عراق پر امریکی حملہ آج بھی جاری
امریکا نے جنگ کے دوران ’’ڈپلیٹڈیورینیم‘‘کا استعمال کیا، جس کے اثرات بچوں کی پیدائش کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں
جنگ اپنے پیچھے مختلف النوع زہربھری آلودگی چھوڑ گئی ہے۔ فوٹو: فائل
MOSCOW:
امریکا عراق میں اپنے پیچھے انتشار اور تشدد چھوڑ کر ہی نہیں آیا اس نے ہلاکت آفرینی کے ایسے نشانات بھی چھوڑے ہیں جو عراقیوں کی جانے کتنی نسلوں تک ثبت ہوتے رہیں گے۔
امریکی فوج پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ اس نے سرزمین عراق پر اپنے غاصبانہ قیام کے دوران کیمیائی ہتھیار استعمال کیے، جن کے تباہ کن اثرات مقامی آبادی اور ماحول پر ہوکر رہیں گے، لیکن امریکا کی طرف سے اپنی سیاہ کاری کو سفید جھوٹ سے چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بالآخر حقیقت سامنے آگئی۔
پہلی مرتبہ آزاد محققین کوایسے عراقی بچوں کے بارے میں پتا چلا ہے جو پیدائشی طور پر معذوریوں اور امراض کا شکار ہیں، جیسے دل کی بیماریاں اور اعضاء میں نقص۔ ان بچوں کی جائے پیدائش 2003 میں عراق پر قبضے کے بعد ملک کے جنوب میں قائم کیے جانے والے امریکی ایئربیس کے اطراف کا علاقہ ہے۔
جہاں امریکیوں نے بڑے پیمانے پر تابکاری کی حامل ''ڈپلیٹڈ یورینیم'' استعمال کی تھی۔ ان محققین کی تحقیق کی بنیاد عراقی ڈاکٹروں کا عرصے سے زورشور کے ساتھ کیا جانے والا یہ انکشاف تھا کہ جنگِ عراق (جس کے نتیجے میں صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ ہوا) کے پہلے سال جن علاقوں میں زبردست معرکے ہوئے، وہاں پیدا ہونے والے بچوں کی بلند شرح پیدائشی طور پر جسمانی نقائص کا شکار ہے۔ ان بچوں کی تصاویر مختلف سائٹس پر موجود ہیں، جنھیں دیکھنے کے لیے بڑی ہمت درکار ہے۔
2016 میں محققین نے بغداد کے جنوب میں نصیریہ شہر کے قریب واقع تلیل ایئربیس، جو امریکیوں کے تسلط میں تھا، کے اردگرد کے دیہات میں جنم لینے والے بچوں کے بالوں اور دانتوں کا طبی معائنہ کیا تو انھیں ان دانتوں اور بالوں سے یورینیم اور تھوریم (Thorium) کے اجزاء ملے۔ یہ بھاری تاب کاری کی صلاحیت رکھنے والی دھاتیں جوہری ایندھن میں استعمال ہوتی ہیں اور سرطان کا سبب بن سکتی ہیں۔
تھوریم ڈیپلیٹڈ یورینیم سے براہ راست حاصل کی جانے والی زہرآلود ضمنی کیمیائی پیداوار ہے، جو جوہری بجلی کی صنعت میں استعمال ہوتی ہے۔ تھوریم کو جنگ عراق کے دوران بھی ہتھیاروں میں بروئے کار لایا گیا۔ اپنی بلند درجے کی کثافت کے باعث ڈیپلیٹڈیورینیم گولیوں کو آرمرڈ وہیکلز اور دیگر نہایت مضبوط دفاعی آلات کو چھید ڈالنے کی صلاحیت عطا کردیتی ہے۔ امریکی فوج نے اس دھات کا کیمیائی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے ساتھ ملٹری بیس کے باہر زمین میں دبایا اور گڑھوں میں جلایا، جس کی وجہ سے اس کے زہریلے اثرات سے مقامی فضا بھر گئی۔
مشی گن سے تعلق رکھنے والی غیرجانب دار اور آزاد محقق موژگان سوابی اصفہانی(Mozhgan Savabieasfahani) جو اس تحقیقی مقالے کی شریک مصنف ہیں، کا کہنا ہے کہ تلیل ایئربیس کے گردونواح میں جسمانی نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں میں تھوریم کی مقدار کی شرح ان بچوں میں اس دھات کی مقدار سے اٹھائیس گنا زیادہ ہے جو ایئربیس سے دوردراز علاقوں میں پیدا ہوئے اور جن میں کوئی پیدائشی نقص نہیں۔ وہ کہتے ہیں،''ہم ان بچوں میں بنیادی طور پر ڈیپلیٹڈیورینم کے اثرات دیکھ رہے ہیں۔''
اعدادوشمار کی مدد سے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تلیل ایئربیس کے قریب جنم لینے والے بچوں میں پیدائشی طور پر جسمانی نقائص، دل کی بیماریوں، ریڑھ کی ہڈی میں بگاڑ، ہونٹ کٹے ہوئے ہونے، اعضاء کا نہ ہونا، ان میں معذوری یا نقص کے پائے جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
محققین کا یہ انکشاف تو آج سامنے آیا ہے، مگر عراقی ڈاکٹر عراق پر امریکی حملے کے بعد سے بڑے پیمانے پر عسکری کارروائیوں والے علاقے میں پیدائشی نقائص کے ساتھ جنم لینے والے بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر خدشات اور خطرات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
اس نوعیت کے دیگر مطالعات سے سامنے آیا ہے کہ عراق کے مختلف شہروں، جہاں امریکی فوج کا قیام تھا یا اس نے بڑی جنگیں لڑیں، میں اسقاط حمل، بچوں کا سرطان، leukemia (خون کا سرطان) اور بچوں کی اموات میں حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان شہروں میں فلوجہ سرفہرست ہے، جہاں مذکورہ جنگ کے سب سے بڑے معرکے ہوئے۔
دوسری طرف سائنس داں، عراقی معالج اور عالمی مبصرین اس شک کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ مخصوص عراقی علاقوں کے نوزائدہ بچوں میں نقائص اور امراض کا باعث ڈیپلیٹڈ یورینیم ہے۔ 2014 میں ایک عراقی ڈاکٹر نے ویب سائٹ ''ٹُرتھ آؤٹ'' کے رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے یہ لرزہ خیز انکشاف کیا تھا کہ جنگ عراق کا مرکز بننے والے علاقوں میں فضا کو آلودہ کردینے والی ڈیپلیٹڈ یورینیم نسل کشی کے لیے کافی ہے۔
اگرچہ امریکی سرکار نے عراق کی وزارت صحت کو ڈیپلیٹڈیورینیم کے اخراج سے ہونے والی آلودگی کی کھوج لگانے کے لیے ڈیٹا فراہم کیا تھا، تاہم یہ پتا لگانا ناممکن ہے کہ جنگ کے دوران اس دھات کا کس مقدار میں استعمال کیا گیا۔ جنگ اپنے پیچھے مختلف النوع زہربھری آلودگی چھوڑ گئی ہے۔
جس کی وجہ سے عراقی دو عشروں سے ماحولیاتی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں ناقص الاعضا بچوں کی پیدائش جیسا سنگین مسئلہ بھی شامل ہے، لیکن امریکا کے انسانیت دشمن حربوں اور سیاہ کاریوں کو چھپانے کے لیے عالمی ادارے اور خود عراق کی وہائٹ ہاؤس کی احسان مند حکومت اس معاملے کو دبانے اور ہیراپھیری کے ذریعے اسے چھپانے کے لیے کوشاں ہیں۔
ان کی کوشش رہی ہے کہ ڈیپلیٹڈیورینم کے استعمال سے متعلق تحقیقی مطالعے میں سامنے آنے والے نتائج کو مکمل طور پر رد کرنا ممکن نہیں تو کم ازکم انھیں توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے اور ان کے گرد شکوک کی گَرد اُڑائی جائے۔ عالمی ادارۂ صحت اور عراقی حکومت کی جانب سے ایک سروے کیا گیا، جس کے نتائج کے ذریعے عراقی ڈاکٹروں کے دعوؤں کی تردید کی گئی۔ اس صورت حال میں مختلف حلقوں کا اصرار تھا کہ اس معاملے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے، اور اب تازہ ترین تحقیقی مطالعات نے تلیل ایئربیس کے گردونواح میں جسمانی نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کے بالوں اور دانتوں میں تھوریم کی موجودگی ثابت کرکے اس علاقے میں ڈیپلیٹڈیورینیم اور امریکی فوج کے درمیان براہ راست تعلق کی تصویر دکھا دی ہے۔
