ناپاک جسارتوں کا لا متناہی سلسلہ

پورے عالم اسلام کوان نوجوانوں پرفخرہے جنھوں نے اس ریلی کے شرکاء پرحملہ کیااور انھیں اس گستاخی پرسبق سکھانے کی جرات کی۔



کیا اب بھی شبہ ہے کہ مغرب نے تہذیبوں کے نام پر غیر علانیہ جنگ شروع کر رکھی ہے؟۔ مغرب کے نام نہاد محقق اور مخبوط الحواس دانشور سیموئیل پی ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب '' The Clash of Civilizations'' میں اسلام کے بارے میں جو من گھڑت مفروضہ بیان کیااس نے دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل رکھا ہے۔

1995ء میں اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد اہل مغرب نے اس مفروضے کوسچ مان کر اسلام اور مسلمانوں سے نفرت آمیز رویہ روا رکھا اور جب بھی انھیں موقع ملتا ہے وہ اس نفرت کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ سیموئیل نے اپنی مذکورہ کتاب میں واضح طور پر یہ بات لکھی کہ '' مغرب کی تہذیب ہر طرح سے کامل و اکمل ہے۔

اب اگر اسے کوئی خطرہ ہے تووہ خطرہ صرف اور صرف اسلام سے ہے''۔اس کتاب نے اہل مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں خوف و ہراس پیدا کیا اور اسی خوف کی بنیاد پر وہ اسلام پر حملہ آورہوتے ہیں، انھیں ان گھناؤنے کاموں میں اپنی حکومتوں اور شیطانی قوتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جب سے یہ کتاب منظر عام پر آئی ہے اس وقت سے آج تک مغرب اسلام پر عسکری و تہذیبی لحاظ سے کئی بار یلغار کر چکا ہے۔

کبھی مسلم ممالک پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر چڑھائی کی گئی اوران کے وسائل پر قبضے کیے جاتے رہے تو کبھی قرآن مجید اور حضورنبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کی جاتی رہی،ناپاک جسارتوں کا یہ ناپاک سلسلہ ہنوز جاری ہے۔چارلی ہیبڈو میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت سے لے کر ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے بدبخت رکن گیرٹ ویلڈرزکی جانب سے توہین آمیز خاکوں کے مقابلوں کے اعلان تک،پھر فلوریڈاکے ملعون پادری ٹیری جونز سے لے کر اب ناروے کے ملعون شہری لارس تھورسن تک قرآن پاک کی بے حرمتی کے سلسلے کے پیچھے وہی تھیوری کام کر رہی ہے جو سیموئیل پی ہنٹنگٹن نے پیش کی تھی۔

ناروے کے شہر کرسٹین سینڈ میں قرآن پاک کی توہین کے اس افسوس ناک واقعہ کے پیچھے وہی اسلام مخالف سوچ کارفرما ہے جو اس سے پہلے اسی نوعیت کے دیگر واقعات کے پیچھے بھی کارفرما رہی۔غور کیجیے کہ اسلام مخالف تنظیم Stop Islamization of Norway (سیان) باقاعدہ اسلام کے خلاف ایک ریلی کا انعقاد کرتی ہے اور اس ریلی میں قرآن پاک کی شدید بے حرمتی کی گئی لیکن ناروے کی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اور تنظیم کے سربراہ لارس تھورسن کو روکنے کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔قرآن پاک کی توہین کو وہاں موجود مسلمان نوجوان برداشت نہ کرسکے، ان کی غیرت ایمانی نے انھیں جرات و طاقت بخشی اوروہ اس ملعون لارس تھورسن پر حملہ آور ہوئے۔

عمر الیاس نامی ایک نوجوان رکاوٹیں توڑتا ہوا آگے بڑھا اور ملعون لارس تھورسن کو دبوچ لیا۔ اس اقدام سے مزید نوجوانوں کو ہمت ملی اور دیگر نوجوان بھی ملعون تھورسن پر حملہ آور ہوئے جس پر پولیس اہلکار جو پہلے تماشا دیکھ رہے تھے، وہ آگے بڑھے اور حملہ آور نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جب کہ ملعون لارس تھورسن کو بھی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔

قارئین کو یہ بات بتاتے چلیں کہ ناروے کے اس شہر کرسٹین سینڈ میں مسلمانوں کی بڑی آبادی موجود ہے لیکن ناروے کی انتظامیہ نے نہ صرف اس اشتعال انگیز ریلی کی اجازت دی بلکہ قرآن پاک کی توہین سے بھی نہ روکا۔ناروے میں جس علانیہ انداز میں قرآن پاک نذر آتش کیا اور مقامی انتظامیہ و نارویجن پولیس نے اس ملعون کو ایسی مذموم حرکت سے روکنے کے بجائے جس انداز میںاسے سہولت کاری فراہم کی اس سے یہی تاثر ملا کہ یہ واقعہ مغرب کی اسلام دشمنی ہے،جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا اس ناپاک جسارت سے دنیا بھر کے ایک ارب ستر کروڑ مسلمانوں کے دل زخمی ہوئے۔ سب سے پہلے ترکی نے اس واقعہ پر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے ،پھر پاکستان نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا ، بعض بڑے اسلامی ممالک کی جانب سے لمحہ موجود تک احتجاج نہیں کیا گیا۔

موجودہ صورتحال کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ غفلت کی چادر چھوڑیں اور تمام اسلامی ممالک ناروے کی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ اگر اس واقعہ کو نارویجن حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں تھی تو اس ملعون اور اس کے ساتھیوں کو کیفر کردار تک پہنچا نے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی جائے تاکہ آیندہ کوئی شخص ایسی گھناؤنی حرکت کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ شنید ہے کہ ناروے حکومت تمام مذاہب کی مقدس کتابوں کے حوالے سے قانون سازی کرنے جارہی ہے ، اگر ایسا ہونے جارہا ہے تو یہ درست قدم ہوگا ، جس سے مکدر فضا میں تھوڑا ٹھہراؤ آنے کا امکان ہے۔

پورے عالم اسلام کو ان نوجوانوں پر فخر ہے جنھوں نے اس ریلی کے شرکاء پر حملہ کیا اور انھیں اس گستاخی پر سبق سکھانے کی جرات کی۔ خاص طور پر وہ نوجوان عمر الیاس جس نے ملعون لارس تھورسن پر حملہ کیا اسے عالم اسلام میں جتنی پذیرائی ملی وہ دیدنی تھی۔ تمام عالم اسلام نے اس کی جرات و غیرت اور قرآن پاک سے محبت کو سلام پیش کیا۔ان نوجوانوں نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان بھی قرآن پاک اور نبی کریمﷺ کی بے حرمتی برداشت نہیں کرسکتا۔یہ پہلا واقعہ ہے جس میں مغرب کے انتہا پسندوں کو کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب یہ بات اہل مغرب کو بھی سمجھ لینی چاہیے اور ان کی جانب سے ایسی مذموم حرکات کے ذریعے مسلمانوں کے امتحان لینے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

یہی امن کا راستہ ہے۔ اہل مغرب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس قسم کی حرکتیں ایک تہذیب کو ماننے والے اربوں انسانوں کی دل آزاری کا باعث بنتی ہیں،ایسی گھناؤنی حرکتوں کا جواب ہر محاذ پراور ہر انداز میں ملے گا۔اس ناپاک جسارت پر مسلمان اپنے جذبات پر قابر نہیں رکھ پارہے ،ان کے اندر غصے اور نفرت کا جذبہ امڈ رہا ہے، یہی وہ جذبہ ہے جو امت مسلمہ کا اثاثہ ہے کیونکہ یہی قرآن پاک سے محبت کاعملی اظہار ہے۔ آج پوری دنیا کے مسلمان اس ناپاک جسارت پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور مغرب کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ ایک ادنیٰ سا مسلمان بھی سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنے قرآن پاک کی توہین برداشت نہیں کرسکتا۔

اہل مغرب اسلام اورامت مسلمہ سے خوفزدہ ہیں حالانکہ ان کا خوف بلا جواز ہے، ماضی میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان اچھے تعلقات بھی رہے ہیں لیکن سیموئیل پی ہنٹنگٹن نے نفرت کا جو بیج بو دیا ہے اب اس کی فصل پک کر تیار ہوچکی ہے جو تہذیبوں کے درمیان ٹکراؤ کا سبب بن رہی ہے۔ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کی ایک بڑی وجہ وہاں کے لوگوں کا اظہاررائے کی آزادی بھی قرار دیا جاتا ہے،ان کے ہاں اظہار رائے کی آزادی کا تصور غیر محدود ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کو روکا تو یہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی ، حتیٰ کہ وہاں کی عدالتیں بھی اس قسم کے معاملات سے کتراتی ہوئی نظر آتی ہیں۔یہ مغرب کا دہرا معیار ہے جس کی انتہا دیکھیے کہ ایک طرف اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ہمارے پیارے پیغمبر ؐاور قرآن پاک کی توہین کی جاتی ہے اوردوسری طرف ہولوکاسٹ پر لب کشائی کی اجازت نہیں ہے۔

اگر ہولوکاسٹ پر لب کشائی کی اجازت نہیں ہے تودوسرے مذاہب کی مقدسات کی توہین کیوں کی جاتی ہے؟ ہولوکاسٹ پر بات کرنے والے کو سزا ہوسکتی ہے توپھرتوقرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والوں کو سزائیں کیوں نہیں مل سکتی؟ اظہار رائے کی آزادی کی کوئی حدود و قیود بھی ہیں، انسان کی آزادی اظہار رائے وہاںتک ہے جہاں کسی دوسرے کی دل آزاری نہ ہو۔ ایک طرف دنیا میں قیام امن کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اوردوسری طرف ایسی ناپاک جسارتیں کی جارہی ہیں جن کے باعث دنیا بھر میں بسنے والے اربوں انسانوں کے جذبات کو بھڑکایا جارہا ہے، اس طرح دنیا امن کا گہوارہ نہیں بن سکتی۔ایسی گھناؤنی حرکتوں سے سب سے زیادہ دھچکا بین المذاہب مکالمے کے لیے کی جانی والی کوششوں کو پہنچ رہا ہے۔اگر اہل مغرب کی جانب سے یہ سلسلہ نہ رکا تو دنیا سے امن اٹھ جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں