آرٹ مشرق اور عورت
مشرقی بیٹیوں کو ہر حال میں اپنی ماؤں کا دیا ہوا سبق نہیں بھولنا چاہیے چاہے بات سرحدوں کی ہو یا قومیتوں کی۔
اس نے کہا تھا ''مائم موسیقی کی مانند ہے جس کی نہ تو سرحدیں ہیں اور نہ ہی قومیتیں'' مائم آرٹ کی ایک ایسی قسم ہے جس میں بنا کوئی آواز منہ سے نکالے اداکاری کی جائے یہ ایک مشکل اور صبر آزما فن ہے جس کو ادا کرنے والا جس قدر عقل مند ہوگا، اسی قدر یہ فن اس کے لیے دلچسپ اور مسحورکن ہوگا، اسے سمجھنے والے اور دیکھنے والے بھی اس قدر سنجیدہ اور حساس مزاج رکھتے ہیں۔
1923 میں پیرس میں پیدا ہونے والا مارسل ماریسو ایسا ہی ایک حساس فن کار تھا جسے خاموشی کا استاد بھی کہا جاتا تھا، حالانکہ اصل زندگی میں وہ خاصا باتونی تھا لیکن جب وہ اپنی پرفارمنس دیتا تو اس کا انگ انگ بولتا اور لوگ گنگ رہ جاتے۔ وہ دنیا کا بہترین خاموش پر فارمر تھا جو انسانوں، پرندوں یہاں تک کہ پودوں تک کی ایسی نقالی کرتا کہ انسان حیران رہ جاتا، اس نے خود اس بات کا اقرارکیا کہ جب اس نے پانچ برس کی عمر میں مشہور زمانہ کامیڈین چارلی چپلن کو خاموش فلموں میں اداکاری کرتے دیکھا تو اس سے شدید متاثر ہوا اور انھیں دیکھ کر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ بھی اس کامیڈین کی مانند اپنی حرکات وسکنات سے بنا کچھ بولے اداکاری کرے جس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہا۔
مارسل ماریسوکو اور اس کے فن کو دنیا بھر میں بہت سراہا گیا، 1959 میں اس نے ایک ایسے ہی اسکول کی بنیاد رکھی جہاں اس آرٹ کی تربیت دی جاتی تھی، اسے کئی ایوارڈ بھی ملے، اس نے اپنے فن کی خدمت کے لیے ماریسو فاؤنڈیشن بھی قائم کی، مارسل ماریسو جدید دنیا کا عظیم فنکار تھا۔
مشہور زمانہ سنگر اور ڈانسر مائیکل جیکسن نے بھی اس بات کا اقرارکیا تھا کہ اس نے اپنے رقص میں مارسل ماریسو کے انداز کو استعمال کیا۔ دیکھا جائے تو چارلی چپلن کی خاموش اداکاری سے مائیکل جیکسن کی پرفارمنس تک شہرت ساتھ رہی، یہاں تک کہ ایک دوسرے ملک جاپان نے مارسل ماریسو کو قومی اثاثہ قرار دیا، یہ ان تمام فنکاروں کی اپنے فن سے محبت کا ثبوت ہے جو ان کو ان کے مرنے کے بعد بھی اس قدر پسند کیا جاتا ہے۔
مغرب کے بعد مشرق کی جانب دیکھیے تو امیر خسرو سے استاد بڑے غلام علی اور پھر استاد نصرت فتح علی خان سے راحت فتح علی خان سارے فن کار اپنے فن کی وجہ سے مشہور و مقبول ہیں، یہاں مہدی حسن جیسے بڑے گلوکار اور میڈم نور جہاں بھی شامل ہیں جن کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہے۔ سارے فن کار اپنے حوالوں میں پہلے موسیقی سے محبت اور چاہت کی وجہ سے ابھرے۔ یہ سب اپنے کام کے دھنی لوگ ہیں ان سے منسلک قصے، باتیں، یادگاریں لوگ اپنے لیے اعزاز کی بات سمجھتے ہیں صرف یہی نہیں حمد و نعت، قوالی اور اس طرح کی اصناف میں بھی لوگ اپنا مقام رکھتے ہیں۔
مثلاً نعت کے شعبے میں قاری وحید، ظفر قاسمی ہوں یا ام حبیبہ، قوالی میں غلام فرید صابری ہوں یا جاوید میاں داد غرض سب اپنے میدان میں خوب ہیں جہاں جہاں اردو سمجھی اور بولی جاتی ہے وہاں یہ تمام حضرات مشہور ہیں لوگ انھیں سنتے ہیں اور پسند کرتے ہیں۔ یہ اپنے حوالوں سے اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں، اداکاری کے شعبے میں علاؤ الدین ہوں یا صبیحہ خانم، نور جہاں ہوں یا سدھیر، شان ہو یا ریما اسٹیج میں مشہور ہیں بلکہ ان میں سے بہت سے ایسے بھی فن کار ہیں جنھوں نے وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت میں ایسے اوصاف پیدا کیے کہ ان کو دیکھ کر سن کر خوشی ہوتی ہے مثلاً جو اپنے نپے تلے انداز گفتگو سے اپنے کردار کو بلند کرتی نظر آتی ہیں۔ بہت ساری اداکارائیں مختلف طبقات کے حوالے سے بھی مشہور ہیں لیکن یہ ہمارے معاشرے کا سنگھار ہی ہے کہ وہ سب خواتین بھی عام زندگی میں اپنے رویوں اور اخلاق سے اس طرح بھرم رکھتی ہیں کہ فن کار کے معنی کو سجا دیتی ہیں۔
خواتین ہونے کے حوالے سے بہت سی باتیں معاشرے میں جلدی ہی پھیل جاتی ہیں مثلاً اگر کسی لڑکی کو کسی لڑکے سے عشق ہوگیا تو معاشرے میں لڑکی کے نام کی جے جے کار مچ جاتی ہے، لڑکی اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی تو ماں باپ کی عزت ڈوب گئی۔ ہمارے مشرق میں شوبز کی زندگی ہو یا عام اندھیروں اجالوں میں بسنے والی لڑکیاں سب ایک ہی طرح سے ٹریٹ کی جاتی ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کہیں مرد تو کہیں عورت جابر بن جاتی ہے لیکن عورت کی پرورش کرتے ایک ماں اپنی بچی کو اپنی عزت کی حفاظت کرنے کا درس دیتی ہے یہ خوبصورتی ہمارے معاشرے کا جھومر ہے اس پر بحث کرنا فضول ہے، لیکن اگر کوئی خاتون اپنے سبق کو بھول کر مصنوعی رعنائیوں اور بیہودگی کو اپنا حسن سمجھ لے تو یہ غلطی اس کی ہے اور بے شک اوپر والا تو معاف کرنے والا ہے۔
رابی پیرزادہ ایک خوش شکل اور عام سی گلوکارہ ہے، ان کی آواز سے زیادہ ان کی شکل میں خوبصورتی ہے، انھیں پہلی بار ایک میوزک پروگرام کی کمپیئرنگ کرتے دیکھا تھا اس بات کو برسوں بیت گئے اس دوران ان کے بچے اب خیر سے کالج یونیورسٹی جا رہے ہیں، بہرحال کمپیئرنگ سے اچانک رابی نے میوزک میں چھلانگ لگائی اور لوگوں نے انھیں سراہا، اس زمانے میں حدیقہ کیانی بھی خاصی معروف و مقبول گلوکارہ تھیں لیکن حدیقہ کے مقابلے میں رابی کا پہناوا کچھ زیادہ ہی مغربی تھا، وقت گزرتا گیا، رابی نے ڈرامے بھی کیے، فلمیں بھی کیں، لیکن مووی کے حوالے سے ان کی اژدھوں، سانپوں اور مگر مچھ کے ہمراہ تصویر نے انھیں خاصا اچھا اور بہادر لڑکی کا امیج دیا، لوگ ان کی گلوکاری کو بھول کر ان کے جذبات کی قدر کرنے لگے ۔ مشرق کے حوالے سے مشرقی بیٹیوں کو ہر حال میں اپنی ماؤں کا دیا ہوا سبق نہیں بھولنا چاہیے چاہے بات سرحدوں کی ہو یا قومیتوں کی۔