کیا ہمارا حافظہ بھی کمزور ہو گیا ہے

بات بڑی سیدھی ہے کہ کشمیر پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ہمیں دنیا کی پروا کیے بغیر بھارت کو للکارنا چاہیے۔


Abdul Qadir Hassan December 05, 2019
[email protected]

لاہور: دلوں کا حال خدا جانتا ہے ۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کے دل کا کیا حال ہے وہ کشمیر پر کیا کرنے والے ہیں ان کے ارادے کیا ہیں لیکن جس طرح ان کو اپوزیشن نے ملک کے سیاسی معاملات میں الجھا دیا ہے محسوس یوں ہوتا ہے کہ کشمیری بھائیوں کو بھارتی درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

ہم پاکستانیوں کو تو صرف اتنا معلوم ہے اور ہر فیصلہ کن موقع پر اس کی تصدیق ہوتی رہتی ہے کہ دنیا میں صرف دو قومیں آباد ہیں ایک مسلم دوسری غیر مسلم۔ غیر مسلموں میں عیسائی، یہودی اور ہندو سب شامل ہیں اور یہ سب کے سب مسلمانوں کے دشمن ہیں اور مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور بھی ہیں۔ ان سب نے مسلمانوں کے خلاف گٹھ جوڑ قائم کر رکھا ہے جس کا اظہار وہ مختلف مواقعے پر کرتے رہتے ہیں۔

اس کا ایک کھلم کھلا اظہار کشمیر میں جاری بھارتی بربریت کے موقع پر ہوا ہے اور جس طرح ہوا ہے وہ ساری دنیا کو معلوم ہے۔ دنیا میں اگر کہیں پر انسانی حقوق کی معمولی خلاف ورزی بھی ہو تو یہ غیر مسلم اس پر سراپا احتجاج بن جاتے ہیں لیکن کشمیر میں بھارتی جارحیت پر چند ایک رسمی بیانات کے بعد وہ خاموش ہیں بلکہ اندرخانے وہ بھارت کی حمایت کر رہے ہیں ۔

مذہبی بنیادوں پر دنیا کی یہ تقسیم آج کی بات نہیں ہے یہ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی جو رفتہ رفتہ بڑھتی گئی تاآنکہ صلیبی جنگوں نے اسے بڑی شدت کے ساتھ ایک ٹھوس حقیقت بنا دیا۔ مسلمان تو ان صلیبی جنگوں کو بھول چکے ہیں مگر عیسائی ہرگز نہیں بھولے اور آج کے گئے گزرے مسلمان بھی ان کے دل میں کھٹکتے رہتے ہیں ۔

مغربی دنیا کی ایک خالص فوجی تنظیم نیٹو جو روس کے مقابلے کے لیے قائم کی گئی تھی جب سوویت یونین ختم ہوا تو سوال پیدا ہوا کہ اب نیٹو کی ضرورت نہیں رہی اسے ختم کر دینا چاہیے ۔ اس کے مقابلے کا وارسا پیکٹ خود بخود ختم ہو چکا تھا لیکن اس وقت کے نیٹو کے سیکریڑی جنرل نے ایک موقع پر اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ سوویت یونین ختم ہو گیا ہے مگر اسلام موجود ہے ۔ اس جواب سے غیر مسلموں کی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے ۔

فوجی قوت سے محروم مسلمانوں کے لیے نیٹو جیسی فوجی طاقت ور تنظیم کا جواز ایک حیرت کی بات تھی لیکن اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلم دنیا کو اسلحہ کے زور پر بھی دبا کر رکھا جائے گا اور اس پر مسلسل ضربیں لگائی جاتی رہیں گی ۔ اس پس منظر میں اگر ایک مسلمان ملک کا ایٹم بم دیکھیں تو ان غیر مسلم طاقتوں کی طرف سے ایک مسلمان ملک کی مخالفت سمجھ میں آتی ہے ۔ ان کے لیے کسی اسلامی بم کو برداشت کرنا ممکن نہیں ۔ انھوں نے پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت کو پاکستان کے ایٹم بم پر لگا دیا ہے کہ اس کے اثرات اور ثمرات کو زندہ نہ رہنے دو۔

بھارت پاکستان کے لیے تو موثر خطرہ ہے ہی لیکن چین کے لیے بھی اسے خطرہ بنانے کے لیے اس کی طاقت میں مسلسل اضافہ کیا جاتا ہے۔ مغربی دنیا کی طرف سے بھارت کو اقتصادی اور فوجی اعتبار سے ایک بہت بڑا ملک بنانے میں اس سے بھر پور تعاون کیا جاتا ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ عرب مسلمان تو اسرائیل سے شکست کھا گئے لیکن پاکستان کے عجمی مسلمان بھارت کے ہندو سے شکست کھانے پر تیار نہیں ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ صرف پاکستان کے نہیں برصغیر کے مسلمانوں کے لیڈر تھے لیکن قدرت نے اس خطے کے مسلمانوں کو اس لیڈر سے محروم کر دیا ۔ اس متحدہ قیادت کی وحدت ختم ہونے کے بعد اس خطے کے مسلمان بکھر گئے کیونکہ انھیں محمد علی جناح کی متبادل قیادت نہ مل سکی۔

مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔ بھارت میں آباد مسلمان پاکستان سے مایوس ہو کر جان بچانے کے لیے بھارت میں ضم ہونے کی کوششوں میں لگ گئے لیکن اس کے باوجود کشمیریوں کو کہیں سے روشنی کی کوئی کرن دکھائی دے گئی تو وہ اپنا الگ وجود تسلیم کرانے کے لیے جنگ پر آمادہ ہو گئے۔ ہندوؤں کے خلاف مٹھی بھر کشمیریوں کا جہاد تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔

ایسی تحریکیں بالعموم کسی بیرونی طاقت کے تعاون سے چلتی ہیں لیکن عالمی طاقتوں کے دباؤ میں پھنسے پاکستان جیسے ملک کی برائے نام مدد کشمیریوں کے لیے کوئی خاص مدد نہیں تھی۔ اس کے باوجود ان کا کئی دہائیوں سے جاری جہاد اور وہ بھی ایک باقاعدہ فوج کے خلاف ایک عظیم اور انوکھا کارنامہ ہے ۔

ایمانی قوت کا ایک حیران کن مظاہرہ بلکہ معجزہ کہ آج اگر کوئی بھارت سے مرعوب ہے تو اسے کشمیریوں کو دیکھنا چاہیے جن کے گھر پر ہر وقت بم برس رہے ہیں نہ کچھ کھانے کو ہے نہ کچھ جسم چھپانے کو نہ جان محفوظ ہے نہ گھر کی عصمت لیکن پھر بھی وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کے دل ہندو کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کے دماغ ہندو سامراج کی بد بو سے پھٹے جا رہے ہیں۔

اگر کشمیری جو پاکستانیوں کے مقابلے میں زندگی کی کوئی آسودگی اور تحفظ نہیں رکھتے جو کسی بھی اعتبار سے پاکستانیوں کے مقابلے میں کسی مادی طاقت سے بہرہ مند نہیں ہیں۔ اگر بھارت کے خلاف جنگ جاری رکھ سکتے ہیں اور بھارت کو زچ کر سکتے ہیں تو ان کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایٹم بم والے پاکستانی اپنے ان قریب ترین پڑوسی مسلمان بھائیوں سے کچھ غیرت اورایمان کی کوئی رتی مانگ لیں اور ہندو سامراج کے سامنے ڈٹ جائیں ۔

بات بڑی سیدھی ہے کہ کشمیر پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ہمیں دنیا کی پروا کیے بغیر بھارت کو للکارنا چاہیے۔نہتے کشمیری بھائیوں کو عملاً مدد کی ضرورت ہے، بیان بازی بہت ہو چکی ۔ عمران خان ملکی گورکھ دھندوں سے نکل کر کشمیریوں کے حقیقی سفیر کا کردار ادا کریں۔ ہم مسلمان ہندو کے مقابلے میں جذبہ جہاد سے سرشار ہیں ۔

اس وقت کشمیریوں کو کسی ایسے ہی جذبے کی ضرورت ہے جو بھارت کے خوابوں کو پریشان کر دے اور ایسا ہونا ممکن ہے ۔ قائد اعظم نے کشمیر پر حملہ کر دیا تھا ، کمزور لیاقت علی خان نے مکہ دکھادیا اور عام سی فوجی طاقت رکھنے والے ضیاء الحق شہید نے سوویت یونین جیسی بے رحم سپر پاور کو افغانستان میں للکار کر پاکستان کی طرف اس کی پیش قدمی کو نہ صر ف چیلنج کیا بلکہ اس کی طاقت کا شیرازہ بکھیر دیا ۔ یہ سب ہماری اپنی تاریخ ہے۔ کیا دلوں کے ساتھ ہمارا حافظہ بھی کمزور ہو گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں