوم جواد نظیر کے ساتھ ہم سوات گئے تھے تو انھوں نے ڈارئی فروٹ خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا ورنہ ہماری تو عرصہ دراز سے ڈرائی فروٹ کے ساتھ کٹی ہوچکی تھی حالانکہ اخباروں میں اکثر ڈرائی فروٹ کی افادیت پرپڑھتے رہتے تھے بلکہ ایک اخبار میں تو باقاعدہ کسی خاتون کا مضمون بھی پڑھا تھا۔

جس میں اس خاتون نے اپنا تجربہ بتاتے ہوئے لکھاتھا کہ ڈرائی فروٹ کھانے سے خواتین کی ٹینشن کم ہوجاتی ہے اور وہ شوہر کے ساتھ چپل کے بجائے جھاڑو سے بات کرنے لگ جاتی ہیں حالانکہ اس سے پہلے ایک اور خاتون نے اپنا تجربہ دوسری خواتین کے ساتھ شئیر کرتے ہوئے لکھاتھا کہ خواتین کی ٹینشن ''شاپنگ''سے کم ہوجاتی ہے، اس لیے خواتین کو ہمیشہ شاپنگ میں مصروف رہنا چاہیے۔حالانکہ وہ خاتون سراسر غلطی پرتھی۔شاپنگ سے خواتین کی ٹینشن ختم نہیں ہوتی بلکہ جگہ بدل جاتی ہے یعنی خواتین کے سر سے شوہر کے سر میں منتقل ہوجاتا ہے۔

خیرخواتین کے ٹینشن کے لیے اور بھی نسخے اکثر آتے رہتے ہیں جن میں سب سے اچھا علاج شوہروں پر ٹینشن نکالنے کا ہوتاہے اور اسے ہم نے خود دیکھابھی ہے۔ہمارے ایک ہمسایے کی تعلیم یافتہ اور تنخواہ دار بیوی جب دفتر سے گھر آجاتی ہے تو چلانا شروع کردیتی ہے، گھر کے زندہ لوگوں کے ساتھ ساتھ بے جان چیزوں پربھی چلاتی ہے۔ بجلی پر،گیس پر، چولہے پر یہاں تک کہ برتنوں پربھی جن کے ٹوٹنے کی آوازیں بھی ساتھ ساتھ آتی رہتی ہیں لیکن اس کا شوہر آجاتاہے تو چلانے کی آوازیں دھیمی ہوتے ہوتے بالکل ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ دوچار چھناکوں پٹاخوں اور تڑاخوں کے بعد۔لیکن ان تمام نسخوں کا جزو اعظم بچارا شوہر ''متاثرین ٹینشن''میں سے ہوتاہے اور شوہر ہر وقت یا ہرکسی کو دستیاب نہیں ہوتا۔

غیرت شدہ خواتین بھی تو ہوتی ہیں اور پھر شوہر کے بھاگ جانے کا راستہ بھی کھلا ہوتاہے۔لیکن چلغوزوں میں ایسی کوئی دشواری نہیں ہے کہ پہلے تو اس کا نرخ ہی موٹاپا دور کرنے کے لیے کافی ہوتاہے، دوسرے خواتین انھیں ناخنوں سے چھیلتے ہوئے شوہروں کو تصور میں لاکر بغیرہلے جلے اور کوئی آلہ ضرر استعمال کیے بغیر بھی ٹینشن دور کرسکتی ہیں۔البتہ ایک مسئلہ یہ ہے اور شاید مضمون نگار خاتون کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ بے شک چلغوزوں سے ٹینشن دور ہوتی ہوگی لیکن چلغوزے ملیں گے کہاں۔کیونکہ جو واقعہ ہم نے سنایا کہ مرحوم جواد نظیر کے ساتھ مینگورہ بازار میں ہم پچھلے سے پچھلے اور پھر پچھلے سال ڈرائی فروٹ خریدنے نکلے تھے تو اس دکان دار کے مکان میں باقی ڈرائی فروٹ تو بوریوں کی صورت میں تھے لیکن چلغوزے شیشے کے جار میں محفوظ بہت اونچے مقام پررکھے ہوئے تھے۔

نرخ بتاتے ہوئے دکاندار نے یہ بھی بتایا کہ یہ میں نے دیر کوہستان سے بطور خاص منگوائے ہیں ورنہ ملتے کہاں ہیں لیکن ہم نے اس کی ترغیب کے باوجود یہ مناسب نہیں جانا کہ اس کی دکان اس جار کی زینت سے محروم ہوجائے۔اخباروں اور ٹی وی وغیرہ پر یہ جو علاج معالجے یا پکوان بناتے ہیں یا تو یہ لوگ کسی سیارے پرمقیم ہیں اور اس کیٹیگری میں ہوتے ہیں جن کا سب کچھ آسمان سے اترتاہے ان کو پتہ ہی نہیں کہ مہنگائی کے پل صراط کے نیچے سے کتنا ''خون''گزرچکاہے اور پل کے اوپر کتنے بغیر گوشت پوست کے ڈھانچے گزرچکے ہیں۔

ایک ریسپی سنیے۔ جو پیاز کا حلوہ بنانے کی ہے۔ پیاز ایک عدد۔چڑیا کا دودھ دو لیٹر،سنڈے کے انڈے، ایک درجن۔مرغیوں کا مکھن ایک کلو،شہد کا کھویا ایک کلو،سنگ مرمر کا تیل ایک لیٹر،مشک دو بڑے چمچ، زعفران آدھا کپ،عنبر چار چمچ،سبزمرچ چھ عدد، سرخ مرچ پسی ہوئی آدھاکپ،کالی مرچ دو چمچ،سفید مرچ دو چمچ شملہ کشمیر تبت مرچ چار عدد۔ان سب کو ایک ساتھ گرینڈر میں ملایے پھر مائیکروویو اوون میں چار منٹ پکایئے، پھر پکنے پر اسے گٹر میں پھینکیے اور خون کے گھونٹ اپنے جگر کلیجے کے بھنے ہوئے تکوں کے ساتھ نوش جان فرمایے۔ وزن پورا ایک کلو کم ہوگا اور کمر آدھا انچ ہوجائے گی۔ویسے ان تمام نسخوں میں سب سے بہترین نسخہ وزن اور موٹاپا کم کرنے کا وہ ہے جو ایک وزیر کی بیٹی نے اپنے باپ کو بتایا تھا اور جس پرآج کل ہماری حکومت سختی سے عمل پیراہے۔اب کیا کیجیے کہانی پرانی سہی لیکن دمُ ہلارہی ہے تو بیان کرنا پڑے گی ۔

ویسے بھی ہمیں آپ کی یادداشت پر پورا بھروسہ ہے جو صرف تین منٹ رہتی ہے۔ایک منٹ زندہ باد۔دوسرا منٹ دھرنا اور تیسرا منٹ مردہ باد والی اس یادداشت کے لیے نیا کیا اور پرانا کیا۔ایک بادشاہ اپنے وزیر سے ناراض ہوگیا تو اسے سزا دینے کی ٹھانی۔ اس زمانے میں بادشاہ لوگ بڑے غریب ہواکرتے تھے اور قرض ادھار پرحکومت چلاتے تھے اس لیے صرف ایک ہی وزیر سے کام چلاتے تھے۔ آج کل کی بات اور ہے، آج کل حکومتیں اتنی مالدار اور خودکفیل ہیں کہ ایک پیسہ ادھار لینے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور وزیروں نیم وزیروں مشیروں معاونوں وغیرہ کی عیاشیاں خوب دل کھول کرکرتی ہیں ،آخر بھرے ہوئے خزانوں کو ٹھکانے لگانا بھی تو ضروری ہوتاہے ورنہ دولت اور لال وجواہرات ویسے ہی سڑسڑا جائیں گے۔

خیربادشاہ نے اپنے ذہن میں ایک منصوبہ بناکر وزیر سے کہا کہ یہ ایک دنبہ لو اسے روزانہ ایک کلو چنا، ایک کلو بادام، ایک کلو سیب اور انگور بھی کھلاوگے لیکن ایک سال کے بعد اس کا وزن اس سے نہ کم ہونا چاہیے اور نہ زیادہ۔ کوئی کمی پیشی ہوئی تو تجھے نیب کے حوالے کرکے ہرعیب کا نشانہ بناکر ریپ کیا جائے گا۔اور پھر وزیر کی ذہین وفطین لڑکی نے جو خود بھی اپنے باپ کی وزیرہ مملکت اور مشیرہ بیانات تھی، اس کا حل یوں نکالا کہ دنبے کے سامنے ایک کتا باندھا جائے، دنبے کو کھلایا پلایا جائے اور کتے کو بھوکا رکھا جائے۔

کمال کا نسخہ تھا ۔ ایک سال تو کیا سترسال تک وہ کتا اس دنبے پربھونکتا رہا اور اس کا کھایا پیا باہرنکالتارہا۔ہماری حکومت کو بھی یہ نسخہ کمیا کسی درویش نے بتایاہواہے۔عوام کو انکم سپورٹ سیکم،ہرقسم کے کارڈ اور طرح طرح کی بھیک کھلائی جارہی ہے۔جس کا فائدہ خاطرخواہ ہورہاہے۔ مجال ہے جو دنبے پر موٹاپا چڑھے۔ویسا ہی اور اتنا ہی ہے جتنا اور جیسا سترسال پہلے تھا البتہ بیچ میں ''روپیہ''لاغرتر اور لاغرتر سے لاغر ترین ہوتاجارہاہے بلکہ ''تہہ ترین'' تک رپہنچ چکاہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں