کرتار پور راہداری بھارت کے نشانے پر

مودی کو دراصل اس راہداری سے یہ خوف لاحق ہے کہ اس سے سکھوں کا پاکستان کی جانب جھکاؤ بڑھے گا۔


عثمان دموہی November 24, 2019
[email protected]

کرتار پور راہداری کے کھلنے سے جہاں پاکستان کے ایک امن پسند ملک کے طور پر امیج میں اضافہ ہوا ہے۔ وہاں بھارتی سکھوں کی کرتار پورکے درشن کرنے کی برسوں پرانی آرزو بھی پوری ہوگئی ہے۔

پاکستان کے بارے میں اقلیتوں کے حوالے سے بھارت نے جو غلط فہمیاں پیدا کر رکھی تھیں، اب ان کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا ہے۔ حالانکہ پاکستان تو ہمیشہ سے ہی اپنی اقلیتوں کا ہر طرح خیال رکھتا رہا ہے اور انھیں یہاں شروع سے اکثریت کے برابر حقوق حاصل ہیں۔ ان کی عبادت گاہوں کی نہ صرف عزت و تکریم کی جاتی ہے بلکہ ان کی حفاظت کا پورا پورا انتظام کیا جاتا ہے۔

پاکستان اگرچہ اسلام کے نام پر عالم وجود میں آیا ہے مگر تمام مذاہب کو یہاں فوقیت دی جاتی ہے اور اس کا اعلان خود قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے گیارہ اگست 1947 کے خطاب میں فرما دیا تھا کہ پاکستان میں تمام مذاہب کو مکمل آزادی حاصل ہوگی اور کسی کا مذہب اس کی قومی زندگی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بنے گا۔ بس اسی اصول کو ہمیشہ مد نظر رکھا گیا ہے۔

البتہ پاکستان کے دشمنوں نے ضرور یہاں اقلیتوں اور اکثریتی لوگوں میں بدگمانیاں پیدا کرنے کی سازشیں کی ہیں ، تاہم ان تمام ہی سازشوں کو ہمارے لوگوں نے مل جل کر ناکام بنا دیا ہے۔ مذہبی مسئلے پر دشمنوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کچھ مقامی بھولے بھالے اقلیتی لوگوں کو ورغلا کر یا لالچ دے کر فساد کھڑاکرنے کی کوششیں کیں مگر اب ہمارے اقلیتی بھائی بھی سمجھ چکے ہیں چونکہ ہم سب کو یہیں رہنا ہے چنانچہ ایک دوسرے کے عقائد کا خیال رکھا جائے اور دشمنوں کے ایجنٹوں کے ورغلانے سے بچا جائے۔

ملک میں ہندو اور عیسائی دو بڑی اقلیتیں ہیں جہاں تک سکھوں کا تعلق ہے ان کا ملک میں امن سے رہنا مثالی ہے مگر شاید بھارت کو یہ بات پسند نہیں ہے اس لیے وہ اپنے زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے انھیں پاکستان چھوڑ کر بھارت میں بسنے کی ترغیب دیتا رہتا ہے مگر سکھ برادری بھارتی پروپیگنڈے سے ہمیشہ دور ہی رہی ہے چونکہ وہ صدیوں سے اس سرزمین پر آباد ہیں۔ ان کے تمام مقدس مقامات اسی ملک میں موجود ہیں چنانچہ وہ اپنے ان مقدس مقامات کو چھوڑ کر کہیں کیسے جاسکتے ہیں پھر وہ بھارت میں سکھوں کی حالت زار دیکھ کر بھی بہت پریشان ہیں۔

بھارت میں سکھوں کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئیں اور ابھی بھی کی جا رہی ہیں وہ انتہائی افسوس ناک ہیں۔ ان کے مقدس مقامات بھی محفوظ نہیں ہیں ان کا وہاں سب سے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل ہے اس کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اندرا گاندھی کے حکم سے اس پر ٹینکوں سے چڑھائی کرکے تباہ کردیا گیا اور اس میں موجود ان کے روحانی پیشوا اور خالصتان تحریک کے روح رواں جرنیل سنگھ بھنڈرا والا کو ان کے درجنوں ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا گیا۔ پھر اندرا گاندھی کے قتل کی پاداش میں پورے بھارت میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا ان کے پورے پورے خاندانوں کو آگ میں جھونک دیا گیا۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس وقت کی بھارتی حکومت نے سکھوں کے قتل عام کی خود اجازت دی تھی۔ سات روز تک مسلسل سکھوں کو چن چن کر قتل کیا جاتا رہا اور انتظامیہ تماشائی بنی رہی۔ تب سے سکھوں کا بھارت سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ویسے تو وہ پہلے بھی بھارتی حکومت سے دھوکہ کھا چکے تھے۔ آزادی کے وقت گاندھی اور نہرو نے انھیں یہ لولی پاپ دے کر پاکستان کے بجائے بھارت میں شامل ہونے کے لیے راضی کرلیا تھا کہ آزادی کے فوراً بعد ان کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ملک قائم کر دیا جائے گا مگر بعد میں بھارتی حکمرانوں نے اپنا وعدہ ہوا میں اڑا دیا۔

