قرآن پاک کی بے حرمتی اور عمر الیاس   پہلا حصہ

عمرالیاس جیسے غیور مسلمان اپنے مذہب سے دل و جان سے محبت کرنے اور حضرت محمدﷺ کی حرمت پر جان قربان کرنے والے بہت کم ہیں۔


Naseem Anjum December 01, 2019
[email protected]

گزشتہ دنوں ناروے میں قرآن کی بے حرمتی نے دنیا بھرکے مسلمانوں کو شدید صدمے سے دوچارکیا۔ پاکستان نے ناروے میں قرآن کی بے حرمتی کے حوالے سے نارویجن سفیرکو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج کیا۔ ملک میں مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کیے گئے اور قرآن مجید کی حفاظت کرنے والے عمر الیاس کو اسلام کا ہیرو ٹھہرایا گیا۔

ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے ناروے میں قرآن پاک کی بے حرمتی کو روکنے والے نوجوان عمر الیاس کو بہادری اور جرأت دکھانے پر سلام پیش کیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ '' ایک افسوسناک اور قابل مذمت کارروائی کو روکنے کے لیے ہمت کا مظاہرہ کیا، ایسی اسلام فوبیا پر مبنی اشتعال انگیزی صرف نفرت اور انتہا پسندی کو فروغ دیتی ہے۔ تمام مذاہب قابل احترام ہیں۔ اسلام فوبیا عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہے۔'' جناب وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ اسلامو فوبیا عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ مسلم ممالک کو اکٹھا ہونا ہوگا۔

اس قسم کے واقعات دوسرے مغربی ممالک میں آئے دن پیش آتے ہیں،کبھی خاکوں کے حوالے سے توکبھی نعوذ باللہ قرآنی اوراق کی توہین کرنے کے حوالے سے، وقتی طور پر امت مسلمہ غم و غصے کا اظہار کرتی ہے اور پھر بہت جلد حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سخت ترین اقدامات اور مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت ہے تاکہ مسلمان ایک طاقت بن کر دنیا کے سامنے آئیں۔ ایسی طاقت جس کی جھلکیاں ماضی میں نظر آتی ہیں۔ مسلمانوں کی یکجہتی اور اسلام سے عقیدت و محبت کی داستانوں سے تاریخ اسلام بھری ہوئی ہے۔

یہ وہ غیر مسلم ہیں جو نفرت، تعصب کی بیماری میں اس قدر مبتلا اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ آسمانی کتاب انجیل مقدس اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کیا پیغام ہے؟ وہ اس بات سے بھی ناواقف ہیں کہ قرآن پاک وہ واحد کتاب ہے جو صرف مسلمانوں کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ قرآن کی پہلی ہی سورت سورۂ فاتحہ مکمل طور پر دعا اور شفا ہے۔ ترجمہ: ''اللہ کے نام سے جو بڑا رحمن اور رحیم ہے، تعریف اللہ ہی کے لیے جو تمام کائنات کا رب ہے، رحمن اور رحیم ہے، روزِ جزا کا مالک ہے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں، ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔''

سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ صرف مسلمانوں سے مخاطب نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کے انسانوں سے وہ کلام کر رہا ہے اور ان کو راہ راست پر لانے کی ترغیب دے رہا ہے۔ ترجمہ: ''یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے ان پرہیز گار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں ، جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے، یعنی قرآن مجید اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ جن لوگوں نے (ان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا) ان کے لیے یکساں ہے خواہ آپ انھیں خبردار کریں یا نہ کریں۔

بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں، اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں کو مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ اسی سورہ میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اس بات کا احساس دلا رہا ہے کہ جو نعوذباللہ قرآن جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش میں دن رات ایک کر رہے ہیں، لیکن کامیاب آج تک نہیں ہوئے اور نہ ہوں گے، اللہ نے خود فرما دیا ہے کہ اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے یہ ہماری ہے یا نہیں، تو اس کے ماخذ ایک ہی سورۃ بنا لاؤ اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو اگر تم سچے ہو تو یہ کام کرکے دکھاؤ ، لیکن اگر تم نے ایسا نہیں کیا اور یقینا کبھی نہیں کرسکتے تو ڈرو اس آگ سے، جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے۔

آج مسلمانوں کی غیرت ایمانی زبانی جمع خرچ کی طرح ہے عمل کچھ نظر نہیں آتا۔ اپنے آپ کو مسلمان کہنا اور کہلوانا پسند کرتے ہیں لیکن قرآن کی تعلیم اور فہم القرآن سے ناواقف ہیں ، بے حد بزدل اور ڈرپوک، ملکوں، شہروں، ضلعوں اور قصبوں میں کچھ بھی ہو جائے ان کی بلا سے، ہم معمول کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں دنیا بھر کے اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت کا بھی یہی حال ہے مسلمانوں کا ساتھ دینے کی بجائے غیروں کو دوست بناتے ہیں اور ان کی تجارت میں حصہ ڈال کر انھیں امیر ترین کرتے ہیں انگریز تو تقسیم سے قبل ہی مغلیہ سلطنت کی دولت، ہیرے، جواہرات اور کوہ نور جیسا نادر ہیرا لوٹ کر لے گئے تھے اور اب انھیں پھر موقع میسر آگیا ہے اور یہود و نصاریٰ کی چالوں اور دلفریب اداؤں کے باعث وہ انھیں فائدہ پہنچا رہے ہیں اور کفار قرآن پاک جیسی مقدس کتاب کی بے حرمتی کرنے میں بھی پیش ہیں۔

عمر الیاس جیسے غیور مسلمان اپنے مذہب سے دل و جان سے محبت کرنے اور حضرت محمدﷺ کی حرمت پر جان قربان کرنے والے بہت کم ہیں۔ مسلمان نہ کہ روزہ، نماز سے دور ہوکر رقص وموسیقی کی محفلوں میں گم ہوگئے بلکہ سیرت رسول پاکؐ وسلم کو بھی بھلا بیٹھے، علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کو شرم دلائی ہے:

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

شور ہے، ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود

وضع میں تم ہو نصاریٰ' تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو' مرزا بھی ہو' افغان بھی ہو

تم سب ہی کچھ ہو' بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

اقبال کو مسلمانوں کی حالت زار نے دل گرفتہ کردیا تھا تب ہی ان کی پستی اور ان کی کوتاہیوں کو اجاگر کرنے کے لیے انھوں نے یہ نظم لکھی تھی۔ ایک جگہ جواب شکوہ میں فرماتے ہیں:

کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں

ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذب باہم جو نہیں' محفل انجم بھی نہیں

آج کی صورتحال مزید خوفناک ہوگئی ہے مقام عبرت ہے اور اپنی زندگیوں کو بدلنے کا وقت ہے۔ اجتماعی و انفرادی توبہ کی ضرورت ہے ایک طرف طرح طرح کی بیماریاں ہیں تو دوسری طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کا دن دیہاڑے قتل ہو جاتا ہے۔ ایسے ایسے سانحات رونما ہو رہے ہیں کہ جنھیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بے شمار معصوم بچے تشدد کے ذریعے قتل کیے جا رہے ہیں، بدکاری و فحاشی عام ہوگئی ہے ، حیا ایمان کا حصہ ہے جب حیا نہیں رہی تب ایمان جاتا رہا اور پھر کیا بچتا ہے سوائے شیطانیت کے۔

کبھی ڈینگی سے تو کبھی نگلیریا، کبھی اسپتال والوں کی غفلت، ٹی وی چینلز پر ایسی خبریں ہر روز سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں، تمام گھر والے قرآن پاک پڑھنے کی بجائے اسمارٹ فون کو نگاہوں کے سامنے رکھتے ہیں۔ اس طرح بہت سا وقت ضایع ہوجاتا ہے۔ مثبت کام رہ جاتے ہیں اور منفی سوچ جنم لیتی ہے مقابلے کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے لیکن اسی سیل فون پر قرآن پاک کے تراجم اور بے شمار معلومات سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ لیکن جو مزہ کتابیں پڑھنے میں اور فلاحی امور انجام دینے میں ہے وہ دوسرے ذرائع میں نہیں ملتا ہے۔

ہم قرآن پاک کے اس حد تک دعویدار ہیں کہ یہ آسمانی کتاب ہے اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ آخر الزماں پر نازل ہوئی ہے اور بس۔۔۔۔یا پھر ناظرہ کی حد تک اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں