لال لال مستقبل
تاریخی طور پر طلبہ سیاست نے ہمیشہ طلبہ میں برداشت عدم تشدد اور سیاسی جدوجہد کا شعور فراہم کیا۔
ذات کی آزادی اور تعمیری سوچ کی خواہش انسانی فطرت کا وہ پہلو ہے جس نے زمانے کے حوادث سے لڑتے ہوئے انسانی حقوق کے تسلیم کیے جانے تک کا سفر طے کیا ہے ، انسانی جدوجہد کی تاریخ یوں تو صدیوں سے زیادہ تک پھیلی ہوئی ہے جس کا بنیادی محور انسانی فطری آزادی کو بر قرار رکھنا رہا ہے ۔
یہ طاقتور اور محکوم کے درمیان وہ معرکہ رہا ہے جو شاید انجام دنیا تک جاری و ساری رہے ، انسانی آزادی کی اس جنگ کی ابتدا اس کرہ پر پہلے انسان سے شروع ہوکر جدید دور تک پہنچی ہے۔ اس مد وجزر میں آزادی کے جانباز اکثر طاقتور کے سامنے اپنی منڈلی بنا کر اپنی جدوجہد کی قوت سے لڑتے رہے اور اب تک حقوق حاصل کرنے کی یہ جنگ کسی نہ کسی طرح ہر انسان کے دل میں مچل رہی ہے۔
تبدیلی کی یہ خواہش انسانی جدوجہد اور اپنے حق کو لینے کا وہ استعارہ ہے جس کو ہر دورکے طاقتور نے روندنے اورکچلنے کی کوشش کی ، مگر دوسری جانب محکوم طبقات کے سرفروشوں کا وہ ہجوم ہمیشہ طاقتوروں سے گتھم گھتا رہا ہے اور اپنے شعورکی رو سے اپنے حقوق کو سمجھنے میں کامیاب رہا ، انسانی ارتقا کے مقابل انسانی شعور طاقت کے سامنے سینہ سپر رہا ، سو طاقت اور شعورکی یہ جنگ تاحال اپنی جدوجہد میں سرگرداں ہے۔
برصغیر کے عوام نے مختلف جارح اور قابضین سے آزادی اور اپنے حق حاصل کرنے کا منظم طریقہ جدوجہد اور طاقتورکے سامنے مزاحمت کو ہی جانا۔ یہی وجہ رہی کہ عوام کے جتھوں کی اجتماعی جدوجہد نے برصغیر کے عوام میں سیاسی شعور کو وہ آگہی فراہم کی کہ جس نے خطے کے جارح طاقتورکو عوام کے سیاسی شعور سے نکالا دیا۔
برصغیر کی آزادی میں ہراول کا کردار ادا کرنے والے بھگت سنگھ ،حسن ناصر اور نذیر عباسی سوشلسٹ فکرکی تاریخ کا وہ انمول حصہ ہیں جن سے جدوجہد کے نئے زاویے وا ہوئے، بھگت سنگھ اور دیگر کامریڈزکے سیاسی شعور کے نتیجے میں انگریز سامراج سے آزادی حاصل کرنے میں نوجوانوں نے ہراول کا سیاسی کردار ادا کیا ، طالب علموں کی جدوجہد اور ولولے نے طاقتوروں کو مجبور کیا کہ وہ عوام پر اپنے غاصبانہ عمل کو ترک کرکے انھیں آزادی فراہم کرے ۔ پاکستان میں بھگت سنگھ کے سرخ پھریرے لیے طلبہ تحریک منظم ومتحرک ہوئی۔
طلبہ کے سیاسی شعورکی اہمیت کو سمجھتے ہوئے قائد اعظم نے اپنی جماعت کی کمانڈ طلبہ سیاست کو دی اور آخر کار طلبہ کے سیاسی اور متحرک سوچ کے نتیجے میں عوام میں آزادی کی شعوری خواہش اور تربیت پیدا ہوئی جو آخرکار ایک آزاد ملک کے قیام کا ذریعہ بنی۔ طلبہ تحریک اور ان کی پرجوش جدوجہد کے نتیجے میں جب پاکستان کا بناتو قائد اعظم نے طلبہ کو سماج اور جمہوریت کا نگہبان قرار دیا، سرخ سویرے اور عوام کے جمہوری حقوق کی جنگ سے سرشار سوشلسٹ فکر کے طلبہ نے جب سیاسی اور سماجی تحریک کو متحرک کرنا شروع کیا تو قائد اعظم کے جمہوری فکرکے برعکس ریاست کی طرف سے طلبہ کی سیاسی آزادی کو پامال کرنے کی تیاری شروع کر دی گئی،جس کے نتیجے میں کراچی طلبہ تحریک کا وہ نشان ثانیہ بنا جہاں کے ہر گھر سے سرخ پھریرے نکلے اور طلبہ نے ریاست کے تمام ظالمانہ اقدامات کو ماننے سے انکار کر دیا۔
قیام پاکستان کے وقت مسلم اسٹوڈینٹس فیڈریشن اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اپنی نظریاتی اساس کے ساتھ تعمیری اور سیاسی نکتہ نظر پر مختلف تھیں مگر طلبہ حقوق اور جمہوری آزادی کے لیے طلبہ جدوجہد ایک لڑی میں جڑی ہوئی تھی، طلبہ کے اس جمہوری اور سیاسی شعور نے جب آگے کا سفر طے کیا تو ڈی ایس ایف کے طلبہ نے ڈاکٹر بننے کے دو سالہ ظالمانہ نظام پر آواز بلند کی اور کراچی سے شروع ہونے والی طلبہ کی یہ تحریک پاکستان کے گوشے گوشے میں پھیلی ، جس پر ریاستی خداؤں نے پاکستان کے قیام کے صرف پانچ برس بعد1953میں طلبہ حقوق کی جدوجہد پر شب خون مارا جس کے نتیجے میں دو طلبہ کا خون ناحق بہایا گیا جب کہ متعدد طلبہ کو ریاستی بندوق برداروں نے تشدد کا نشانہ بنا کر طلبہ رہنماؤں کی زندگی عذاب کردی،گھر گھر طلبہ جدوجہد کے ہراول طلبہ کی تلاشی کا دائرہ بڑھا کر طلبہ کے سیاسی اور جمہوری حقوق کی مانگ کو ریاستی طاقت سے روکنے کی کوشش کی گئی۔
طلبہ جدوجہد کا یہ سوشلسٹ فکرکا قافلہ نہ رکا نہ بکا بلکہ سماجی شعور کی راہوں کو اپنے جوش و جذبے سے منور کرتا ہوا محکوم عوام کے دل کی آواز بن گیا۔ اس دوران ریاستی طاقت نے طلبہ حقوق کو روکنے اور سماج میں طلبہ کا جمہوری مطالبہ ماننے سے انکارکیا جس سے یہ طلبہ تحریک عوام کے حقوق کی آزادی اور عوام کی پسماندگی کو دور کرنے کی یہ تحریک عوام کے دل کی دھڑکن قرار پائی۔
اس اثنا طلبہ کے عزم وجوش کو بھانپتے ہوئے ڈی ایس ایف کی طلبہ تنظیم پر1956میں پابندی عائد کر دی گئی، اور ریاستی ایوانوں میں یہ سمجھا جانے لگا کہ شاید انھوں نے طلبہ کے خون سے جلائے گئے چراغ بجھا دیے ہیں، مگر ریاست شاید اس امر سے ناواقف ہی ہوتی ہے کہ شعورکے چراغ روشن ہوکرکمزور لوگوں وہ سہارا ہوتے ہیں، جو ناتواں میں ہمت جرات اور اعتماد پیدا کرتی ہے۔ طلبہ کی اس تحریک کی کمان جب ان طلبہ نے این ایس ایف کے نام سے سنبھالی تو ایوانوں میں رن پڑا کہ اب ان بپھرے اور سوشلسٹ خیالات کے طلبہ کو کس طرح جمہوری حقوق سے روکا جائے،جمہوری اقتدار پر قبضہ کرنے والے آمر نے سب سے پہلے طلبہ تحریک اور جمہوری و سیاسی آزادی کے لیے ہر اول کردار ادا کرنے والے ''شہر کراچی'' کو ملک کے دارالخلافہ کی حیثیت سے محروم کرکے قومی سلامتی کے نام پر اسلام آباد کو ملکی نظم و نسق چلانے کا مرکز بنایا ۔
اسی کے ساتھ آمر نے طلبہ تحریک کے سیاسی جمہوری اور پرامن تحریک کے کردار کو مسخ کرنے کے لیے ریاستی طاقت کے ساتھ ایک طلبہ تنظیم کے ذریعے طلبہ کی پر امن حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کو کلاشنکوف کلچر میں تبدیل کرنے کے لیے اس تنظیم کے ریاستی فرمانبرداروں کو مسلح کیا تاکہ مستقبل میں طلبہ تحریک پر جھگڑے فساد اور غنڈہ گردی کے الزامات کی آڑمیں طلبہ کے حقوق حاصل کرنے کی تحریک کو درسگاہوں میں امن قائم کرنے کے نام پر ریاستی قید و بند کا نشانہ بنایا جاسکے،جس کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مہاجر طلبہ کی تنظیم کو سرکاری تنظیم کے مقابل لا کھڑا کیا جس کو ایک اور آمر نے سندھ کی قوم پرست طلبہ تحریک بھی طلبہ سیاست پر پابندی واسطے استعمال کی اور یوںجمہوریت کو تاراج کرنے والے آمر نے آئین کو معطل کرکے 1984میں طلبہ سیاست پر پابندی عائد کر دی۔
تاریخی طور پر طلبہ سیاست نے ہمیشہ طلبہ میں برداشت عدم تشدد اور سیاسی جدوجہد کا شعور فراہم کیا ، مگر چونکہ طلبہ کی سیاسی آزادی حکمرانوں اور ان کے منصوبہ سازوں کو گوارا نہ تھی ،اسی ناتے طلبہ سیاست کے خاتمے کے بعد پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو بڑھاوا دیتے ہوئے ملک میں وحشت اور دہشت کا بازار گرم کیا گیا اور نئی نسل کے تازہ ذہنوں میں سیاست کو ایک بری چیزکرکے پیش کیا،جس نے ملک کی جمہوری روایتوں کو کمزور کیا اور شاید یہی وجہ رہی کہ بے نظیر بھٹو سے لے کر نواز شریف تک طلبہ سیاست کے آئینی حق کو ملک کے طالبعلموں کو نہ دے سکے ۔ مگر آج کی نسل جدید تقاضوں سے لیس سیاسی شعور کے اس دہانے پر آگئی ہے کہ وہ سوشلسٹ خیالات اور روشن خیال قدروں کو پروان چڑھانے کی خاطر میدان عمل میں ہے،یہ بے سرو ساماں سوشلسٹ خیالات کے طلبہ 29 نومبرکو ملک میں طلبہ تحریک کا وہ روشن دیا جلانے نکلے ہیں جن کے قافلوں کو روکنا اب کسی بھی صورت ممکن نہیں۔
یہ سر بکفن طلبہ کے قافلے
جب لال لال آئے گا
تو سرخ سویرا چھائے گا
کے نعرے لگاتے اپنے مستقبل کو کسی طور تاریک راہوں میں بھٹکنے نہیں دیں گے بلکہ شعورکے یہ الاؤ سرخ پھریروں کے سنگ طاقت کو بھسم کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہونگے کہ وقت کا فیصلہ اب یہی ہے۔