یہ بھی ایک یو ٹرن تھا
ہم کورٹ کے فیصلوں کو اگر غلط بھی سمجھیں اور نہیں مانیں گے تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔
لاہور:
ہمارے چیف جسٹس کا رد عمل کسی عدالتی کارروائی کے دوران نہیں تھا، یہ تو ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کچھ اس طرف بھی مائل بہ کرم ہوئے، ایک ایسے چیف جسٹس جو بہت ہی خاموش طبع ہیں، پہلے چیف جسٹس کے بالکل اْلٹ۔ انھوں نے Judicial Activism میں ایک نئی مثال قائم اورآپjudicial restrain میں ایک اور مثال قائم کر گئے۔ ورنہ کیا کیا نہ عذاب گزرے تھے مگر آپ نے سوموٹو کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اس لیے کہ ہماری مقننہ پر فالج نہ گرے۔
ٹھیک ہے بہت مسائل ہیں لوگوں کو بہت تکالیف ہیں۔ ساہیوال کا اتنا بڑا سانحہ ہوا ، ڈاکٹر نمرتا کا لاڑکانہ میں قتل ہو یا قصور میں بچوں کے قتل ہوں مگر وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ان کا حل ordinary law کے تحت ہونا چاہیے اورrule of law کی بنیاد بھی یہی عام قانون ہے جو کہ اتنا متحرک اور تیزہو کہ آپ کو اسپیشل قانون بنانے کی ضرورت ہی نہ پڑے اور قانون وہ ہے جو آئین میں موجود بنیادی حقوق سے تصادم میں نہ ہو۔ قوانین کو اعلیٰ عدالتیں آئین سےharmonise یعنی ہم آہنگ کرتی ہیں کہ آپس میں ٹکرائو میں نہ آئیں اور یہاں تک بھی کہ ایسے قوانین اگر ہم آہنگ ہونے جیسے نہیں ہیں، ان کو واپس پارلیمنٹ کے پاس بھیجتی ہیں کہ ان میں درستی ہو۔
ہندوستان کی سپریم کورٹ تواس حوالے یہاں تک چلی جاتی ہے کہ وہ قوانین، جو آئین سے ٹکرائو میں ہیں کالعدم کر دیتی ہے کہ ان کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تھیوری ان کو ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ جب کہ ہمارے بنیادی ڈھانچے کی تھیوری جو ہماری سپریم کورٹ نے وضع تو کی ہے مگر ایک قانون بھی ابھی تک غالبا کالعدم قرار نہیں دیا۔ واپس بھیجا اس لیے کہ پارلیمان کا بھرم رہ جائے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس ملک میں سب سے کمزور اب بھی پارلیمنٹ ہی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن جو آئین کی روح میں تین بڑے ادارے ہیں ان میں سب سے بڑا ادارہ پارلیمنٹ ہی ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس نے آئین دیا۔ اور اب یہ تینوں ادارے یعنی پارلیمان ، مقننہ اور عدلیہ آئین کے تابع ہیں۔
چیف جسٹس کا بولنا ! مگر ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ان کو بولنے پر کس نے مجبور کیا ؟ یہ اسی دن کی ہمارے وزیر اعظم کی تقریر تھی جس میں انھوں نے عدلیہ کو متنازع بنانے کی کوشش کی کیونکہ ان کا ایک ہی کام تھا جو اکثر تقاریر میں کرتے تھے کہ میں ''این آر او'' نہیں دوں گا ' اور اب جائیں تو جائیں کہاں۔ اتنا بڑا پہاڑ، اتنا بڑا یوٹرن اور یہ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں، تو پھر کس کا ہاتھ ہے۔ کڑو ا کڑوا تھو تھو، میٹھا میٹھا ہپ ہپ۔ چیف جسٹس کے خیالات سننے کے بعد اب کچھ باقی ان کے پاس رہا بھی نہیں۔ ہمارے جج صاحبان کا رتبہ بڑا ہے اور اگرکوئی گستاخی کر بھی لے یا ان کو وہ عزت بھی نہ دے تو ان کو کوئی پرواہ بھی نہیں مگر یہ تو آپ کا ظرف ہے کہ آپ ان کو کس طرح مخاطب کر کے پکارتے ہیں۔
یہ تو آمر ہوتے ہیں جن کو آزاد عدالتیں اچھی نہیں لگتیں، مگر خان صاحب نمایندہ وزیر اعظم ہیں۔ ان کا لب و لہجہ تو دھمکانے جیسا یا یہ کہ بصیرت نا آشنا نہ ہونا چاہیے۔ یہ جج صاحبان جن کی کوئی بھی سوشل لائف نہیں ہوتی۔ وہ نہ عام محفلوں میں آ جا سکتے ہیں ، نہ بیان دیتے ہیں ، نہ پسند ، نہ ناپسندیدگی کا کسی سیاسی حوالے سے اظہارکرتے ہیں کہ ان کی غیرجانبدار ی پر سوال نہ اٹھیں ۔ یقینا یہ کام کرتے کرتے وہ کیوں نہ اپنی رائے رکھتے ہوں گے بیلٹ باکس پہ جا کے اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ دیے ہونگے۔ مگر یہ ووٹ مانگتے نہیں ہونگے اور پھر اگر کہیں کوئی ایسا manifestly کرتا بھی ہو۔ جس طرح سقراط کے ساتھ ہوا تھا۔
یونان کی عدلیہ نے اس پر متعصبانہ فیصلہ صادر کیا تھا اور جس رات اس کو زہر کا پیالہ پی کر عدالت کے فیصلے کی تعمیل کرنی تھی۔ بالکل اس رات اس کا شاگرد کرائیٹو جیل کی دیوار پھلانگ کر اس کے پاس پہنچا اور کہا کہ ''سقراط میں نے آپ کے یہاں سے فرار ہونے کے لیے تمام انتظام مکمل کر لیے ہیں اور اب چل نکلو'' سقراط نے اپنے پیارے شاگرد کی بات ماننے سے انکارکر لیا۔ اور یہ کہا کہ ''کرائیٹو میں یونان کے قانون کے طابع ہوں اگر میں یہاں سے تمہارے کہنے کے مطابق بھاگ نکلوں گا تو یونان کے قانون کی رسوائی ہو گی جو مجھ سے بڑھ کر ہے اور میں اس کے سامنے چھوٹا ہوں اگر میں نے ان کو نہیں مانا تو ریاست یونان کے ستون گرنے لگیں گے۔''
ہم کورٹ کے فیصلوں کو اگر غلط بھی سمجھیں اور نہیں مانیں گے تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔ یہ میں نہیں میری استاد عاصمہ جہانگیر کہتی تھیں۔ کیونکہ عدالتو ں کے فیصلے خود ایک تحرک ہے ۔ یہ جو آج کی عدالتیں ہیں ان کا ظہور اچانک نہیں ہوا ، یہ ہزاروں نا انصافیوں کا نتیجہ اور ہزاروں سالوں کا تجربہ ہے اور آہستہ آہستہ عدالتیں قانون سے بڑھ کر انصاف کے زمرے کے گرد گھومتی رہی ہیں اور یہی ہمارے آئین کی روح ہے کہ قانون نہیں انصاف کا سکہ رائج ہوگا اورجو قانون انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا اسے رخصت ہونا ہو گا۔
خان صاحب کی حکومت کو اگر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اعتراض تھا تو سپریم کورٹ اپیل میں کیوں نہ گئے اور کون کہتا ہے کہ یہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے یہ تو دونوں پارٹیوں کے اعتراضات کو ختم کر کے فیصلہ سنایا گیا۔ اس فیصلے میں تو حکومت بھی راضی تھی ۔ بھلا ہو ہمارے چیف جسٹس کا کہ انھوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کو 2009 سے دیکھنا ہو گا ۔ وہ دراصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ عدالتوں نے بھی بڑی بڑی ناانصافیاں کی ہیں لیکن اب 2009کے بعد وہ ایک نئے موڑ پے کھڑی ہیں۔
یقینا یہ نیا موڑ ہے لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں اور اس میں عدالتوں کا کیا نقصان ہے ، نقصان تو عوام کا ہے۔ عدالتیں طاقت عوام سے لیتی ہیں جب وہ بیدار ہوتی ہیں تو فیصلے بھی جرات مندانہ آتے ہیں اور جب عوام خود نیند فرما رہے ہوں تو پھر عدالتیں اگر کچھ کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتیں۔ اپنے زمانوں میں پھر محتاط ہو کے بھی چلنا پڑتا ہے اس لیے کئی پھر سے کہیں اندھا قانون نہ لاگو ہو جائے ۔ لیکن وہ جج صاحبان جو اس وقت بھی دلیری کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں وہ تاریخ میں جسٹس دراب پٹیل ہو جاتے ہیں۔
قصہ عدالتوں کا نہیں بلکہ مجموعی ریاست اور سماج کا ہے۔ آج کل جو ہندوستان کے سپریم کورٹ فیصلے صادرکر رہی ہے ایسے تو انھوں نے نہرو کے زمانے میں بھی نہیں کیے جیسے مودی کے زمانے کیے ہیں۔ کشمیر پر ان کے لب سلے ہوئے ہیں اور بابری مسجد پر ان کا فیصلہ آپ کے سامنے ہے۔ دوسری طرف یورپی یونین ہے ، انسانی حقوق کے حوالے سے اسٹارس برگ کورٹ(ECtHR) ہے ۔ وہ لوح و قلم کی جنبش سے فیصلے رقم کر رہی ہے۔ جس سے ہم بھی مستفید ہو رہے ہیں۔
جنگ دراصل سماجی انصاف کی ہے اورکورٹ کا انصاف اس کا اک ادنا سا حصہ ہے۔ سماجی انصاف جدوجہد سے ملتا ہے ، بیداری سے ملتا ہے ۔ ہم نے اپنی قوم کو مذہبی کارڈ کے ڈوز پے چلایا۔ نفرتوں کے بازار لگائے، جنگ کے طبل ہمیشہ بجا رکھے اور اب زمین پائوں سے کھسک رہی ہے۔ ہماری معشیت بیٹھ گئی ہے۔ مگر ایسے بحران بھی کبھی کبھی غنیمت ہوتے ہیں۔ ہم نے بلآخر اپنی معشیت کو بہتری کی طرف جو بنیادی پہلو ہیں جس پر کوئی بھی جرات کر کے اصلاحات نہیں لا رہا تھا وہ ہم نے لیا بلکہ خود خان صاحب کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے مگر غریبوں کو کیا ملا ۔ عام لوگوں کے مسائل کا کیا ہوا یہ ہماری معیشت کا دوسرا اہم پہلو ہے جس پر حکومت بہت برْی طرح ناکام ہوئی ہے۔
ہماری سپریم کورٹ نے جو ایک فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا سنایا تھا اس طرح کئی فیصلے ہیں جو امریکی عدالت نے بھی سنائے تھے جب سیاہ لوگوں کی غلامی کو عین آئین کے مطابق پایا تھا۔ اور ایسے کئی فیصلے خود برطانیہ کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی سنائے تھے۔ مگر وہ اعتراف کرتی ہیں اس پیشمانی کا یہ ایک اعتراف ذرا ہماری کورٹ سے بھی ہو جائے کہ آیندہ کی راہیں اور آزاد عدلیہ کی جستجو اور بھی معنیٰ خیز ہو جاتی ہے۔