کرتارپور علامت سے بڑھ کر
سکھ مت نے پنجاب میں جنم لیا اور اس اعتبار سے یہ ہر سکھ کا وطن ہے۔
کرتار پور راہداری کھول کر سِکھوں کو گرو نانک کی آخری قیام گاہ تک رسائی دینا در حقیقت پاکستان کی بہت بڑی کام یابی ہے۔ اس منصوبے کی تجویز سب سے پہلے 1999میں اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورۂ پاکستان کے دوران سامنے آئی، اس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں آنے والے اتار چڑھاؤ کے باعث دو دہائیوں تک یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا رہا، بالآخر گزشتہ برس اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
اس منصوبے کی تکمیل سے دونوںممالک کی حکومتوں کے مابین تعلقات میں بہتری بھلے نہ آئے لیکن یہ دونوں طرف کے عوام کے بہتر تعلقات کا آغاز ضرور ثابت ہوگا۔ خیر سگالی کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی اقلیتوں کے ساتھ پاکستان کے بہتر برتاؤ میں بھی یہ اہم پیش رفت ہے اور پاکستان کی اقلیتوں میں سکھ بھی شامل ہیں۔
سکھ مت نے پنجاب میں جنم لیا اور اس اعتبار سے یہ ہر سکھ کا وطن ہے۔ 1947میں تقسیم ہند کے بعد سکھوں کی بڑی تعداد بھارت منتقل ہوگئی لیکن ان کے مقدس مقامات پاکستان ہی میں ہیں۔ پاکستان میں سکھوں کے 150مقدس مقامات ہیں۔ دیگر اہم گردواروں میں لاہور کا ڈیرہ صاحب اور حسن ابدال کا گردوارہ پنجہ صاحب بھی شامل ہیں جہاں دنیا بھر سے سکھ زائرین مذہبی رسوم ادا کرنے کے لیے آتے ہیں۔ گرونانک کے ماننے والے ہر سال مقدس مقامات کی زیارت کے لیے پنجاب کا رُخ کرتے ہیں۔
پاکستان کا اپنے قیام کے بعد سے اپنی مذہبی اقلیتوں سے تعلق پیچیدگیوں کا شکار رہا ہے۔ پاکستان کو مسلم اکثریتی ریاست کے بجائے ''اسلامی ریاست'' بنایا گیا جس کی وجہ سے نئی قائم ہونے والی ریاست میں حقیقی و نام نہاد علما کو غیر مسلم شہریوں کے مقام کے تعین کا منصب حاصل ہوگیا۔ قائد اعظم واضح کرچکے تھے کہ ''آپ اپنے گرجوں، مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، اس سے ریاست کا کوئی تعلق نہیں ہوگا''۔ بانی پاکستان کی افسوس ناک اور بہت جلد رحلت کے ساتھ ہی ان کے دیے گئے اصولوں کو فراموش کردیا گیا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہری علاقوں میں اسلام کی سخت گیر تشریحات و تعبیرات رواج پاگئیں اور پڑھے لکھے لوگوں میں ان کی قبولیت پیدا ہوگئی۔ ایک مکتبہ فکر نے ان افکار کی ترویج کی اور انھیں نئے ''نظریہ پاکستان'' کے طور پر پیش کیا۔ اس سے نہ صرف پاکستان میں رہ جانے والے گنے چنے سکھ، مسیحی اور ہندو شکوک کا شکار ہوگئے بلکہ دیگر مکاتیب فکر بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ وہ اسلام پر جن معروف معنوں میں عمل پیرا ہیں، ان کے لیے ریاست کے ترویج کردہ تصور مذہب میں کیسے گنجائش پیدا ہوگی۔
بنیادی تصور یہی ہے کہ اسلام تمام مسلمانوں کو متحد کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اصولی طور پر یہ بات درست ہے تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں مختلف دینی تعبیرات پائی جاتی ہیں اور ان پر عمل بھی ہوتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کوئی ایک گروہ اپنی دینی تعبیرات کو حتمی قرار نہیں دے سکتا کیوں کہ اس سے اختلافات کو مشترکہ بنیاد یعنی قرآن پر دور کرنے کے بجائے تفرقہ بڑھے گا۔ اس سے بڑھ کر غیر مسلموں کے لیے یقینی طور پر یہ ایک پریشان کُن سوال تھا کہ اگر ریاست انھیں دوسرے درجے کا شہری تصور کرتی ہے تو ریاست سے ان کے تعلق کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔
حکومتی نظریہ پاکستان میں غیرمسلموں کے یکساں حقوق اور بالخصوص مذہبی رسوم کی ادائیگی کی آزادی کا سوال نظر انداز کیا گیا۔ تعلیم اور ذرایع ابلاغ کے شعبوں میں جس خطے میں پاکستان قائم ہوا اس کی قبل از اسلام کی تاریخ ، موہن جو داڑو اور مہر گڑھ جیسی تہذیبوں اور صدیوں قبل اس خطے میں پھلنے پھولنے والے بدھ مت اور ہندو مت کو بھی یا تو نظر انداز کردیا گیا یا ان سے سوچی سمجھی بے توجہی برتی گئی۔ اس رویے نے قومی تشکیل کے عمل کو متاثر کیا اور پاکستانی ریاست میں بسنے والے مختلف گروہ اس سے اپنا جذباتی تعلق پیدا نہیں کرسکے۔
کرتارپور راہداری کھولنے کو درست سمت میں اٹھنے والا قدم سمجھنا چاہیے اور یہ سمت غیر مسلموں کو بلاامتیاز اپنے مذہب پر عمل کی آزادی دینا ہے۔ درحقیقت یہ آزادی اسلامی تعلیمات اور پیغمبرﷺ کے اسوہ سے اخذ کردہ ہے۔ اپنے بچوں( اور پاکستانی ہم وطنوں) کو یہ سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ مسلمان ہونا امتیاز سے بڑھ کر ذمے داری ہے، جس میں دیگر مذاہب کے حقوق کا دفاع سر فہرست ہے۔ اس کے بغیر ہم اپنے ملک میں شدت پسند مذہبیت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
کرتارپور راہداری کے اقدام کو دیکھنے کا ایک اور زاویہ بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انتہائی مہذب اور معقول شخص بھی پرُامن نہیں رہ سکتا اگر اس کا پڑوسی ہروقت جھگڑے پر آمادہ رہتا ہو۔ بھارتی سکھوں کو کرتارپور کے گردوارہ دربار صاحب تک، جہاں سکھ مت کے بانی گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے، رسائی دینے کی اجازت دینا درست قدم ہے اور اس کے لیے ویزہ کی شرط نہ ہونا بھی قابل قبول ہے۔ ایسی آوازیں سنائی دیں کہ پاسپورٹ کے بغیر صرف شناختی کارڈ ہی پر داخلے کی اجازت دی جارہی ہے۔کیا ایسا کرنا دانش مندی ہوگی؟ ہمارے پڑوسی ملک کی فطرت اور بالخصوص موجودہ حکومت کا طرز عمل بہت کچھ واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
پاکستان کو آنے جانے والوں کا پورا ریکارڈ رکھنا چاہیے۔ بھارت اس سے قبل بھی کئی درپردہ کارروائیاںکرچکا ہے، کیا ایسی صورت میں ہم صرف بھارت کے فراہم کردہ شناختی کارڈ پر اعتبار کرسکتے ہیں؟ ایسی صورت میں کسی بھی حملے یا پُر تشددکارروائی کا الزام ہم پر عائد ہوگا۔ بات الزام اور بہتان طرازی تک محدود نہیں، اگر اس کی آڑ میں دہشت گردوں یا ہتھیاروں کی اسمگلنگ کی کوئی راہ پیدا ہوتی ہے اس کے نتائج تو ہمارے ہی لوگوں کو بھگتنا پڑیں گے۔ مسلمانوں اور سکھوں کے مابین پیدا ہونے والے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے لیے بی جے پی سرکار کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ جسے ''امن کی راہداری'' کہا جارہا ہے اسے بہ آسانی بدامنی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم کسی ایسے ڈرامے کے لیے خود ہی گنجائش پیدا کرنے پر آمادہ ہیں تو مغربی سرحد پر باڑ کیوں لگائی جارہی ہے؟
ہمیں ان خدشات کی پیش بندی کرنا ہوگی۔ خیر، راہداری کی افتتاحی تقریب میں بھارت کے سابق وزیر اعظم، من موہن سنگھ، بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ، کانگریس کے رہنما نوجوت سنگھ سدھو، اداکار سنی دیول، وفاقی وزیر ہردیپ سنگھ پوری اور ہرسمرت کور بادل نے شرکت کی۔ ایسے حالات میں یہ کوئی چھوٹی کام یابی نہیں جب بھارتی حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر پر دھاوا بولنے کی دھمکیاں دے رہی ہے اور دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف زہر اگل رہی ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کا سہرا اس حکومت کے سر جاتا ہے کہ فروری میں دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے اور اس کے بعد 5اگست کو کشمیر کی خودمختاری ختم ہونے کے بعد بھی اس پر کام نہیں روکا گیا۔ جب بھی حالات ساز گار ہوئے، کرتارپور پاک بھارت تعلقات میں ایک نیا موڑ ثابت ہوگا۔
کرتارپور کا ایک بین الاقوامی تناظر بھی ہے۔ ایک جانب تو پاکستان مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی جانب عالمی توجہ مبذول کروانے میں کام یاب رہا ہے وہیں پاکستان ان کشیدہ حالات کے باجود تعلقات کی بہتری کے لیے اقدامات کررہا ہے۔ جو بھی اس پر غور کرے گا اسے یہی معلوم ہوگا کہ پاکستان پُرامن ابتدا کے لیے ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ چھوٹے شدت پسند گروہوں کے خلاف ہماری کاوشوں کو اس سے عالمی برادری میں مزید اعتبار حاصل ہوگا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)