ہائی اسکول اور اسکول فیلوز
ڈسٹر نے بعض اساتذہ کی حیوانیت کو کیمروں میں محفوظ کر کے ان کی خصلت کو بے نقاب کر دیا ہے۔
چوکور کپڑے کے بنے بستے بغلوں میں دبائے میرے اکثر اسکول فیلو صبح گھروں سے نکلتے تھے۔ میں خود بھی چاروں کونوں کی گرہیں لگے کپڑے کا بستہ اُٹھائے شہر سیالکوٹ کے مشہور ڈرموں والے چوک سے امیلیا ہوٹل اور پھر ملک بُک ڈِپوکے سامنے سے تیز تیز قدم اُٹھائے تین میل دور گورنمنٹ ہائی اسکول کی طرف روانہ ہوتا۔ ان دنوں اسکول بیگ نہیں ہوتے تھے یا پھر چند امراء کے بچوں کے پاس ہوتے ہونگے۔
تیز چل کر اسکول پہنچنے کی جلدی اس لیے ہوتی کہ کلاس روم کے دروازے پر ہاتھ میں بلیک بورڈ صاف کرنیوالا لکڑی کا ڈسٹر پکڑے ماسٹر محمد بخش لیٹ آنیوالے طالبعلم کا ہاتھ پکڑ کر ایک شعر پڑھتے ہوئے دو بار ڈسٹر مارنے کی سزا دے کر اُسے کلاس روم میں Entry دیتے تھے۔
اس وقت تو ڈسٹر کی چوٹ والا ہاتھ سہلانے کے علاوہ کوئی اور بات سوچنے کی فرصت ہی نہ ہوتی آج خیال آتا ہے کہ شاید کلاس ٹیچر ہم شاگردوں سے اپنی بیگم سے ناشتے پر ہوئی ناراضی یا بے عزتی کا صبح سویرے بدلہ لیتے تھے یا کسی ذہنی بیماری میں مبتلا تھے کہ پہلے پیریڈ سے بھی پہلے شاگردوں کی مرمت کرنے کے بعد خود کو نارمل حالت میں لانے کا نسخہ استعمال کرتے تھے۔ وجہ جو بھی ہو اس وقت ڈسٹر نے بعض اساتذہ کی حیوانیت کو کیمروں میں محفوظ کر کے ان کی خصلت کو بے نقاب کر دیا ہے۔
جنہوں نے اسکولوں کو چالیس پچاس ساٹھ سال قبل چھوڑا ان کے موجودہ دنوں میں دُنیا کے سکڑنے اور لوگوں کے پر پھیلانے کی وجہ سے اسکول فیلوز بھی یوں بکھر گئے ہیں کہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا تو دور کی بات نام اور شکلیں تک بھول گئے ہیں لیکن ہماری خوش قسمتی کہ نصف صدی بعد ہم کلاس اور اسکول فیلو اب بھی رابطے میں رہتے اور مہینے میں ایک بار چائے پر مل بیٹھتے ہیں۔ کلاس کا پیریڈ تبدیل ہونے پر استاد بھی تبدیل ہوتے یا اِدھر اُدھر ہوتے ہیں تو اس دوران کلاس کا مانیٹر انتظام سنبھالتا تھا۔
پانچویں جماعت سے دسویں تک ہمارا کلاس مانیٹر محمد سعید ہی رہا وہ قابل، محنتی اور سخت گیر اسٹوڈنٹ مانیٹر تھا جس کے ذمے کلاس میں نظم و ضبط قائم رکھنا ہوتا۔ اُستاد کی کلاس سے غیر موجودگی کے دوران وہ ایڈمنسٹریٹر بن کر شور کرنے یا اِدھر اُدھر گھومنے والے اسٹوڈنٹس کے نام نوٹ کر کے اُنہیں ٹیچر سے پٹواتا۔ لائق تو سعید تھا ہی، اسکول کے بعد اس نے گریجویشن کی پھر قانون کی ڈگری لے کر وکالت شروع کی اور ایک دن ایڈیشنل سیشن جج کے عہدے پر سیلیکٹ ہونے کے بعد ترقی پا کر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مقرر ہو گیا۔ سروس کی معیاد پُوری ہونے پر ریٹائر ہوا تو اب وہ عبادت گزار باریش مولانا سعید اپنے لائق بچوں اور اسکول فیلوز کے ساتھ وقت گزارتا ہے۔
جاوید ارشد مرزا کو اس کی قابلیت کی بنا پر نہ معلوم کیوں اور کس نے پانچویں جماعت میں ڈاکٹر کہہ کر بلایا اور پھر سب کلاس فیلو اُسے ڈاکٹر کہہ کر مخاطب کر نے لگے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ وہ ایک دن نیو کلیئر سائنسدان بنے گا اور ڈاکٹر قدیر کے بعد 5سال تک اٹامک انرجی کمیشن کا چیئرمین رہے گا اور ڈاکٹر جاوید ارشد مرزا کہلائیگا لیکن آٹھویں کلاس کے ایک ٹیچر کو ون ورڈ سننے یا کسی دیگر معمولی غلطی پر شاگردوں کو کھڑا کرتے جانے اور جب تعداد کافی ہو جاتی تو ان سب کو ایک ایک بید ہاتھ پر رسید کرنے کا بیحد شوق تھا۔
ڈاکٹر جاوید ارشد نے بھی اس استاد سے ہاتھ پر چھڑی کھائی تھی۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے شاید ہی کوئی بچا ہو گا، ہمارا ساتھ آٹھ اسکول فیلوز کا اکٹھ ہوتا رہتا ہے، خوشی ہوتی ہے جب تین باریش بزرگ دوست نظر آتے ہیں۔ لوگ اس نیوکلیئر سائنسدان کا نام تک نہیں جانتے وجہ یہ کہ نہ وہ میڈیا پر کبھی آیا نہ اپنی تشہیر پسند کرتا ہے۔
وجہ اس کی یہ کہ وہ Genuine نیو کلیئر سائنسدان ہے اور جب میں نے اُسے سولہ سال قبل پندرہ بیس معروف شخصیات بشمول عمران خاں کو لاہور جمخانہ میں کھانے پر بلایا تو اُس نے بحیثیت چیئرمین اٹامک انرجی کمیشن کہا کہ اس کے کھانے پر آنے کی تشہیر قطعی نہ ہو۔ توقیر حسین جو کئی ممالک میں پاکستان کا سفیر رہا ، اسکول کی پانچویں کلاس میں میرے ساتھ ایک دو سیٹ والے بنچ پر بیٹھتا تھا۔ ہم نے سول سروس کے امتحان کی تیاری اکٹھے کی تھی۔ وہ فارن سروس میں سیلیکٹ ہوا تو اس کی پہلی تعیناتی کینیڈا میں ہوئی۔ موسیقی سے لگائو توقیر کو اسکول اور پھر کالج کے زمانے سے تھا۔
گزشتہ سال واشنگٹن میں اس کے گھر کھانے سے فارغ ہوئے تو وہ مجھے الگ تھلگ کمرے میں لے گیا۔ وہاں میں نے آلات ِ موسیقی بھی دیکھے اور مسحور کر دینے والی غزلیں بھی سنیں۔ وہ واشنگٹن کی ایک یونیورسٹی میں انٹر نیشنل امور پر ہفتہ میں ایک دن لیکچر دیتا، اخبار میں مضمون لکھتا اور کبھی TV پر اظہار ِ خیال کر کے خود کو مصروف رکھتا ہے۔ سلیم مرزا تعلیم سے زیادہ اسپورٹس پر توجہ دیتا تھا ۔ اسکول کے زمانے میں بھی اس کی شہرت بحیثیت کرکٹر تھی۔ کرکٹ ٹیم میں کسی کے پاس کرکٹ کا سامان تو دور کی بات گیند تک نہ تھی۔
میچ ہوتا تو کرکٹ کا سارا سامان سلیم مرزا لاتا اور وہ اکلوتا پلیئر تھا جو کرکٹر کے ڈریس میں ہوتا۔ اس نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی بہت سی دولت بھٹو صاحب کے ہم نوائوں میں لٹائی۔ سلیم علوی میرے خوش اطوار اور خوش شکل دوستوںاور ہم جماعتوں میں سے ہے جس نے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے بعد دو ممالک میں تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد پاکستان واپس آ کر تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور اب تک قائم ہے۔ ڈاکٹر صوفی منیر نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُستاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ شفقت بخاری اورعبدل معتی بخاری ہر دو نے بینک کی ملازمت شروع کی۔
شفقت کی پوسٹنگ بیرو نِ ملک بھی رہی لیکن معتی بخاری نے پاکستان ہی میں ملازمت کی لیکن یہ ہر دو اسکول فیلو اعلیٰ ترین بینکنگ کے عہدوں پر رہے۔ ہمارا کلاس فیلو امداد اے جی آفس میں ملازمت کرتا رہا۔ یہ محنتی اور مخلص دوستوں میں شمار ہوتا ہے۔ حسام الدین اسکول اور کالج کے بعد فوج میں کمیشن لے کر ترقی کرتے ہوئے کرنل کے عہدے پر تھا جب مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد POW ہو گیا لیکن پھر لاہور آ کر امریکن قونصلیٹ میں اعلیٰ سیکیورٹی عہدے پر کام کرتا رہا۔