ناٹو افواج کا انخلاء پاکستان اور بھارت پر اثرات
آیندہ برس افغانستان سے ناٹو افواج کے انخلاء اور اس کے جنوبی ایشیاء بالخصوص پاکستان اور بھارت پر ممکنہ اثرات۔۔۔
آیندہ برس افغانستان سے ناٹو افواج کے انخلاء اور اس کے جنوبی ایشیاء بالخصوص پاکستان اور بھارت پر ممکنہ اثرات ایک ایسا معاملہ ہے،جس کے بارے میںخطے کاہر شخص تشویش میں مبتلا ہے اوراس بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔اس حوالے سے پٹیالہ میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس کا موضوع ''افغانستان سے ناٹو افواج کا انخلاء اور پاکستان اور بھارت پر اس کے ممکنہ اثرت'' تھا۔جس میں پاکستان کا 15رکنی وفد شریک ہوا ۔ کلیدی مقالہ سائوتھ ایشیاء پارٹنر شپ پاکستان کے ایگزیکیوٹیوڈائریکٹرمحمد تحسین کا تھا۔ بھارت کی جانب سے ڈاکٹر کمل متراچنائے، ڈاکٹرسچاسنگھ، ڈاکٹر کھٹکر سنگھ اور پروفیسر قمرآغا نے خیالات کا اظہار کیا۔اختتامی کلمات پنجابی یونیورسٹی کے ست نام مانک جی نے اداکیے۔
دہلی یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے پروفیسر قمر آغا نے کہا کہ ایک مستحکم افغانستان جنوبی ایشیاء کے استحکام اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ان کی تجویز تھی کہ افغانستان میں پارلیمانی نظام متعارف کرایا جائے۔جس میں تمام سیاسی شراکت داروںکی شرکت ممکن ہوتی ہے۔ دوسری تجویز یہ دی کہ افغانستان کو ایک غیر جانبدار ریاست قراردیدیاجائے، اس طرح اس کے بجٹ سے دفاعی اخراجات کاخاتمہ ہوجائے گا اور تمام وسائل معاشی اور سماجی ترقی پر صرف ہوسکیں گے۔تیسری تجویز میں ان کا کہناتھا کہ امریکا سمیت جنوبی ایشیائی ممالک ایران کو افغانستان کی ترقی کے عمل میں شریک کرکے توانائی کی ضروریات اس کی مدد سے پوری کی جائیں۔ انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں پاکستان اور بھارت مل کرکام کرسکتے ہیں۔
پنڈت جواہرلعل نہرو یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سینئر استادپروفیسر(ڈاکٹر)کمل مترا چنائے کا کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتحال کے اثرات پورے جنوبی ایشیاء پر مرتب ہورہے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ناٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد خطے میں امن قائم ہوجائے گا، مجھے ان کے اس موقف پر ہنسی آتی ہے۔کیونکہ ناٹو افواج کی واپسی کے بعد صرف افغانستان ہی میں مزید ابتری نہیں آئے گی،بلکہ خطے کے دوسرے ممالک بالخصوص پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ہوسکتا ہے کہ شدت پسند عناصر پاکستان پر حملہ آور ہوجائیں اور اس پر کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کریں۔مودی جیسے لوگ جو آج بھی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔شاید وہ پاکستان میں پیدا ہونے والے عدم استحکام سے خوش ہوں کہ دشمن کمزور ہورہا ہے۔
لیکن انھیں اس بارے میں بھی سوچناچاہیے کہ پشاور سے واہگہ بارڈر کافاصلہ زیادہ نہیں ہے۔لہٰذاشدت پسندی کے رجحانات بھارت تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔اس لیے بھارت میں ہر ذی شعور شخص یہ سمجھتا ہے کہ خطے میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے پاکستان اور بھارت کو مل کر کام کرنا چاہیے ۔چنانچہ وقت اور حالات کا تقاضاہے کہ سیاچن اور سرکریک کے تنازع کو فوری حل کرلیا جائے ۔ کشمیر گوکہ ایک پر انااور خاصاپیچیدہ مسئلہ ہے۔لیکن اس کے باوجود اب اسے حل ہوجانا چاہیے،کیونکہ اس کے علاوہ اب کوئی چارانھیں ہے۔مگرمجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ خطے کے حالات اس قدرناگفتہ بہ ہونے کے باوجود دونوں جانب کی اسٹبلشمنٹ اب بھی سرد جنگ کی مکروہ حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہے اور دونوں جانب کا میڈیا مسلسل جھوٹ بول رہاہے۔ ایسے میں حالات میں بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر سچا سنگھ نے کہا کہ جنوبی ایشیاء میںقیام امن کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے امریکاکے استعماری کردار کو سمجھنا ضروری ہے۔امریکا نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطرہمیشہ دوسری اقوام کا استحصال کیا ہے۔ 1980ء کے عشرے میںمذہبی شدت پسندی کی سرپرستی کامقصد بھی سوویت یونین کو زچ کرناتھا۔یہی وجہ ہے کہ اس نے منشیات کی تجارت سے صرف نظرکیا،جس کی آمدنی سے اسلحہ خریداجاتا ہے اور سوویت یونین کی موجودگی تک انھیں ہر طرح سے کھلی چھٹی دیے رکھی۔ اب یہ عناصر خود اس کے لیے عذاب بن چکے ہیں۔ مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ ایک بار پھرانھیں استعمال کرسکتا ہے۔اس لیے شدت پسندی اور امریکی کردار پر کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے بہت سے پہلوئوں پرغور کرنا ضروری ہے۔انھوں نے کہا کہ اس غلط فہمی میں نہ رہاجائے کہ امریکی افواج مکمل طورپر اس خطے سے جارہی ہیں، بلکہ ایک قابل لحاظ تعداد افغانستان میں موجود رہے گی۔انھوں نے کہا یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان LoCپر معاملات طے ہونے کے قریب پہنچے پاکستان میں حکومت تبدیل ہوگئی۔جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان دونوں ممالک کی عسکری قیادتیں کیا چاہتی ہیں۔
پشاور یونیورسٹی کے علاقائی مطالعاتی مرکز کے ڈائریکٹر پروفیسر سرفراز احمد نے کہا کہ میرا تعلق پاکستان کے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے خیبر پختونخواہ سے ہے۔ہم 9/11کے بعد سے نہیں بلکہ 1980ء کے عشرے سے حالت جنگ میں ہیںاور مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعدادمیں آمد سے صوبے کاآبادیاتی تناسب (Demography)تبدیل ہوچکی ہے۔وہ صوبہ جو باچا خان کی تعلیمات کی وجہ سے سب سے زیادہ سیاسی شعور اور رواداری رکھتا تھا، افغانستان کی صورتحال کے نتیجے میں عدم برداشت کی بھیانک نظیر بن چکاہے۔ باباگرونانک یونیورسٹی کے ڈاکٹر کھٹکرسنگھ کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کو کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کا قطعی کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ہمیں بلاخوف وخطر یہ بات تسلیم کرنا چاہیے کہ امریکا افغانستان میں جنگی جرائم کا مرتکب ہواہے۔ اس کا رویہ نوآبادیاتی ہے۔یہ بات بھی سمجھنا چاہیے کہ اب دنیا یک قطبی(Unipolar)نہیں ہے،بلکہ کثیر القطبی (Multipolar)ہوچکی ہے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسزڈاکٹرریاض احمد شیخ کا کہناتھا کہ ایساف افواج کاافغانستان سے انخلاء 14ماہ کی مسافت پر ہے، لیکن پاکستان اور بھارت کواپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر مبنی رویوں کے باعث اس عمل سے براہ راست مستفیدہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ افغانستان کے بارے میں پاکستان اور بھارت کے رویوں کو ان کے اپنے اختلافات اور تنازعات کی روشنی میںدیکھنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ دونوںممالک وہاں اپنا اثرونفوذ بڑھانے کے لیے پراکسی جنگ کے ذریعے ایک دوسرے کو زچ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔چونکہ وہاں اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے کے خواہش مند ہیں،اس لیے افغانستان میںقیام امن کے لیے کوششوں کے بارے میں دونوں ممالک کے دعوے دروغ گوئی پرمبنی ہیں۔
یہ سوچ کا غلط انداز ہے۔حکومت اور طرز حکومت کا فیصلہ کرنے کا حق افغان عوام کاہے۔ وہ جسے چاہیں اپنا حکمران بنائیں۔دوسری جانب افغانستان کے معاملات میں پاکستان اور بھارت کی مداخلت نے ان دونوں ممالک کے دیرینہ اختلافات اور تنازعات میںکمی کے بجائے مزید شدت آنے کا امکان پیداکردیاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف اور منموہن سنگھ کی نیت پر شک نہیں، لیکن نیویارک میںان دونوں رہنمائوں کی ملاقات زیادہ پر اثر نہیں رہی اور نہ ہی اس کے کوئی ٹھوس نتائج آنے کی کوقع کی جاسکتی ہے۔ دیکھنایہ ہوگا کہ آیندہ انتخابات میںنریندرمودی کے وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد بھارت کا رویہ کیا ہوتاہے اور قیام امن کے لیے کوششیں کس مقام پر ہوں گی؟اس لیے افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کی ممکنہ پالیسیوںکے بارے میںبھارتی انتخابات سے پہلے گفتگو قبل از وقت ہے۔جنوبی ایشیاء کے مستقبل پر چھائی دھند بھارت میںہونے والے آیندہ انتخابات کے بعد ہی کہیں جاکر صاف ہوسکے گا۔
اس سیمینار میں پڑھے جانے والے مقالوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے دانشور اور اہل قلم خطے کی مجموعی صورتحال پرتقریباً یکساں خیالات رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں پائیدار امن اور ترقی کی جانب بڑھنے کی خواہش بھی شدید ہے۔ مگر دونوں جانب کے ریاستی منصوبہ ساز شاید تبدیل ہوتی دنیا کے حقائق کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور اسی لیے وہ آج بھی سرد جنگ کی حکمت عملیوں کو جاری رکھنے پر اصرار کررہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا عوامی دبائو میں اتنا پوٹینشل ہے کہ وہ دونوں ممالک کی حکومتوں کو اپنی روش تبدیل کرنے پر مجبور کرسکے گا یا نہیں۔