گیم تھیوری
عمران خان کو بہلایا پھسلایا گیا ساتھ ہی روایتی کرپٹ سیاسی خاندانوں اور گروپوں کو تحریک انصاف کے ساتھ ملایا گیا۔
ISLAMABAD:
چوہدری خاندان کی پنجاب کی روایتی سیاست میں اپنی ایک مخصوص جگہ ہے۔ سیاسی جماعتیں، غیر سیاسی ادارے، مولوی، لبرل اور میڈیا ہر کوئی چوہدری صاحبان کی سیاسی دانش کا گرویدہ ہے، خصوصاً ان کا عملیت پسند سیاسی فلسفہ ''سب مل کرکھاؤ پھر مٹی پاؤ'' سیاست اور میڈیا ہر جگہ ہی نہایت پسندیدہ اور مقبول ہے۔
چنانچہ جب اس ہر دل عزیز سیاسی خاندان کے موجودہ حکومت سے فاصلے پیدا ہوتے نظر آئے تو ہلچل مچ گئی۔ رہی سہی کسر ایم کیو ایم نے پوری کر دی۔ ایم کیو ایم کے ایم این اے اور این پی اے کراچی کے لوگوں کی وڈیرہ جمہوریت کے ہاتھوں 12 سال سے بنائی جانے والی درگت پہ شاذ و نادر ہی لب کشائی کرتے ہیں اور جوکبھی کریں تو بھی آداب وڈیرہ شاہی ملحوظ خاطر رکھتے شرماتے لجاتے منمناتے کرتے ہیں مگر اسی ایم کیو ایم کے رہنما عدالت سے سزا یافتہ نواز شریف کے بیرون ملک وی وی آئی پی ''علاج'' کے انسانی حق پہ حکومت کو گھن گرج کے ساتھ لیکچر دیتے اسمبلی میں نظر آئے۔
حکومتی اتحادیوں کی اس اچانک تیزی کو جب ٹی وی اینکروں کی منہ چڑھتی تندی اور نظریہ پاکستان اور قائد اعظم سے نفرت رکھنے والے مولوی اور لبرل لسانی گروہوں کے بڑھتے اعتماد کے ساتھ ملاکر جس نے بھی دیکھا اسے یہی لگا کہ اب ہر جانب موجود پوشیدہ ہاتھ عمران خان کے قدموں تلے سے حکومتی قالین کھینچنے میں فعال ہوچکے ہیں۔
یہ سارا ماحول اب کچھ ایسا بنا ہے کہ اس تاثر میں نواز و شہباز شریف کی لندن روانگی اور حکومت اور ادارے ایک پیج پہ ہیں کے جیسے بیانات سے بھی کمی نہیں آرہی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ عمران خان میگا کرپشن اور میگا کرپٹ کرداروں کے خلاف اپنے سخت موقف کی وجہ سے سیاسی جماعتوں، غیر سیاسی اداروں، میڈیا، اپنے سیاسی اتحادیوں اور خود اپنی پارٹی میں موجود بہت سے حلقوں میں غیر مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں جتنے منہ اتنی باتیں۔ تاہم جو '' گیم تھیوری'' زیادہ مقبول نظر آتی ہے۔ آئیے اس پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔
حالیہ چند عشروں میں پاکستان کے روایتی کرپٹ حکمران طبقے کے پھلنے پھولنے اور پھیلاؤ میں بے حساب اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ روایتی کرپٹ کلاسز کے علاوہ اب مختلف مافیاز مثلاً لینڈ مافیا، کرنسی مافیا، انرجی مافیا وغیرہ ۔ اس امر کو کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا کہ تاریخی اور روایتی طور پہ پاکستان کے طاقتور ادارے اور نظام قانون و انصاف پاکستان پہ قابض حکمران کرپٹ طبقے کے سرپرست، نگہبان اور محافظ رہے ہیں۔
آپس میں دوستیاں رشتے داریاں ہوں تو آپس میں ایک دوسرے کا خیال اور بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ کچھ عجب نہیں کہ اس ملک میں مرغی اور روٹی چرانے والا جیل میں پڑا سڑتا ہے، بیماری میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر بھی جائے تو میڈیا دکھاوے کو بھی ایک لفظ نہیں بولتا، جب کہ اس ملک کے اربوں کھربوں لوٹنے والوں کے لیے پلی بارگین کا ''قانون'' ہے، کچھ ہمیں دو، باقی اپنے پاس رکھو، مزے کرو۔ اربوں کھربوں اس ملک کے لوٹنے والوں کے لیے وی وی آئی پی ''جیل'' اور بیرون ملک ''علاج'' کی فوری سہولتیں ہیں۔
1980ء کے عشرے سے ملک کے طاقتور اداروں نے اس ملک کے ساتھ دو طرح کے گیم کھیلے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس ملک میں مختلف انتہا پسند اور مسلح لسانی و مذہبی مسلکی گروہوں کو ابھرنے دیا گیا، کبھی ایک کو سپورٹ کیا، دوسرے کو دبایا، تیسرے کو ہشکایا، چوتھے کو پچکارا۔ یہ سمجھتے تھے کہ یہ گیم ایسے ہی چلتے رہیں گے اور عام پاکستانی ہی اس آگ میں جھلستے رہیں گے مگر یہ آگ ایسی پھیلی کہ تپش ان کے افسران تک پہنچی تو پھر ان گروہوں کے خلاف کارروائیاں کرنی پڑیں۔ ان کے دوسری طرح کے گیم سیاست میں تھے۔ کبھی ایک کرپٹ گروہ کے سر پہ ہاتھ رکھا تو کبھی دوسرے کی پیٹھ تھپتھپائی، کبھی ایک کو این آر او دیا، کبھی دوسرے سے ڈیل کی۔
ان کا خیال تھا یہ لوٹ مار ایسے ہی چلتی رہے گی اور عام پاکستانی بھگتتے رہیں گے۔ مگر ان کے دیے گئے این آر او کے طفیل 2008ء سے 2018ء تک بننے والی حکومتوں میں ایسی لوٹ مار ہوئی اور ملک کے 60 سالوں میں لیے گئے قرضوں سے صرف دس سال میں جو 5 گنا زیادہ قرضے لیے گئے تو ان سے قومی معیشت ایسی بستر مرگ پہ آگئی کہ خود ان طاقتور اداروں کے ہر سال بڑھنے والے بجٹ بھی خطرے میں پڑ گئے۔ چنانچہ مجبوراً الیکشن میں عمران خان کی کامیابی کو برداشت کیا گیا ورنہ 2013ء کی طرح پھر تحریک انصاف کو الیکشن میں شکست دلوائی جا سکتی تھی۔
عمران خان کو بہلایا پھسلایا گیا ساتھ ہی روایتی کرپٹ سیاسی خاندانوں اور گروپوں کو تحریک انصاف کے ساتھ ملایا گیا اور مختلف گروپوں کے کرپٹ عناصر کو تحریک انصاف میں پہنچایا گیا۔ عمران خان کو اپنی بھرپور حمایت کا تاثر دے کر عمران خان کی حکومت سے قومی معیشت کی بحالی کے لیے سخت ترین اور ازحد نامقبول فیصلے کروائے گئے تاکہ ایک طرف تو ملک کی معیشت ٹریک پہ آ جائے اور دوسری طرف ان سخت اور نامقبول معاشی فیصلوں سے پیدا ہونے والی عام اقتصادی مشکلات سے پریشان ہو کر عام لوگ عمران خان کو گالیاں دیں اور سابق کرپٹ حکمرانوں کے دور کو یاد کریں اور اینکر جلتی پہ تیل ڈالیں۔
کرپشن کے خلاف اپنے غیر لچکدار رویے کی وجہ سے عمران خان کرپٹ حکمران طبقے اور اس کے سرپرست و نگہبانوں کے کبھی بھی پسندیدہ نہیں رہے۔ چنانچہ اب جب کہ قومی معیشت کوما سے نکل آئی ہے اور عمران خان کی حکومت کے 16 مہینوں میں لیے گئے سخت معاشی اقدامات کے ثمرات آنا شروع ہوگئے ہیں اور قومی خزانہ بھی بھرنا شروع ہو گیا ہے تو بلاشبہ وقت آگیا ہے کہ '' اسٹیٹس کو'' کے محافظ اور ملک میں رائج مستقل کرپٹ نظام اور کرپٹ مستقل حکمران طبقے کے سرپرست اور نگہبان عمران خان کو پہلے حکومت اور پھر سیاسی سسٹم سے سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے آؤٹ کریں اور بھی ہو سکے تو عمران خان کو عبرت کا نمونہ بنا دیں تا کہ آیندہ کوئی اس کرپٹ سسٹم کو چیلنج نہ کرے، چنانچہ اس سلسلے میں ہمیں مختلف سرگرمیاں، واقعات اور فیصلے رونما ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
اب جہاں تک عمران خان کی سیاسی و حکومتی غلطیوں کا تعلق ہے تو ان میں مردم ناشناسی سرفہرست ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ و چیف سلیکٹر سے لے کر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور حکومتی وزیروں مشیروں کے طور پر نامناسب ترین انتخاب کرنا اور پھر اس پہ سختی سے جمے رہنا۔ اگر صوبوں میں ہی عمران خان بہتر انتخاب کرتے تو آج ان کے پاس اپنی حکومتی کارکردگی دکھانے کو بہت کچھ زیادہ ہوتا۔ بہرحال اس وقت ملک عوامی طور پہ دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔
ایک طرف اندھی سیاسی و مسلکی عقیدت اور وڈیروں جاگیرداروں کے اسیر لوگ ہیں دوسری طرف ملک میں رائج کرپٹ حکومتی نظام کے خلاف باشعور لوگ۔ اس وقت کرپٹ حکمران طبقے کے نگہبانوں کی سر پرستی میں عمران خان کے مخالف سیاستدان اور کرپشن فرینڈلی میڈیا متحد ہوچکا ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ جلد نئے گیم کے ٹھوس نتائج سامنے آنا شروع ہوجائیں۔
یہ ہے آج کل کی مقبول ترین گیم تھیوری۔ ہم صرف امید کرسکتے ہیں کہ یہ گیم تھیوری غلط ہو یا غلط ہوجائے اور ملک جو اتنی تکلیفیں اٹھانے کے بعد کہیں پھر سر اٹھاتا اور آگے بڑھتا نظر آ رہا ہے پھر کسی گیم کا شکار نہ ہو جائے۔ جو ایسا ہوا تو کروڑوں پاکستانی ایک کرپشن سے پاک اور حق و انصاف سے معمور و منور پاکستان بنانے کا خواب ہمیشہ کے لیے ہار جائیں گے۔ گیم کھیلنے والے جیت جائیں گے مگر دس سال میں بڑی قربانیوں کے بعد پھر جیتا گیا عزت و وقار شاید پھر ہار جائیں، اس بار شاید بڑے لمبے عرصے کو۔