بہرحال اب سکھوں نے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کا مکمل عزم کرلیا ہے۔ وہ 2020 میں پوری دنیا کے سکھوں سے ریفرنڈم کرا کے باضابطہ طور پر خالصتان کے قیام کے لیے تحریک شروع کرنے والے ہیں۔ اس سلسلے میں کینیڈا اور برطانیہ کے سکھوں نے پیش رفت بھی شروع کردی ہے۔کینیڈا کے وزیر اعظم مسٹر جوٹن ٹروڈو نے سکھوں کے لیے نرم گوشہ اختیار کر رکھا ہے جس پر بھارتی حکومت ان سے سخت ناراض ہے۔ گزشتہ سال جب وہ بھارت کے دورے پر آئے تھے ان کے ساتھ انتہائی ذلت آمیز رویہ اختیار کیا گیا تھا جو بین الاقوامی مہمان نوازی کی بدترین مثال ہے۔

حکومت پاکستان نے سکھوں کے مذہبی جذبات کی قدر کرتے ہوئے نیک نیتی کے ساتھ کرتارپور راہداری کو کھول دیا ہے جب کہ بھارت اس کے لیے ذرا تیار نہ تھا۔ مودی کو دراصل سکھوں کے پر زور مطالبے پر اس کے لیے تیار ہونا پڑا۔ اب وہ سکھوں کے آزادانہ پاکستان جانے پر سخت پریشان ہیں۔ چنانچہ ان کی اب یہ کوشش ہے کہ اسے کسی طرح ناکام بنا دیا جائے۔ وہ اس سلسلے میں دہشت گردی کا سہارا بھی لے سکتے ہیں اور یہ مودی کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے جب وہ پلوامہ میں اپنے سازشی منصوبے کے تحت بم دھماکہ کرا کے خود اپنے درجنوں فوجیوں کو مروا سکتے ہیں تاکہ پاکستان پر نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کا راستہ ہموار ہوسکے تو وہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔

مودی کو دراصل اس راہداری سے یہ خوف لاحق ہے کہ اس سے سکھوں کا پاکستان کی جانب جھکاؤ بڑھے گا جس سے وہ اپنی تحریک آزادی کو 80 کی دہائی کی طرح منظم کرسکتے ہیں بلکہ اس سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے بھی مثبت حالات پیدا ہوں گے اور وہ بھی بھارتی جبر و استبداد سے آزاد ہونے کے لیے حتمی جدوجہد شروع کرسکتے ہیں۔

اس راہداری کے افتتاح سے ایک دن پہلے تمام بھارتی ٹی وی چینلز پر یہ خبر چلائی جا رہی تھی کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی یعنی ''را'' کو معلوم ہوا ہے کہ کرتارپور سے چند میل دور نارو وال میں پاکستانی دہشت گردوں کا ایک نیا کیمپ قائم کردیا گیا ہے جہاں سے تربیت یافتہ دہشت گرد افتتاحی تقریب میں شریک سکھوں پر دہشت گردانہ حملہ کرسکتے ہیں۔ یہ انتہائی ہولناک پاکستان دشمنی پر مبنی خبر تھی۔ اس خبر کے بعد یہ خطرہ منڈلانے لگا تھا کہ کہیں بھارت اس کی آڑ میں خود ہی اپنے دہشت گردوں سے وہاں کوئی تخریبی کارروائی نہ کرادے۔ دراصل اس بھارتی پروپیگنڈے کا مقصد بھارت سے جوق در جوق آنے والے سکھوں کی آمد کو روکنا اور افتتاحی تقریب کو سبوتاژ کرنا تھا۔

اس راہداری کے کھلنے میں گہری دلچسپی لینے اور افتتاحی تقریب میں پاکستان کی تعریف کرنے پر نوجوت سنگھ سدھو کا بھارت میں جینا دوبھر کردیا گیا ہے اس کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا جا رہا ہے اور پاکستانی ایجنٹ کا طعنہ دیا جا رہا ہے اور تو اور سنی دیول کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے، اسے افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے پر دوغلہ کہا جا رہا ہے حالانکہ اسے تو خود ''را'' نے سدھو کی جاسوسی کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ بھارت کی ان حرکات اور تنگ نظری سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اس راہداری سے سخت بے زار ہے اور کسی بھی وقت اسے اپنی نفرت کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ چنانچہ ہمیں اس راہداری کی حفاظت کے لیے انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں