کیا عمران خان بھی نواز شریف بننے جا رہے ہیں

عمران خان کے مائنس ہونے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ جیسے نواز شریف کو مائنس کرنے باتیں شروع ہو گئی تھیں۔


مزمل سہروردی November 22, 2019
[email protected]

آجکل اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز میں مائنس عمران فارمولے کی بہت باز گشت ہے۔ وہی سیاسی ارسطور جو دو سال پہلے نواز شریف کے مائنس ہونے کے فارمولہ بیان کرتے تھکتے نہیں تھے، آجکل عمران خان کے مائنس ہونے کے فارمولہ بیان کر رہے ہیں۔

بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے ۔ جب نواز شریف مائنس ہو رہے تھے میں نے تب بھی لکھا تھا کہ اس لڑائی میں لڑتے لڑتے ہو جائے گی گم ایک کی چونچ ایک کی دم۔ شائد وقتی طور پر ایسا ممکن نہیں ہوا اور عمران خان کولائف لائن مل گئی۔ لیکن آج نظر آ رہا ہے کہ ایک بڑے اسکرپٹ پر کام ہورہا ہے۔ ٹائمنگ کی بات ہے ،کب اور کیسے۔ اگر نواز شریف اور زرداری قبول نہیں تو عمران خان کیسے قبول ہو سکتا ہے۔

جب نواز شریف کو مائنس کرنے کے اسکرپٹ پر کام شروع ہوا تو سیاسی پنڈتوں نے جناب آصف زرداری کو بہت سمجھایا کہ اس کے بعد آپ کی باری ہے لیکن وہ کسی کے سحر میں گرفتار ہو چکے تھے۔ وہ بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت کو ختم کرنے پر فتح کے جشن منا رہے تھے۔ ن لیگ کے دوست بہت سمجھا رہے تھے کہ ہم باری باری نشانہ بنیں گے۔ لیکن آصف زرداری یقین کر چکے تھے کہ ان کی باری نہیں آئے گی۔ وہ جتنا جتنا نواز شریف کو گرانے میں آگے بڑھیں گے، وہ اتنے ہی محفوط ہوتے جائیں گے۔ ان کی سیاست بھی محفوظ ہو گی۔ ان کے لیے اقتدار کے دروازے بھی کھلے رہیں گے۔

پھر سب نے سینیٹ کا الیکشن دیکھا ۔ دوستوں نے آگ اور پانی کو اکٹھا کر دیا۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں زرداری اور عمران خان کو اکٹھا کر دیا گیا ۔ عمران خان نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے پی پی پی کے امیدوار کو ووٹ ڈال دیے۔ ایک ماحول بنا دیا گیا کہ آگے چل کر بھی دونوں جماعتیں ن لیگ اور نواز شریف کے خلاف اکٹھی چلیں گی۔ آصف زرداری نے کہنا شروع کر دیا کہ اگلی جو بھی حکومت بنے گی اس میں وہ شامل ہوںگے۔ یہ ماحول انتخابات تک قائم رکھا گیا تا کہ ن لیگ کو اکیلے کر کے مارا جا سکے۔ سارے حملے ن لیگ پر تھے۔ تحریک انصاف اور پی پی پی کو لاڈلوں کی حیثیت حاصل تھی۔

تاہم نواز شریف کو نا اہل کرنے اور جیل میں پہنچانے کے بعد یک طرفہ احتساب کا نعرہ اتنا زور پکڑ گیا کہ زرداری کو پکڑنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ ویسے بھی بڑے اسکرپٹ میں زرداری کی بھی کوئی جگہ نہیں تھی۔ لیکن یہ آصف زرداری کے ساتھ دھوکا تھا۔ پہلا دھوکا تو یہ ہوا جب عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ پی پی پی کے ساتھ شراکت اقتدار نہیں کریں گے۔ یہ سینیٹ کے موقع پر جو اتحاد ہوا تھا اس کی خلاف ورزی تھی۔ لیکن عمران خان اپنی زبان ہی بول رہے تھے۔ تا ہم زرداری بھی بہت آگے آ چکے تھے۔ اب ن لیگ کے پاس واپس جانے کا بھی کوئی آپشن نہیں تھا۔ پہلے نواز شریف کو تنہا کیا گیا تھا۔ اب زرداری کو تنہا کر دیا گیا۔

ن لیگ میں بھی رائے تھی کہ جس طرح زرداری نے ہمارے مرنے کا تماشہ دیکھاہے، ہمیں ان کے مرنے کا تماشہ دیکھنا چاہیے۔ عمران خان بھی بہت خوش تھے۔ انھیں نظر آ رہا تھا کہ ان کے دوسرے مد مقابل بھی مرنے جا رہے ہیں۔ جیسے آصف زرداری کو یہ سمجھ نہیں تھی کہ نواز شریف کے بعد ان کی باری آنی ہی آنی ہے۔ ایسے عمران خان کو بھی یہ سمجھ نہیں تھی کہ ایک دن ان کی باری بھی آ جائے گی۔

آج دیکھ لیں وہ وقت بھی آ گیا ہے کہ عمران خان کے مائنس ہونے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ جیسے نواز شریف کو مائنس کرنے باتیں شروع ہو گئی تھیں۔ مجھے تو ایک اور مماثلت بھی نظر آرہی ہے۔ جیسے جیسے نواز شریف بند گلی میں پہنچتے گئے، خود کو بچانے کی کوشش میں محاذ کھولتے گئے۔آج عمران خان کی بھی ویسی ہی پوزیشن بنتی نظر آرہی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کے ساتھ شکوہ اور جواب شکوہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس کے نہایت دور رس نتائج ہوںگے۔ نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر تحریک انصاف کی سیاست اور سوشل میٖڈیا سیاست نے عمران خان کے لیے اقتدار کی بساط میں وہ کانٹے بچھا دیے ہیں جن کو چننا آسان نہیں ہو گا۔

آج سوشل میڈیا پر عمران خان کے حامیوں نے جو طوفان اٹھایا ہوا ہے اس کو کسی صورت بھی پسند نہیں کیا جا رہا۔جب نواز شریف کے خلاف ریفرنس کی روزانہ سماعت کی جا رہی تھی۔ سپریم کورٹ سے مانیٹرنگ کی جا رہی تھی۔ چھٹی والے دن بھی سماعت کرنے کے احکامات دیے جا رہے تھے۔ تب ن لیگ کو مقدمہ کی اتنی تیز سماعت پر اعتراض تھا۔ سوال کیا جا رہا تھا کہ اتنی جلدی کیا ہے۔ یہ مقدمہ باقی مقدمات کی رفتار کے مطابق کیوں نہیں سنا جا رہا۔

صرف اس مقدمہ کی مانیٹرنگ کیوں کی جا رہی ہے۔ تب تحریک انصاف کا موقف تھا کہ مقدمہ کی تیز رفتار سے سننے پر اعتراض جائز نہیں۔ اس پر تو خوش ہونا چاہیے۔ جلد از جلد انصاف جس بھی مقدمہ میں ممکن ہو اس پر اعتراض کی کوئی گنجائش جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔ آج وہی تحریک انصاف اور وہی لیڈر نواز شریف کے ای سی ایل کے کیس کی جلد سماعت پر اعتراض کر رہے ہیں۔ ان کو اس بات پر اعتراض ہے۔ عمران خان وزارت عظمیٰ کے دوسرے سال میں انھی حالات و واقعات کا شکار ہو رہے جن کا نواز شریف ہوئے تھے۔ دھرنے کی فلم بھی چلی ہے۔ اور امید ہے کہ اس کی اگلی قسط بھی ہو گی۔ صرف اس کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔ پہلے کی ناکامی نے دوسرے کی بنیاد رکھ دی ہے۔

آپ دیکھ لیں فارن فنڈنگ کیس یک دم اہم ہو گیا ہے۔ چیئرمین نیب نے بھی ہواؤں کا رخ تبدیل اور یک طرفہ احتساب کا تاثر دور کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ شریف فیملی باہر چلی گئی ہے تا کہ وہ اس کھیل سے دور رہے۔ شہباز شریف نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔

دیکھا جائے تو یہ عمران خان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ اگر عمران خان کو مائنس کرنے کے اسکرپٹ پر کام تیز ہوا تو ن لیگ اس کو سپورٹ کرے گی۔ اس لیے مجھے ڈر ہے کہ عمران خان کے بھی نواز شریف بننے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ فواد چوہدری پرویز رشید بنتے جا رہے ہیں۔ مراد سعید طلال چوہدری اور دنیال عزیز بنتے جا ئیں گے۔ سوال یہ بھی چوہدری نثار کون بنے گا۔ سب کی نظریں شاہ محمود قریشی کی طرف ہیں۔ مجھے پرویز خٹک کے زیادہ چانس لگ رہے ہیں۔کیونکہ وہ کے پی میں اہم ہوںگے۔ کاش یہ سب غلط ہو ۔ میرا وہم ہو۔ اللہ کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں