بیرون ملک روانگی اور سوالات
ایک صاحب عقل انسان ایسے اصول و قوانین پر ماتم ہی کرسکتا ہے۔
مجھے اس وقت ایک طوطے کا واقعہ نہ جانے کیوں یاد آگیا ہے کہ ایک ایرانی سوداگر نے ہندوستان سے ایک طوطا خریدا جو باتیں کرتا، اللہ ہو کی صدائیں لگاتا اور سوال کا جواب دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ اس کے میٹھے میٹھے گیت تاجر کو خوش رکھتے، بلکہ ہر کوئی اس کی ادائیں اور انداز بیاں سے متاثر ہوتا، ایک بار یوں ہوا کہ تاجر کو ہندوستان کا سفر کرنا پڑا، جانے سے پہلے اس نے طوطے سے پوچھا کہ تمہارے لیے کون سا تحفہ لاؤں؟
طوطے نے جواب دیا کہ بس تم اتنا کرو، کہ میرے ہم جنسوں کو میرا پیغام پہنچا دو کہ تمہاری قوم کا طوطا میری قید میں ہے اور تم سے ملاقات کو ترس گیا ہے۔ طوطے نے جاتے وقت پتا بھی سمجھا دیا کہ دریا کے پار ایک پرفضا جزیرہ ہے، بس وہاں پر ہی ہمارا بسیرا ہے، بلکہ میرا وطن وہی مقام ہے۔ سوداگر سفر کرتا ہوا طوطے کے بتائے ہوئے ٹھکانے پر پہنچ گیا اس نے ڈالیوں پر بیٹھے، اڑتے، رقص کرتے اور گیت گاتے طوطوں کو یہ پیغام پہنچا دیا۔ پیغام سنتے ہی ان میں سے ایک طوطا شدید صدمے کے باعث مر گیا، طوطے کی ناگہانی موت پر سوداگر کو بہت صدمہ ہوا کہ ناحق اس نے اپنے چہیتے طوطے کا پیغام دیا کہ وہ قید میں ہے۔ آزادی کس طرح ممکن ہوسکتی ہے۔ جب سوداگر کی اپنے وطن واپسی ہوئی تو ماجرا کہہ سنایا۔
سچ بے نقاب ہوتے ہی طوطا تڑپنے لگا اور ذرا سی دیر میں اس کی گردن ڈھلک گئی اور وہ بے جان ہوکر پنجرے میں گر گیا۔ طوطے کا مالک اس صورتحال سے شدید صدمے سے دوچار ہوا اور چند ثانیے تک سر تھام کر بیٹھ گیا، پھر مجبوراً اس نے دکھی دل کے ساتھ اسے پنجرے سے نکال کر باہر پھینکنے کا قصد کیا، ابھی وہ تیاری کر ہی رہا تھا کہ دروازہ کھولے اور اپنے محبوب پرندے کو ٹھکانے لگا دے لیکن یہ کیا، طوطے کو باہر نکالتے ہی وہ پھڑ پھڑایا اور تیزی سے اڑ کر درخت پر بیٹھ گیا۔ تاجر نے حیران ہوکر کہا، یہ کیا؟ وہ خوش ہوتا ہوا بولا میرے ساتھی نے زمین پر گر کر یہی پیغام دیا تھا، اسی صورت میں رہائی ممکن تھی، مردے سے کون پیار کرتا ہے، سب اسے گھر سے باہر کر دیتے ہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب نے کہا ہے کہ عدلیہ کو بدنام نہ کیا جائے چونکہ اجازت عدلیہ نے نہیں دی ہے بلکہ حکومت نے دی ہے اکثریت اسے ڈیل قرار دے رہی ہے اس بیماری میں پلیٹ لیٹس کا کم ہوجانا، حکومت کا انکار کرنا اور اجازت نہ دینا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے نتیجے میں عمل میں آیا چونکہ لاہور ہائیکورٹ نے اجازت دی اور آزادی کا پروانہ دے دیا گیا۔ ظاہر تو یہ کیا گیا ہے کہ چند ہفتوں بعد ان کی واپسی ہوجائے گی اس طرح کے معاملات نواز شریف کے دور اقتدار میں ان کے ساتھ کئی بار پیش آئے اور وہ ڈیل کرکے باہر نکل گئے۔
اس ملک کو عمران خان کی شکل میں احتساب کے عمل کو دراز کرنے والے محب وطن وزیر اعظم سے نوازا گیا ہے ، جس کی نیت نیک تھی لیکن قدم قدم پر دھوکہ دہی، بددیانتی، کرپشن، چور بازاری کا بازار سجا ملا، بقول عمران خان کے کہ پورا ملک ایڈہاک پر چل رہا ہے۔ کوئی لانگ ٹرم پالیسی نظر نہیں آتی۔ ان حالات میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا فرض ادا کرنے کے لیے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرنے کے لیے انکوائری کمیشن بنالیا ہے اور اب نئے کیسز کھلنے والے ہیں اس بات کی بھی تحقیق کی جا رہی ہے کہ 24 ہزار ارب روپے قرضہ کیسے چڑھا؟