اس تحقیقی کاوش کی شریک محقق موژگان سیوابی اصفہانی کا کہنا ہے کہ بچوں کے دانت ماحولیاتی اثرات قبول کرنے کے معاملے میں نہایت حساس ہوتے ہیں۔ دانتوں میں اتنی بڑی مقدار میں تھوریم کا پایا جانا بتاتا ہے کہ یہ اثرات اس وقت مرتب ہوئے جب وہ ماں کے پیٹ میں تھے۔
اقوام متحدہ کے اعداوشمار کے مطابق صرف 2003 میں 2 ہزار میٹرک ٹن سے زیادہ ڈیپلیٹڈ یورینیم عراقی فضا میں داخل ہوئی، جس میں سے زیادہ تر امریکیوں کی طرف سے چلائی جانے والی ہزاروں گولیوں سے نکل کر فضا میں پھیلی۔ اس سے پہلے بھی امریکی فوج نے کویت پر عراقی قبضے کے باعث ہونے والی خلیجی جنگ کے دوران عراق، کویت اور سعودی عرب میں ڈیپلیٹڈ یورینیم سے لیس ہتھیار استعمال کیے تھے۔ اس جنگ سے واپس آنے والے فوجی صحت کے کچھ خاص مسائل کا شکار ہوگئے تھے، اس بیماری کو Gulf War syndrome کا نام دیا گیا تھا۔ محققین طویل عرصے تک اس شک کا اظہار کرتے رہے کہ اس مرض کا سبب ڈیپلیٹڈیورینیم کا استعمال ہوسکتا ہے۔
2003 کی جنگ میں امریکا نے ہزاروں ٹن کی مقدار کے حامل عسکری آلات عراق بھیجے تھے، جن میں ٹینک، ٹرک، آرمرڈوہیکلز، پیادہ فوج کا اسلحہ، اینٹی ایئرکرافٹ سسٹم شامل ہیں، ان میں سے کچھ پر ڈیپلیٹڈ یورینیم کی تہہ چڑھی ہوئی تھی۔ ان عسکری آلات میں سے بہت سے خراب ہوکر عسکری کباڑ خانوں میں جاپہنچے اور درجنوں امریکی ایئربیس اور عراق میں موجود دیگر امریکی تنصیبات کے قریب بکھرے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ امریکی ملٹری بیس میں ڈیپلیٹڈ یورینیم میں بھی ذخیرہ کی گئی تھی، جو آخرکار خارج ہوکر فضا میں تحلیل ہوگئی۔ تازہ ترین تحقیقی مطالعے کا محور تلیل ایئربیس ہے، مگر یہ عراق بھر میں پھیلی امریکا کی درجنوں فوجی سائٹس میں سے صرف ایک ہے، دیگر امریکی عسکری اڈے اپنے اندر کتنا زہر چھپائے ہیں اور کتنا اُگل چکے ہیں، یہ حقائق ابھی سامنے نہیں آئے۔ موژگان سیوابی اصفہانی کہتی ہیں کہ ہم نے اپنے تحقیقی مطالعے میں یہاں (تلیل ایئربیس پر) جو دیکھا اور جو اخذ کیا اس کے اطراف کا منظرنامہ عراق میں قائم کیے جانے والے ہر امریکی ملٹری بیس کے جیسا ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فضا میں یورینیم اور تھوریم کی آلودگی حاملہ خواتین کے رحم میں موجود بچوں کی زندگیاں تباہ کر رہی ہے۔
عراق پر جنگ کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر مسلط کی گئی تھی، بعد میں یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا، اور اب یہ سچ سامنے آیا ہے کہ جس الزام کو جواز بنا کر عراق پر قبضہ کیا گیا اور وہاں بدامنی اور خلفشار کے بیج بوئے گئے، اس الزام کو خود امریکیوں نے عراقی سرزمین پر حقیقت کا روپ دیا ہے۔
امریکا نے عراق میں ڈیپلیٹڈ یورینیم جیسے سفاک عنصر کا استعمال عراق کے مسلمانوں کی نسلوں کو اپاہج بنانے کے لیے یہ سب کیا یا اس کے لیے عراق کے باسی یا مسلمان انسان کا درجہ ہی نہیں رکھتے اور ان پر جنگی ضرورت کے تحت کوئی بھی حربہ آزمایا اور تجربہ کیا جاسکتا ہے، کچھ بھی ہو امریکی اپنے ظلم، بے حسی اور انسانیت دشمنی کے نشانات عراق کی ہواؤں اور فضا پر بھی ثبت کر گئے ہیں، جو اعضا سے محروم اور بیماریوں میں مبتلا بچوں، مہلک امراض اور ماحولیاتی تباہی کی صورت میں سامنے آرہے ہیں اور جانے کب تک عراق میں امریکاگردی کی یاد بنے تازہ رہیں گے۔ دراصل عراقیوں پر امریکی حملہ ختم نہیں ہوا، اب تک جاری ہے اور جانے کب تک اہل عراق کو ہلاکت میں ڈالے رہے گا۔