سعودی عرب دفاعی طور پر غیر محفوظ
حوثیوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے نو ملکی سعودی اتحاد نے جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں سے بات چیت شروع کی۔
دو دن پہلے حوثی ملیشیا نے بحیرہء احمر کی ایک بندر گاہ پر کھڑے تین بحری جہازوں پر قبضہ کر لیا۔ ان میں سے ایک جہاز سعودی اور دو جہاز جنوبی کوریا کے ہیں۔ جنوبی کوریا نے اپنے دو جہازوں کی ملکیت کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ اس واقعہ سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حوثی قبائل کی پہنچ کہاں تک ہو چکی ہے اور دوسرا یہ کہ حوثی ملیشیا سعودی عرب کی قیادت میں قائم جنگی اتحاد کو ہر سطح پر چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے حالانکہ اس اتحاد کو امریکا کی کھلم کھلاحمایت بھی حاصل ہے۔
سعودی عرب کا یمن سے تنازعہ کوئی نئی بات نہیں۔یہ تنازعہ 1930ء کی دہائی میںا س وقت شروع ہوا جب آلِ سعود نے نجد اور حجاز پر قبضہ کرنے کے بعد سلطنت کو وسعت دینی شروع کی، 1930ء کی دہائی شروع ہونے تک یمن کو چھوڑ کر باقی سارا جزیرۃ العرب سعودی فرمانروا کے زیرِنگیں آنا شروع ہو گیا۔
اومان، کویت، بحرین اور عدن برطانوی عملداری میں ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کا حصہ نہ بنے جب کہ الباحہ، اسیر، جیزان اور نجران کے علاقے صدیوں سے کبھی آزاد اور کبھی یمن کی زیرِنگرانی چلے آ رہے تھے۔ سعودی پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے یمنی حکمران امام یحییٰ محمد حمید الدین نے اسیر کے علاقے تہامہ پر قبضہ کر لیا۔ ان کشیدہ حالات میں ایک امن معاہدہ طے پایا جو جلد ہی نا کام ہو گیا۔ ابنِ سعود نے حالات کو نارمل بنانے کے لیے ایک امن وفد یمن روانہ کیا لیکن امام یحییٰ نے امن وفد کے تمام ارکان کو قید کر لیا۔ اس نے یہی سلوک سعودی فرمانروا کے ایک بیٹے کے ساتھ بھی کیا۔
20 مارچ 1934ء کو سعودی عرب نے یمن کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا، سات اپریل کو ہجارہ پر قبضہ ہو گیا۔ اکیس اپریل کو نجران بھی سعودی افواج کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ سعودی عرب کی افواج نے اب یمن کے اندر گُھس کر پیش قدمی شروع کر دی اور بندر گاہ حدیدہ پر سعودی کنٹرول ہو گیا۔ 12مئی 1934ء کو طائف میں مذاکرات شروع ہوئے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں 14 جون 1934ء کو طائف معاہدہ طے پایا۔ لڑائی بند ہو گئی لیکن اسیر، جیزان اور نجران سعودی قبضے میں چلے گئے۔
حالیہ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب انصاراﷲ حوثی قبائل نے 2004ء میں یمن کی حکومت کے خلاف ایک نچلے درجے کا احتجاج شروع کیا۔ اس وقت علی عبداﷲ صالح 33سال سے یمن کے صدر تھے۔ یمنی حکومت نے حوثی قبائل کے خلاف پوری قوت استعمال کی اور حوثی رہنما حسین بدرالدین مارے گئے۔2009 ء میں سعودی عرب نے یمنی حکومت کی مدد کرنی شروع کر دی۔ یوں ایک خالص یمنی تنازعہ پھیل کر یمنی سرحدوں سے باہر نکل گیا۔ اسی دوران حوثیوں کی قیادت عبدالمالک حوثی کے پاس آ گئی۔ عبدالمالک نے 2011ء میں صدر علی عبداﷲ صالح کی حکومت کے استعفیٰ کی حمایت کر دی۔
سال کے آخر میں صالح حکومت چھوڑنے پر رضا مند ہو گیا تو نائب صدر منصور ہادی کو صالح کی جگہ صدر بنانے کے لیے کوشش شروع ہوگئی۔ 2012ء کے صدارتی انتخابات میں منصور ہادی اکیلے امیدوار تھے۔ حوثیوں نے ان کے بلا مقابلہ انتخاب کی بھر پور مخالفت کی لیکن اُن کی ایک نہ چلی اور ہادی بقیہ دو سال کے لیے صدر بن گئے۔ دو سال کی مدت ختم ہونے پر بھی ہادی صدارت سے چمٹے رہے اور انھوں نے اپنی مدت صدارت میں ایک سال کی توسیع کروا لی۔
حوثی اس سارے عمل کی کھل کر مخالفت کر رہے تھے اس طرح حوثیوں اور حکومت کے درمیان خلیج بہت گہری ہو گئی اور جھگڑا بڑھ کر لڑائی تک آگیا۔ ستمبر 2014ء میںحوثی ملیشیا نے جنرل علی محسن کی کمان میں دارالحکومت کا گھیراؤ کر لیا اور منصور ہادی پر دباؤ بڑھایا کہ حکومت مستعفیٰ ہو جائے۔ دارالحکومت کے کامیاب گھیراؤ کی وجہ سے حوثیوں کی دھاک بیٹھ گئی۔ جنوری 2015ء میں حوثیوں کا صدارتی کمپاؤنڈ پر قبضہ ہو گیا۔ حوثیوں نے پارلیمنٹ تحلیل کر دی اور چھ فروری کو حکومت چلانے کے لیے ایک عبوری انقلابی کمیٹی تشکیل دے دی۔ صدر منصور ہادی کمپاؤنڈ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور عدن پہنچ کر جلاوطن حکومت قائم کر لی۔
منصور ہادی نے تھوڑا عرصہ عدن میں قیام کیا لیکن جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں اور سابق صدر صالح کے لڑاکوں نے عدن پر اپنا دباؤ بڑھایا تو وہ عدن سے نکل کر سعودی عرب چلے گئے اور اپنی جلاوطن حکومت کا دفتربھی وہیں منتقل کر لیا۔ یمن میں جاری خانہ جنگی میں اب تین فریق نمایاں ہیں۔ منصور ہادی جن کو سعودی عرب سپورٹ کر رہا ہے۔ دوسرا فریق جنوبی یمن کے علیحدگی پسند اور صالح کے لڑاکے جن کی مدد متحدہ عرب امارات سے ہو رہی ہے۔ جھگڑے کے سب سے اہم فریق حوثی قبائل جن کو ایران سے بظاہر مدد مل رہی ہے اور جو اس وقت آدھے سے زیادہ یمن بشمول دارالحکومت صنعاء پر قابض ہیں۔
حوثیوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے نو ملکی سعودی اتحاد نے جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں سے بات چیت شروع کی تا کہ سارے مل کر حوثیوں سے لڑ سکیں۔ یمن کی جلاوطن حکومت اور جنوبی یمن کے علیحدگی پسند لڑاکوں کے درمیان اکتوبر میں جدہ میںایک ایسی ڈِیل ہوئی ہے جس میں یہ طے پایا ہے کہ جنوبی علیحدگی پسند جلاوطن حکومت سے جنگ ختم کر دیں گے اور خانہ جنگی سے اجتناب کریں گے۔ سعودی عرب اور امارات کی مدد سے ہونے والے اس معاہدہ کی رُو سے یہ لڑاکے سعودی قیادت میں قائم جنگی اتحاد کے دستوں کا حصہ بنیں گے اور حوثی ملیشیا سے اُن کے زیرِ اثر علاقہ خالی کروائیں گی۔
متحدہ عرب امارات کے وزیرِخارجہ انور گُرگاش نے ایک بیان میں کہا کہ جدہ معاہدے نے یمن والوں کو یکجا کر دیا ہے اور یہ ملک اب ایک شاندار مستقبل کے راستے پر گامزن ہو گیا ہے۔ سعودی اتحاد کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ جدہ معاہدہ کے ذیل اتحادی افواج نے عدن میں مورچے سنبھال لیے ہیں۔ اتحاد نے امارات کا مدد کرنے پر شکریہ ادا کیا ہے۔ یہ سمجھ نہیں آتی کہ حوثیوں سے معاملات طے کیے بغیر یمن کیسے متحد ہو گیا ہے۔
یمن کے جھگڑے میں سعودی اتحادی افواج بہت مشکل میں ہیں کیونکہ وہ حوثی ملیشیا کے خلاف کوئی پیش قدمی کرنے سے قاصر ہیں ایسے میں جنوبی یمنی لڑاکوں کے آ ملنے سے اتحادی افواج کو تقویت حاصل ہو گی۔ 2019ء میں حوثی ملیشیا نے سعودی عرب پر کئی حملے کر کے سعودی تیل تنصیبات کو بہت نقصان پہنچایا ہے جس سے وہاں تیل کی پیداوار گھٹ کر نصف کے قریب رہ گئی ہے۔ سعودی عرب کے پاس دنیا کے بہترین ٹینک، بہترین توپخانہ، بہترین لڑاکا طیارے، بہترین بحری جنگی جہاز، بہترین میزائل ڈیفنس سسٹم غرضیکہ لڑائی کے لیے جو کچھ بہترین مہیا ہو سکتا ہے وہ سعودیہ کے پاس ہے۔
اس کی مدد کے لیے تمام خلیجی ممالک اور مصر بھی کمر بستہ ہیں لیکن وہ ایک بظاہر نان اسٹیٹ ایکٹر یعنی حوثی ملیشیا کو پیچھے دھکیلنے میں ناکام رہا ہے اور اب 2019ء میں صورتحال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ سعودیہ بہترین میزائل ڈیفنس سسٹم رکھنے کے باوجود حوثی ڈرون حملے روک نہیں سکتا۔ بحیرہء احمر میں حوثی کارروائی نے ایک بار پھر سعودی ڈیفنس کی کمزوریوں کو واضح کر دیا ہے۔ ستمبر کے آخر میں حوثی ملیشیا نے امن کو ایک چانس دینے کے لیے ڈرون حملے روک دیے تھے خدشہ ہے کہ بگڑتی صورتحال میں حوثیوں نے دوبارہ حملے شروع کیے تو علاقائی امن خطرے میں پڑ جائے گا۔