پاک فوج ایک پروفیشنل ادارہ ہے

پاک فوج عدالتی فیصلے کے فوائد و مضمرات سے ہٹ کر بطور ادارہ ملک کا دفاع کر رہی ہے اور کرتی رہے گی


شاہد کاظمی November 26, 2019
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے فرمان کو معطل کرتے ہوئے ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے۔ اور بحث، مباحثہ، مکالمہ مثبت معاشرے کی پہچان ہوتے ہیں۔ یہ کسی بھی طور ایسا نہیں کہ اسے پاکستان کے معروضی حالات کے حوالے سے منفی لیا جائے یا منفیت کا تاثر بھی دیا جائے۔

یہ خبر پڑھئے: سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا

حقیقی لبرل اور حقیقی قدامت پسند، دونوں اسے مثبت انداز سے لیں گے۔ آدھے راستے سے بنے لبرل اور صرف نام کے قدامت پسند اس کو بہرحال ضرور شٹل کاک بنائیں گے اور ان کا اسے اچھالنا بنتا بھی ہے کہ ان کا اس کے علاوہ کام کیا ہے۔

ایک لمحہ جائزہ لیجیے۔ آئین کی تشریح کرنا کس کا کام ہے؟ قانون بنانا اور عمل درآمد یقینی بنانا کس کا کام ہے؟ ملکی دفاع اور دفاع کی ضروریات، بیرونی محاذ و سرحدوں کا دفاع کس کا کام ہے؟ اندرونی محاذ پر لڑنا کس کا کام ہے؟ یہ تمام کام آئین پاکستان میں بتا دیے گئے ہیں۔ اب دیسی لبرلز ہوں یا پھر لنڈے کے قدامت پسند، سب اپنی سوچ کے قلابے جہاں جہاں بھی ملاتے رہیں۔ جیسا بھی ہے ادارے اپنا کام کرتے رہیں گے۔

فرمان معطل کردیا گیا۔ اس میں بحث کیا ہے؟ جمہوریت کے خلاف ہے؟ جمہوری روایات کے خلاف ہے؟ یا پھر مثبت قدم نہیں ہے؟ اور جو لوگ اس کو فوج کے خلاف سمجھ رہے ہیں، ان کےلیے بس اتنی سی عرض ہے کہ فوج آپ کی سوچ کے مطابق کام نہیں کرتی۔ جنرل باجوہ ڈاکٹرائن آپ کی مرضی و منشاء نہیں بلکہ ملکی ضروریات کے تحت آرمی چیف نے ترتیب دیا ہے۔ یہ فکر چھوڑ دیں۔ فوج ایک ایسا پروفیشنل ادارہ ہے کہ جنرل باجوہ توسیع سے پہلے والا کام توسیع کے بعد بھی جاری رکھیں گے۔

کیوں پاک فوج کا معیار تربیت، جنگ لڑنے کی صلاحیت، اور بہادری پوری دنیا میں مشہور ہے؟ اس لیے کہ فوج کا خاصا ہے کہ وہ جب ایک افسر تیار کرتی ہے تو اس کے دل و دماغ میں فیصلے کی قوت بھی ڈال دیتی ہے۔ اور سپہ سالار کی فیصلہ سازی کی قوت پر نہ تو شک ہونا چاہیے نہ گماں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ فیصلے کے تناظر میں ایک لمحہ جائزہ لیجیے فوج کو کیا فرق پڑتا ہے؟ آئین کی تشریح کرتے ہوئے اعلیٰ عدالت نے ایک فیصلہ کیا، اب اس فیصلے پر مباحثہ ہوگا۔ عدالتی امور کے ماہر افراد اس کے حق و مخالفت میں دلائل دیں گے۔ کیا دلائل دینا منفیت ہے؟ کیا دلائل سے آئین کی تشریح کرنا منفی رجحان ہے؟ آپ کیوں اس رجحان کو خواہ مخواہ اداروں کے وقار کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔

یقین رکھیے۔ پاک فوج عدالتی فیصلے کے فوائد و مضمرات سے ہٹ کر بطور ادارہ ملک کا دفاع کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔ یہ تو حکومت کا کام ہے عدالت کو مطمئن کرنا، اور اسے یہ کرنے دیجیے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ٹماٹر مہنگے ہوگئے ہیں اور دانشور سستے (معذرت کے ساتھ یہاں وہ دانشور صاحب ذکر نہیں جن کی کتابیں تک بطور نصاب پڑھائی جاتی ہیں)۔ بھلا ہو یا برا ہو سوشل میڈیا کا، ایک کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، یا اینڈروائیڈ موبائل رکھنے والا بھی دانشور کا درجہ پاچکا ہے اور ملکی فیصلوں پہ رائے دینا اولین فرض سمجھتا ہے۔ رائے دیں تو حرج بھی نہیں۔ لیکن رائے دینے سے کچھ آگے بڑھتے ہوئے لعن طعن ایسے کرتے ہیں جیسے فیصلہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا جانا لازم تھا۔

عرض اتنی سی ہے۔ مہذب معاشرے میں مباحثہ ایک مثبت سیڑھی ہے، معاشرے کے عروج کی جانب۔ آپ اس کو اداروں کے درمیان تعلقات سے نہ جوڑیئے۔ اسے اپنے قلوب و اذہان کو وسعت دینے کےلیے استعمال کیجیے۔

آئینی تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے، وہ کرے گی۔ اس تشریح میں معاون کا کردار ادا کرتے ہوئے دلائل سے اپنا موقف درست ثابت کرنا حکومت کا کام ہے، وہ بھی کرے گی۔ اس بحث سے یکسر بالاتر ہو کر فوج اس دھرتی کے دفاع کی ضامن ہے، وہ اللہ کریم کی مدد سے یہ دفاع کا فریضہ سرانجام دیتی رہے گی، اُسے کرنے دیجیے۔

اپنی لعن طعن، طنز، برا بھلا کہنے کا دائرہ اپنے تک رکھیے۔ اپنی زبان اداروں کی زبان بنانے کی لاحاصل کوشش نہ کیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں