’’ فیصل آباد میں ادب میلہ ‘‘
گزشتہ 72 برس سے ہم چلتے کم اور ٹکراتے زیادہ ہیں۔
اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں جب سے FLF یعنی فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کا آغاز ہوا ہے۔ کسی نہ کسی وجہ سے میں اس میں شامل نہ ہو سکا لیکن اس کی مقبولیت اور کامیابی کی خبریں ہر طرف سے ملتی ہیں اور یہ بھی پتہ چلتا رہا کہ اس کے منتظمین کی ٹیم ہر برس مندوبین کے انتخاب ، موضوعات کے چنائو اور انتظامات کی تفصیل کے حوالے سے اس کے معیار کو بلند سے بلند تر کرتی جا رہی ہے اور یوں لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے ساتھ اب فیصل آباد کا میلہ بھی ادبی میلے کے حوالے سے ایک باقاعدہ روایت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
معلوم ہوا کہ یوں تواس کی ٹیم میں ادب اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے و الے ہر طرح کے پیر روان شامل ہیں مگر اس خواب اور اس کی تعبیر میں تین ایسی خواتین پیش پیش ہیں جن کی دوستی کا آغاز ان کی طالب علمی کے دنوں میں ہوا تھا اور اب جب کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں نام پیدا کر چکی ہیں یہ تعلق اب بھی برقرار اور ترقی پذیر ہے اور یہ ادب میلہ بھی اُس کی ہی ایک خوبصورت شکل اور نتیجہ ہے۔ ان میں سے دو یعنی سارہ حیات اور توشیبہ خاتون سے تو پہلی ملاقات گزشتہ روز اسی میلے کے اختتامی اجلاس میں ہوئی لیکن اس مثلث کا تیسرا زاویہ یعنی عزیزہ شیبہ اصغر ندیم کو میں اُن کی شادی کے دن سے جانتا ہوں کہ وہ ہمارے عزیز دوست اور پی ٹی وی ڈرامے کے ایک بہت اہم ستون ڈاکٹر اصغر ندیم سیّد کی بیگم ہیں۔
اصغر ندیم بھی ہم سب کی طرح ایک فرما بردار شوہر ہے، سو اُس نے کئی ماہ پہلے سے مجھے پابند کر دیا تھا کہ ا س بار یعنی 2019 کے ادب میلے میں مجھے ضرور بالضرور شامل ہونا ہے اور تقریباً ایک گھنٹے تک لگا تار اپنی شاعری بھی سنانی ہے۔ یہ تو تھا وہ پس منظر جس کی رعائت سے میں اس میلے کی تقریبات کا حصہ بنا لیکن اصل بات ا س سے آگے کی ہے کہ کس طرح دو دنوں میں بغیر کسی وقفے کے جاری رہنے والے پروگرا م میں ادب، تنقید ، سیاست ، حالاتِ حاضرہ اور موسیقی کو ایک لڑی میں پِرو کر ایک ایسی انجمن سجائی گئی جس میں شامل ہر فرد ذہنی طور پر ایک کشادگی اور گہرائی کے احساس سے ہم کنار ہو کر اپنے گھر کو لوٹا اور فی زمانہ یہ ایک ا یسی نعمت ہے جو اگر نایاب نہیں تو بے حد کمیاب ضرور ہے تمام تر پروگرام فیصل آباد آرٹ کونسل کے خوبصورت اور معقول وسعت والے نصرت فتح علی خان آڈیٹوریم میں ہوئے جس کی ڈائریکٹر آج کل عزیزہ صوفیہ بیدار ہے اور جس نے چند ماہ کے قلیل عرصے میں بھی اسے پنجاب آرٹ کونسل کے زیر اہتمام کام کرنیو الی تمام آرٹ کونسلز میں معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے پہلے نمبر پر لا کھڑا کیا ہے ۔
جلسہ گاہ سے ملحقہ جس کمرے میں ہم سب مہمانوں کو لے جایا گیا وہاں ہمارے پیکیجز اور لمز کے بانی اور ادب اور تہذیب کے سر پرست سیّد بابر علی ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے، اپنی پیرانہ سالی اور ہمہ گیرکاروباری مصروفیات کے باوجود اُن کا اس محفل میں شامل ہونے کے لیے لاہور سے سفر کر کے آنا ایک ایسی روشن اور قابلِ تقلید مثال ہے جو اس لیے بھی تعریف کی مستحق ہے کہ سارے یہاں اہلِ زور و زر کو ایسے کاموں کی توفیق کم کم ہی نصیب ہوتی ہے ۔ بابر علی صاحب نے انڈیا کی ریختہ فائونڈیشن اوراس کے منتظمِ اعلیٰ سبخیو صراف کی اُردو کے بارے میں خدمات کا بہت محبت سے ذکر کیا ۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ چند برس قبل سبخیو صراف سے میری پہلی ملاقات بھی انھی کے دفتر میں ہوئی تھی جس کا اہتمام برادرم اسلم مہدی نے کیا تھا ۔
پہلے ان کے پروگرام میں افتتاحی اجلاس اور کلیدی خطبوں کے علاوہ کلامِ شاعر میزبانِ شاعر کے حوالے سے میرا سیشن اور اس کے بعد طفیل نیازی مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک محفلِ موسیقی تھی جس میں طفیل مرحوم کے بچوں جاوید اور بابر نیازی نے پرفارم کرنا تھا ۔ اس افتتاحی اجلاس کی صدارت سینئر صحافی اور افسانہ نگار مسعود اشعر کے سپرد تھی جب کہ سید بابر علی بطور مہمانِ خصوصی اور محترمہ نوید شہزاد اور برادرم محمود شام اپنے کلیدی خطبوں سمیت اُن کے دائیں بائیں اسٹیج پر تشریف فرما ہوئے۔
اصغر ندیم سیّد نے خوش آمدیدی کلمات کے دوران اس میلے، اس کی تاریخ ، نوعیت اور کارکردگی کے ساتھ ساتھ آج کے پروگرام میں شامل مہمانوں کا تعارف بھی کرایا جو اگرچہ تعارف کے محتاج نہ تھے لیکن ہال میں موجود نوجوان نسل کی اکثریت کے لیے یہ تعارف ایک اعتبار سے ضروری بھی تھا کہ ہماری نئی نسل بوجوہ کتاب اور اپنے عہد کے لکھنے والوں سے کوئی بہت زیادہ آشنا نہیں رہی لیکن حوصلہ افزا اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کے باوجود نوجوان لوگ اتنی بڑی تعداد میں اور بے انتہا ذوق و شوق کے ساتھ اس محفل میں شریک بھی ہوئے ۔
پہلا خطبہ محمود شام کا تھا جس کا لُبِ لباب یہی تھا کہ ادب اور ادیب کا کام ہر طرح کے حالات میں حق اور سچ کا ساتھ دینا ، اپنی آواز بلند کرنا اور ان ادبی اور تہذیبی معیارات کی حفاظت کرنا ہے جو اُس کی قوم اور زبان کے ساتھ ساتھ پوری انسانی تہذیب کا اجتماعی ورثہ ہیں، اُن کے لہجے میں کہیں کہیں تلخی کا غلبہ تھا جو اس صورتِ حال سے نا خوشی کا اظہار تھا جو وطنِ عزیز میں گزشتہ 72 برس سے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ ادب اور فن کے حوالے سے بھی رائج اور موجود ہے ۔
میڈیا ، سوشل میڈیا ، طبقاتی کشمکش اور حاکم طبقوں کی خود غرضی کی وجہ سے ہماری نئی نسل ادب سے دُور اور اپنے مستقبل سے مایوس ہونے کے جس عمل میں مبتلا ہے اُس سے نکلنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے ا ور ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ اُن کی ساری گفتگو اسی مسئلے کے ارد گرد گھومتی رہی اور بلاشبہ اُن کے اُٹھائے ہوئے سوالات کی اہمیت اور تجزیئے کی نوعیت اور شدّت نے تمام حاضرین کو بے حد متاثر کیا۔
نوید شہزاد ہماری دوست اور انگریزی زبان کی اُستاد اور ٹی وی کی ایک شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق ، انسانیت ، تاریخِ عالم اور حالات حاضرہ پر بھی گہری دسترس رکھتی ہیں اُن کا خطبہ انگریزی زبان میں تھا مگر خیالات کی صفائی ، ٹھہرائو اور بیان کے ماہرانہ رچائو اور استعمال کی وجہ سے اُنکی ہر بات دل و دماغ میں اُترتی اور ان کو جھنجھوڑتی جا رہی تھی انھوں نے انسانی تہذیب میں عورت کے کردار کو بعض ایسے نئے اور اچھوتے حوالوں سے اُجاگر کیا جو انھی کا حصہ تھے اور آخر میں انھوں نے بڑھتی ہوئی عمر کو ''بڑھاپا '' نہ کہنے اور اس کے ساتھ بڑھنے والی دانش ، تجربے اور نظریاتی ارتقا کو اس خوبصورتی سے یکجا کیا کہ مرحوم دلدار پرویز بھٹی کا (جو نوید شہزاد کے شاگرد بھی رہ چکے ہیں) کا ایک جملہ بار بار یاد آیا وہ کہتے تھے کہ ستر برس کی عمر اصل میں بڑھاپے کی جوانی کی عمر ہوتی ہے اس لیے اس سے گھبرانے یا شرمانے کے بجائے اس کا خوش دلی سے خیر مقدم کرنا چاہیے۔
آخر میں سیّد بابر علی اور صدرِ جلسہ مسعود اشعر نے بھی مختصر مگر بہت خیال افروز باتیں کیں جن کو حاضرین نے بہت توجہ سے سنا ذاتی طور پر مجھے مسعو د اشعر کی اس بات نے بہت متاثر کیا کہ ہمارا معاشرہ اور ادب بلاشبہ آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم لوگ اپنا زیادہ وقت پیچھے کی طرف دیکھنے میں گزار دیتے ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ 72 برس سے ہم چلتے کم اور ٹکراتے زیادہ ہیں۔