یقین کامل

جب بھگت سنگھ کا مقدمہ اپنے آخری مرحلے میں پہنچا تو اس کے والد نے ہوکر وائسرائے اور ٹریبونل کے نام خط لکھا.


Aftab Ahmed Khanzada October 26, 2013

جب بھگت سنگھ کا مقدمہ اپنے آخری مرحلے میں پہنچا تو اس کے والد کشن سنگھ نے پدرانہ محبت سے مغلوب ہوکر وائسرائے اور ٹریبونل کے نام خط لکھا اور اپنے بیٹے کو پھانسی سے بچانے کی استدعا کی۔ بھگت سنگھ کو والد کے اس اقدام کی اطلاع ہوئی تو وہ بے حد خفا ہوا اور اس نے اپنے والد کے اس عمل کو ان کی کمزوری اور بزدلی قرار دیا۔ اس نے والد کے نام خط لکھا، خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھگت سنگھ مثالی جرأت اور فخر سے پھندے کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھا۔ ''پیارے ابا جان۔ میں یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا کہ آپ نے میری جان بچانے کے لیے خصوصی ٹربیونل کے ارکان کو درخواست جمع کرائی ہے۔ میرے لیے اس اطلاع کو ٹھنڈے دل سے سننا ممکن نہیں تھا۔ اس نے میرا تمام ذہنی توازن درہم برہم کردیا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ نے اس مرحلے اور ان حالات میں ایسی درخواست دینا کیسے مناسب سمجھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ تمام تر پدرانہ جذبات و محسوسات کے باوجود آپ کو مجھ سے مشورہ کیے بغیر میری جانب سے ایسا قدم اٹھانے کا کوئی حق تھا۔

آپ جانتے ہیں کہ سیاسی میدان میں میرے خیالات ہمیشہ آپ لوگوں سے مختلف رہے ہیں۔ میں نے آپ کی پسند و ناپسند کی پروا کیے بغیر ہمیشہ آزادانہ طور پر کام کیا ہے۔ امید ہے آپ کو یاد ہوگا کہ ابتدا ہی سے آپ مجھے اپنا مقدمہ سنجیدگی سے لڑنے اور اپنا بھرپور دفاع کرنے پر مائل کرنے کی کو شش کرتے رہے ہیں۔ تاہم آپ کو یہ بھی علم ہے کہ میں ہمیشہ اس بات کا مخالف رہا ہوں۔ مجھے اپنا دفاع کرنے کی خواہش تھی، نہ میں نے کبھی سنجیدگی سے اس پر غور کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم نے اس مقدمے میں ایک واضح پالیسی اختیار کیے رکھی ہے۔ میرا ہر عمل، اصول اور پروگرام ہمیشہ اس پالیسی کے مطابق رہا ہے۔ فی الوقت حالات بالکل مختلف ہیں تاہم اگر صورتحال اس کے برعکس ہوتی تو بھی میں اپنے بچائو کی کوشش کرنے والا آخری آدمی ہوتا۔

میں ہمیشہ اس خیال کا حامی رہا ہوں کہ سیاسی کارکنوں کو عدالتوں میں قانونی جنگ کے حوالے سے فکرمند ہونے کے بجائے اس سے لاپروائی برتنی چاہیے اور سخت ترین ممکنہ سزائوں کو جوانمردی سے برداشت کرنا چاہیے، تاہم اگر وہ اپنا دفاع کرنا چاہیں تو انھیں ذاتی کے بجائے سیاسی نقطہ نظر سامنے رکھنا چاہیے۔ اس مقدمے میں ہماری حکمت عملی ہمیشہ اسی اصول کے مطابق رہی، ہم اس حوالے سے کامیاب رہے یا نہیں، یہ فیصلہ مجھے نہیں کرنا۔ ہم ہمیشہ اپنا فرض بے غرضی سے نبھاتے آئے ہیں۔ میری زندگی کم ازکم میرے لیے اتنی قیمتی نہیں ہے جتنا کہ آپ کے خیال میں ہونی چاہیے۔ میرے اصولوں کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ میرے دوسرے ساتھیوں کا کیس بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ میرا۔ ہم نے ایک مشترکہ راہ عمل اختیار کی اور اس پر آخر تک جمے رہیں گے، خواہ اس کے لیے ہمیں انفرادی طور پر کیسی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔''

تاریخ انسانی گواہ ہے کہ لوگوں نے ہمیشہ حکمت و دانائی کے بجائے جرأت و استقامت کے گیت گائے ہیں۔ لوگوں نے ہمیشہ نیکی اور جرأت کو اپنا موضوع سخن بنایا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی مخلوقات ہیں، ان میں انسان ہی سب سے کم فطری صلاحیتوں کا مالک ہے، انسان پرندوں کی طرح اڑ نہیں سکتا، چیتے کی طرح تیز نہیں دوڑ سکتا، جسمانی طور پر انسان بے بس اور دفاع سے قاصر ہے، ایک ننھا ساکیڑا اسے ہلاک کرسکتا ہے لیکن فطرت نے انسان کو سوچنے کی عظیم ترین صلاحیت عطا کی ہے۔ انسان اپنا ماحول خود تخلیق کرسکتا ہے جب کہ جانوروں کو ماحول کا تابع رہنا پڑتا ہے۔ آج ہمارے اردگرد کا جو ماحول ہے اس کے تخلیق کردہ ہم خود ہیں۔ یہ چاروں طرف پھیلی گھٹن، حبس، معاشرتی و معاشی ناہمواری، رجعت پسندی، انتہاپسندی یہ سب ہماری ہی فخریہ پیشکش ہیں۔ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ ہم صرف اپنی ذات کے غلام بنے رہے۔ ہم کبھی زندگی کی حقیقت کو سمجھ ہی نا پائے۔ ہمارے نزدیک کھانا، پینا، کمانا، شادی کرنا، بچے پیدا کرنا، عیش و آرام ہی زندگی کا مقصد رہا۔

ذرا سوچیں اگر دنیا کے تمام فلسفیوں، سائنس دانوں کی زندگی کی سوچ کا محور صرف اپنی اور اپنے پیاروں کی ذات تک محدود ہوتا تو آج ہم اور دنیا کہاں کھڑی ہوتی۔ مسئلہ صرف زندگی کی عظمت کا نہیں بلکہ موت کی عظمت کا بھی ہے۔ یہ دونوں باتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں، موت کی عزت و تکریم میں کمی اس بات کی غماز ہے کہ آپ میں زندگی کی تحریم و تکریم کی کمی ہے۔ اگر آپ زندہ رہنے کا جواز کھو دیں گے تو پھر آپ کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ زندگی صرف سانس لینے کا نام نہیں ہے۔ اگر یہ بات ہوتی تو آج ارسطو، سقراط، افلاطون، بھگت سنگھ اور دیگر زندہ نہ ہوتے۔ گوتم بدھ کی تعلیمات کے مطابق ہم اپنے خیالات (کامل اور مکمل یقین) کا پرتو اور عکس ہیں، ایک شخص کے دل میں جو بھی خیال آتا ہے یعنی وہ جس چیز پر کامل یقین رکھتا ہے وہ اسی طرح ہوجاتا ہے۔

کنفیوشس نے کہا ہے ایک نیک اور عظیم شخص تین عناصر کا مجموعہ ہے، (1) نیکی اور ایمانداری، وہ ہر قسم کی پریشانیوںسے آزاد ہوتا ہے۔ (2) عقل مندی اور دانش مندی، وہ ہر قسم کے اضطراب اور الجھن سے محفوظ ہوتا ہے۔ (3) بہادری اور جرأت مندی، وہ ہر قسم کے خو ف سے بے نیاز ہوتا ہے۔ یقین کامل کی صورت میں اس کائنات کی زبردست قوت و توانائی آپ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، اس کے ذریعے آپ جو چاہیں بن سکتے ہیں، جو چاہیں کرسکتے ہیں، جو چاہیں حاصل کرسکتے ہیں۔ عقل فائدے اور نیکی کے لیے کچھ نہیں کرتی، عقل تو صرف آپ کی بصیرت کو راستہ دکھاتی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتی۔ کامیابی ایک سفر ہے منزل نہیں۔ ہم کبھی منزل پر نہیں پہنچتے، سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے۔

جب ہم ایک ہدف کو حاصل کرلیتے ہیں تو اگلے کی طرف چل پڑتے ہیں اور پھر اس سے اگلے کی طرف۔ کامیابی ایک داخلی احساس ہوتی ہے، اسے آپ کو اپنے اندر محسو س کرنا ہوتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ جو بظاہر کامیابی دکھائی دے رہی ہو ممکن ہے وہ اندر سے سراسر کھوکھلی ہو، مقصد کا عظیم ہونا ضروری ہے، مقصد اہم ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمت کا احساس عطا کرتے ہیں۔ کامیابی اتفاقیہ طور پر نہیں ملا کرتی یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہمارے رویے ہمارا اپنا انتخا ب ہوتے ہیں۔ آئیں ہم صرف اپنے لیے جینا چھوڑ کر سب کے لیے جینا شروع کردیں۔ اپنے رویوں کو یکسر تبدیل کردیں۔ ہماری زندگی کے سامنے ایک عظیم مقصد ہونا چاہیے۔ پھر دیکھیں ہمیں اپنی کامیابی کھوکھلی نہیں محسوس ہوگی اور ہم کس طرح اپنے اضطراب، الجھن، خوف، پریشانیوں سے نجات حاصل کرلیں گے۔ بس ہمیں اپنے اوپر یقین کامل ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں