نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
خان صاحب نے 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد بھی وہی کچھ کیا جس کے نہ کرنے کا وہ دعویٰ کیا کرتے تھے۔
SWABI:
یہ جانتے ہوئے بھی کہ میاں نواز شریف کے خلاف بنائے گئے سارے مقدمات سیاسی نوعیت کے تھے اور اُن پرکیے گئے فیصلوں کی بنیاد بھی کوئی اتنی مضبوط نہیں تھی لیکن عمران خان اور اُن کے ساتھیوں نے انھیں ایک سزا یافتہ مجرم ثابت کرنے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا۔
وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف اگر مقتدر قوتوں سے ٹکرانے کا خیال اپنے دل و دماغ سے نکال دیتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ آج بھی اِس ملک کے وزیر اعظم ہوتے اور اپنی زندگی کے اتنے سخت اور کڑے احتساب اور عتاب سے یقینا بچ جاتے۔ لگتا ہے یہ عمران خان کی مجبوری تھی کہ وہ اپنی ساری سیاست کا محور آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے خلاف بنائے رکھیں۔
اِس کے بغیر اُن کے پاس کوئی ایسا ایشو نہیں تھا جسے اپنا کر وہ قوم کے دلوں میں اپنے لیے کوئی جگہ بنا سکیں، جب کہ اُن کا اپنا ماضی بھی اتنا صاف ستھرا نہ تھا کہ لوگ انھیں ایک نیک اور پارسا شخص کے طور پر قبول کر لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 1996ء سے لے کر 2011ء تک انتخابی سیاست میں اپنے نئے خیالات کے ساتھ خود کو پیش کرتے رہے لیکن انھیں عوام کی پذیرائی نہ ملی۔
اُن کا حال بھی اِس ملک کی دیگر مذہبی جماعتوں سے مختلف نہ تھا جو تیس چالیس سالا جدوجہد کے بعد بھی اِس قابل نہ ہو سکیں کہ ریاستی امور چلانے کی حق دار گردانی جا سکیں۔ اُن میں اور عمران خان میں فرق صرف اتنا ہی ہے کہ وہ اپنے نظریات اور منشور پر اب بھی ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہیں جب کہ خان صاحب نے اپنی سابقہ باتوں، نظریات اور خیالات سے مکمل انحراف کرتے ہوئے الیکشن جیتنے کی خاطر وہ سارے فارمولے آزما لیے جن سے اِس ملک میں کوئی الیکشن جیتا جا سکتا تھا۔
مقتدر قوتوں سے سمجھوتہ کرکے انھیں اپنی مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کا یقین دلا کر الیکٹورل سائنس کی نئی اصطلاح کے تحت ہر اُس شخص کو پارٹی کا ٹکٹ دے دیا جو چاہے کتنا ہی بدعنوان اور کرپٹ ہو لیکن اپنے علاقے کی لوگوں سے ووٹ لینا جانتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج اُن کے ارد گرد پارٹی کے نیک اور مخلص لوگوں کی بجائے وہ سارے مشکوک بد عنوان لوگ ہی دکھائی دیتے ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطرکبھی بھی اورکسی وقت بھی پارٹی بدل سکتے ہیں۔ خان صاحب کی حکومت کی ساری عمارت ہی ایسے لوگوں پر کھڑی ہوئی ہے، جو آیندہ کسی مشکل وقت میں اُن کاساتھ چھوڑ کرکسی دوسری پارٹی کاحصہ بننے میں لمحہ بھرکی دیر نہیں لگائیں گے۔
خان صاحب نے 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد بھی وہی کچھ کیا جس کے نہ کرنے کا وہ دعویٰ کیا کرتے تھے۔ اُن کی شدت سے آرزو اور تمنا تھی کہ ایک مرتبہ اِس ملک کے وہ وزیر اعظم بن جائیں اور وہ تمنا انھوں نے بہرحال کسی نہ کسی طرح پوری کر لی۔ اِس کے لیے انھیں ایک طرف ملک کے اسلام پسند مذہبی رجحانات رکھنے والوں کے لیے ایک نئی ریاست مدینہ بنانے کا یقین دلانا پڑا تو دوسری طرف انتہائی ماڈرن اور لبرل قسم کے لوگوں کے لیے بھی کچھ ایسے کام کرنے پڑے جن کے کرنے سے ریاست مدینہ بنانے کی مکمل تردید اور نفی بھی ہوتی ہے۔ وہ غریبوں کو مکان اور روزگار دلانے کی بھی باتیں بڑی شدومد سے کیا کرتے ہیں لیکن اِس ملک کے غریبوں کو مار ڈالنے کے بھی سارے کام ساتھ ساتھ کیے جاتے ہیں۔
الیکشن سے پہلے جتنی خوبصورت باتیں وہ کیاکرتے تھے اقتدار مل جانے کے بعد وہ اُن سب سے مکمل طور پر مکرگئے۔ اپنے سوا سالہ دورحکومت میں انھوں نے جتنے یو ٹرنز لیے ہیں شاید ہی دنیا کے کسی اور سربراہِ حکومت نے لیے ہوں۔ دوسرے ملکوں سے قرض اور امداد نہ مانگنے سے لے کر این آر او نہ دینے کے دعوؤں تک ہر وہ کام انھوں نے اُس کے بالکل برعکس ہی کیا ہے۔ ابھی تازہ تازہ ایشو وہ سارے صدارتی آرڈینسوںکی واپسی ہے جو ڈپٹی اسپیکر کے خلاف اپوزیشن کی صرف ایک تحریک عدم اعتماد لانے پر روبہ عمل لائی گئی۔
ہماری سمجھ میں نہیں آتاخان صاحب وہ کام اور دعویٰ کرتے ہی کیوں ہیں جن کے واپس لیے جانے کا مکمل احتمال ہوا کرتا ہے۔ ابھی میاں صاحب کی صحت کے معاملے ہی کو دیکھ لیجیے۔کہنے کو وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملک سے باہر جانے کی اجازت دے رہے تھے لیکن اپنی خجالت مٹانے کو انھوں نے سات ارب روپوں کے انڈیمنٹی بونڈ کی شرط بھی رکھ دی۔
پھر کیا ہوا عدالت عالیہ نے اُن کے اِس انڈیمنٹی بونڈ کا وہ حال کیا کہ نہ '' خدا ہی ملا نہ وصال ِ صنم'' کے مصداق نہ پیسے ملے اور نہ کوئی ضمانت اور میاں صاحب بڑے آسانی سے عمران خان کی قید سے نکل گئے۔ وہ اُن کاAC اور TVبندکرنے کا سوچ ہی رہے تھے اوروہ اپنے ہاتھوں سے اُن کانام ECL سے نکالنے پر مجبور ہوگئے۔ اس لیے کہتے ہیں انسان کو بڑے بول نہیں بولنا چاہیے۔ پتہ نہیں کب کس وقت کسی پر بھی برا وقت آسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بھی عاجزی پسند ہے۔ غرور اور تکبر کوتو وہ ہرگز پسند نہیں کرتا۔ خان صاحب کے جو وزراء ازراہ تفنن اورتکبر ارشاد فرمایاکرتے تھے کہ'' پیسے دو'' ابھی شاید اُن پیسوںکی گنتی وہ اپنے خوابوں میں کر رہے ہونگے جن کے مل جانے پر اُن کے قائد نے میاں صاحب کو باہر جانے کا پرمٹ دیاہے۔
خان صاحب کو اب آصف علی زرداری کے لیے بھی یہی کچھ کرنا پڑے گا۔ وہ بھی بہت علیل ہیں ۔ ویسے بھی وہ ابھی تک کسی عدالت سے کوئی سزا یافتہ مجرم بھی نہیں ہیں۔ اُن کے خلاف سارے مقدمات ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہی ہیں۔ اِس لیے یہ یقین اوراعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ چوروں اور ڈاکوؤں کو نہ چھوڑنے کا بلند بانگ دعویٰ خود خان صاحب کے ہاتھوں ہی بے آبرو اور بے عزت ہوگا۔
میاں صاحب کو صحت کے نام پر ریلیف دینے کے بعد کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ آصف علی زرداری اُس سے محروم کردیے جائیں۔ وقت اور حالات کس تیزی کے ساتھ بدلتے ہیں خان صاحب کوشاید یہ پتہ نہیں تھا۔ وہ پہلی بار اقتدارو اختیارات کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے تھے لیکن انھیں معلوم نہ تھا کہ یہ منصب تمام رعنائیوں اورخوش جمالیوں کے ساتھ ساتھ کتنا مجبور ولاچار اور کمزوروبے بس بھی ہوتا ہے۔ یہاں قدم قدم پر مشکلیں اور مصائب کے پہاڑ آپ کی راہ میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر ایک اعصاب شکن جنگ سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
یہاں بڑے بڑے دعوؤں کی بجائے احتیاط اور استقامت کے ساتھ سوچ سوچ کر قدم اُٹھانا پڑتا ہے۔ لگتا ہے خان صاحب نے حکومت کرنے اور امور مملکت چلانے کو بھی کرکٹ کی طرح ایک کھیل سمجھ لیا تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ لفظوں اور جملوںکے چھکے مارکر اور اپنے مخالفوں کو پھینٹی لگا کر وہ یہ پانچ سالہ ٹورنامنٹ باآسانی جیت جائیں گے۔ انھیں قطعی طور پر اندازہ نہیں تھا کہ کرکٹ کی کپتانی اورکسی کمزور ملک کی حکمرانی دو بالکل مختلف قسم کے کام ہیں۔کسی میچ یا ٹورنامنٹ ہار جانے سے کوئی بندہ کرکٹ سے آؤٹ نہیں ہوجاتا لیکن سیاست اور حکمرانی میں ناکامی اُسے عوام کی نظروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دورکر دیتی ہے۔
خان صاحب کو چاہیے تھا کہ بے شمار مسائل میں گھرے اِس ملک اور اُس کے عوام کو ریلیف دینے پر اپنی توجہ مرکوزکرتے نہ کہ اپنے مخالفوں کونیچا دکھانے اور انھیں نشان عبرت بنانے پر اپنی ساری توانائیاں خرچ کرتے۔ جھوٹ اور مکروفریب کی سیاست سے پرہیزکرتے اور حقیقی معنوں میں اِس ملک کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانے کے لیے تگ ودو کرتے تو شایدآج خدا کی مدد اور نصرت سے بھی لطف اندوز ہورہے ہوتے۔ مگر نہیں، انھیں اب بھی صرف وہی کام اچھے لگتے ہیں۔
جن کی ظاہری چمک دمک سے اُن کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہو۔ وہ چاہے یو این او میں کی جانے والی ایک تقریر سے ہو یا پھرکرتار پورکوریڈور بنانے سے ہو۔ کشمیر کا مسئلہ چاہے حل ہو یا نہ ہو لیکن خان صاحب ملک کے دشمنوں سے دوستی اور ہم آہنگی بڑھانے کو ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ وہ کبھی خود ساختہ ثالث بن کر ایران اور سعودی عرب میں مصالحت کرنے کے مشن پر نکل جاتے ہیں توکبھی امریکا اور طالبان کے بیچ سمجھوتہ کرانے کے لیے خود کو میزبان کے طور پر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ اپنے ملک اور اپنے لوگوں کے مسائل کے لیے اُن کے پاس نہ کوئی تجویز ہے اور نہ کوئی حل۔