ایک طرف سیاسی بدحالی اور پیچیدگیاں ہیں تو دوسری طرف مہنگائی کے طوفان نے عوام کی زندگیوں کو موسم خزاں میں بدل دیا ہے، متوسط اور غربا ضروریات زندگی سے پہلے کی طرح آج بھی محروم ہیں بلکہ بات کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔ اشیا ضروریہ جن میں ادویات بھی شامل ہیں ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور بھلا بے بس و کمزور انسان میں اتنی طاقت کہاں کہ ہر روز کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرسکے اور آسمان پر بسیرا کرنے والے نرخ کو زمین پر لے آئے۔ ٹماٹروں کو ہاتھ لگانا دسترس سے باہر ہے اور یہی دیگر سبزیوں کا حال ہے، آٹا، دالیں، چاول سب کو عروج ملا ہے سوائے حضرت انسان کے جو ہر آنے والی حکومت کے دیے ہوئے ظلم کا مقابلہ صبر سے کرتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان ایک کھرے اور سچے انسان ہیں لیکن حکومت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اس مصروفیت میں شاید وہ یہ بات بھول گئے ہیں یا بڑی ہی مجبوری ہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ آبادی کے ایک حصے کے علاوہ تین حصے غربت سے پیدا ہونے والے مسائل میں الجھ چکے ہیں،اس ملک میں ایسے افراد بھی جن کا شکم بھوکا ایک چھت تھی سروں پر وہ بھی تجاوزات کے نام پر چھن گئی اس طرح غریب عوام موسموں کی سنگینی کا مقابلہ کرنے کھلی چھت کے نیچے آگئی ہے جوان بیٹیاں، بوڑھی بیمار ماں اور ضعیف باپ ایسے بے شمار کنبے ہیں جن میں بہت سے لوگ موذی امراض میں مبتلا ہوکر ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔
سابقہ حکومتوں نے تو جینے کا حق چھین لیا تھا اور غربا کی محنت و مشقت کی رقم سے اور ٹیکسوں کی مد میں آنے والی دولت سے محل تعمیر کرلیے تھے گاڑیوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ کروفر سے نکلتے تھے۔جیلوں میں قید بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جن کا جرم معمولی اور سزا بڑی ہے آج کی خبر کے مطابق 65 سال سے زیادہ عمر کے قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا جو معمولی سے جرم میں سزا کاٹ رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب اور ملائیشیا کے قیدیوں کو بھی رہا کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ معیشت کو مضبوط بنایا ہے، خبریں تو گرانی کے خاتمے کے لیے بار بار سننے کو ملتی ہیں لیکن حقیقت مختلف ہے، اور امید زندہ ہے کہ اچھا ہی ہوگا۔ ویسے تو صوبائی حکومتوں کے وزیر اعلیٰ، گورنروں اور ڈپٹی کمشنروں کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنے صوبے کے پسماندہ علاقوں میں جاکر ہر طرح سے مدد کریں۔ لیکن یہ حضرات بھی اپنے محلوں میں مقید ہیں اور ٹھاٹ کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
سندھ حکومت نے انسانوں کی زندگی کو دکھوں سے آزاد کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا البتہ کتوں کی ویکسین لگا کر ان کی زندگی کو دراز کیا جا رہا ہے، اسلامی حوالے سے دیکھا جائے تو جو جانور، کیڑے مکوڑے انسانوں کو نقصان پہنچائیں، زندگی کا خاتمہ کردیں انھیں جان سے مارنے کا حکم ہے۔ لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے کہ جانوروں کی بجائے انسانوں کو محض طاقت کے بل پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور تھوڑے دن بعد ہی آزاد کردیا جاتا ہے، کراچی اور پنجاب میں سگ گزیدگی کے بے شمار واقعات سامنے آئے جن میں درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ ان حالات میں پاگل باؤلے کتوں کو زندہ رکھنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے؟ ایک صاحب عقل انسان ایسے اصول و قوانین پر ماتم ہی کرسکتا ہے۔ اس کے سوا کچھ کرنا بڑا مشکل کام ہے۔