خماریہ مشاعرے
اچھی بات یہ ہے کہ اب بھی ان تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی ذہنی اور ذوقی تربیت کے لیے ایسی تقاریب کا انعقاد کیا جاتاہے۔
اس ترکیب یعنی ''خماریہ مشاعرے'' کی غرابت پر نہ جایئے کہ یوں تو ہمارے یہاں ''خماریہ'' مشاعروں کا بھی چلن موجود اور رائج ہے لیکن یہاں اس کی غرض و غایت اور نوعیت قدرے مختلف ہے، ہوا یوں کہ برادرم ضیغم مغیرہ کے اوّلین شعری مجموعے ''خمار''کی تعارفی تقریب میں مجھے پھالیہ جانا تھا۔
جس کا وعدہ وہ مجھ سے ''الخدمت'' والے برادرم میاں عبدالشکور کی معرفت بہت پہلے سے لے چکے تھے لیکن اتفاق سے کپ کے ہونٹوں تک پہنچے سے قبل دو نئی کمٹ منٹس بھی درمیان میں آگئیں۔جدید اُردو فکشن کے ایک بہت اہم اور بڑے نام اور ہماری پرانی ساتھی ادیبہ ڈاکٹر طاہرہ اقبال نے فرمائش کی کہ اگر آپ تھوڑی سی تکلیف کرکے فیصل آباد سے بھی ہوتے جائیں تو وہ اپنی یونیورسٹی میں ایک شعری نشست کا اہتمام کرلیں۔
ابھی اس ایڈجسٹمنٹ کے امکانات پر بات چل ہی رہی تھی کہ اسلام آباد سے برادرم احمد جلال کا فون آگیا کہ پی ٹی سی ایل کے جس سالانہ مشاعرے کے سلسلے میں انھوں نے بات کی تھی اس کی حتمی تاریخ 27 نومبر طے ہوگئی ہے، سو بات ''ہے ایک تیر جس میں 'تینوں' چھدے پڑے ہیں'' کی شکل اختیار کرگئی ہے اور یوں ''خمار'' کی افتتاحی تقریب ان دو مشاعروں کے ساتھ مل کر اس نئی ترکیب کا باعث بنی جو بالآخر اس کالم کے عنوان میں ڈھل گئی ہے ۔
ان تینوں تقریبات کی مرکزی شخصیات اور ان کے حوالے سے متعلقہ اداروں کا ذکر ضرور ی ہے کہ فی زمانہ ادب اور کتاب سے دُوری کی وجہ سے ایسی تقریبات کم اور ان کے معیاری سامعین مزید کم ہوتے چلے جارہے ہیں اور ان کا ذکر بھی ایک بھولے ہوئے کارِ خیر کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ ضیغم مغیرہ سے تعارف تو بہت پرانا ہے۔ چند برس قبل ان کے ساتھ یورپ کا ایک سفر بھی کرنے کا موقع ملا لیکن اس سارے عرصے میں اپنے مشاعروں کو انھوں نے تقریباً چھپا کر ہی رکھا۔
تفصیل اس احوال کی یہ ہے کہ سفرِ یورپ سے قبل وہ میری شاعری کے ایک خاموش اور گمنام قاری اور سامع تھے کہ اُن سے جتنی بھی ملاقاتیں اس دوران میں ہوئیں وہ سلام دعا سے آگے نہ بڑھ سکیں کہ ہم دونوں بالترتیب اپنے اپنے حجاب اور ہجوم میں گھرے ہوتے تھے۔
چند برس قبل جب 'الخدمت'کے موجودہ اور الفلاح اسکالر شپ پروگرام اور پنجاب یونیورسٹی یونین کے سابقہ صدر میاں عبدالشکور کے ساتھ یورپ میں تعلیم اور خدمتِ خلق کے حوالے سے چیریٹی مشاعروں کا پروگرام بنا تو ضیغم مغیرہ بھی اُن کے ساتھ میرے اور انور مسعود کے ہم سفر رہے جماعتِ اسلامی سے اپنے قدیمی اور تعلیم و تدریس کے ساتھ اپنے حالیہ تعلق کے باعث وہ ایک دیندار اور سنجیدہ فکر انسان تو تھے ہی مگر سب سے زیادہ متاثر کن بات اُن کی سادگی، خوش مزاجی اور خدمت گزاری کا جذبہ تھے۔
اسٹیج عزیزی مظہر دانش اور آغر سلیم کے سپرد تھا مگر ضیغم مغیرہ سے محبت کے اظہار میں زیادہ تر کچھ غیر سرکاری دوست ہی مختلف طرح کے اعلانات کرتے رہے کتاب پر کچھ مضامین پڑھے گئے اور کچھ مقامی گلوکاروں نے ضیغم مغیرہ کی شاعری ساز و آواز کے ساتھ بھی سنائی مگر ہجوم کی کثرت اسٹیج پر ضرورت سے زیادہ بھیڑ اور آڈیو سسٹم کے مسائل کی وجہ سے زیادہ تر باتیں یقین اور گمان کے درمیان میں معلق رہیں البتہ ضیغم مغیرہ کی خوشی شروع سے آخر تک اُن کے چہرے اور باتوں سے جھلکتی رہی اُن کی جس غزل کے اشعار کا ذکر بار بار ہوا اس کا نمونہ کچھ یوں ہے کہ
وہ جو چاند رات کی آرزو کا خمار تھا وہ نہیں رہا
مجھے کل تلک وہ جو انتظارِ بہار تھا وہ نہیں رہا
مجھے آگہی نے سخن وروں کی حکایتوں سے بچا لیا
میں جو رہبروں کی محبتوں کا شکار تھا وہ نہیں رہا
یہ تو میں بتانا بھول ہی گیا کہ اس سفر میں میرا ہم سفر برادر عزیز اور ہمارے بعد کی نسل کا ایک بہت سر بر آوردہ اورصاحبِ طرز شاعر شوکت فہمی تھا اور یہ سفر بھی اُس کی گاڑی میں ہوا ۔ شوکت پچیس برس امریکا میں گزارنے کے بعد چند برس قبل ہی پاکستان واپس آیا ہے اور اس کا شمار اُن منتخب لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں نہ صرف اپنے اس فیصلے پر اطمینان ہے بلکہ جنہوں نے زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے یہاں اپنی زندگی کو ہر اعتبار سے کامیاب اور منظم کیا ہے وہ آبائی طور پر فیصل آبادی ہے اور اُس کی راستوں کے بارے میں یاد داشت بھی مثالی ہے سو سارا سفر بہت آسانی اور مزے میں کٹا ۔
فیصل آباد یونیورسٹی برائے خواتین کچھ عرصہ قبل تک مدینہ ٹاؤن کالج کہلاتی تھی گزشتہ تیس برس میں وہاں اور کارخانہ بازار گرلز کالج میں مشاعرے پڑھنے کا بارہا اتفاق ہوا ہے یہاں طاہرہ اقبال کے ساتھ ساتھ پروفیسر ماہِ انجم، پروفیسر عنبرین رفیق اور ڈاکٹر شاہدہ یوسف سے بھی ایک بار پھر ملاقات ہوئی اور اس موضوع پر بہت دیر گفتگو رہی کہ وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے ابھی کل ہی کی بات ہے کہ یہ خواتین طالب علمی یا نئی نئی لیکچرر شپ کے مراحل میں تھیں اور اب سب کی سب ریٹائرمنٹ کے آس پاس ہیں ۔
اچھی بات یہ ہے کہ اب بھی ان تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی ذہنی اور ذوقی تربیت کے لیے ایسی تقاریب کا انعقاد کیا جاتاہے جن سے ہمارے مستقبل کے قومی اور سماجی رویوں کو متعین ہونا ہے اسی منظر کی ایک اورخوش آیند کڑی گزشتہ روز پی ٹی سی ایل کا تیسر ا سالانہ مشاعرہ تھا جس کا کریڈٹ یوں تو سارے ادارے کو جاتا ہے مگر اس کے پسِ پشت جو سینئر افسران زیادہ متحرک اور پرجوش تھے اُن میں سید مظہر حسین، احمد جلال اور محترمہ شازیہ کا نام لینا ضروری ہے کہ یہ انھی لوگوں کی کوشش اور محنت ہے کہ گزشتہ دو برس سے یہ مشاعرہ باقاعدگی اور اہتمام سے ہو رہا تھا اور اب تیسرے برس بھی اس خوبصورت روایت کو قائم رکھا گیا ہے۔
بدقسمتی سے اس باراحمد جلال اپنے دل کے فوری علاج کی وجہ سے اس تقریب میں شامل نہ ہو سکے لیکن اُن کی بقول نیٹ پر وہ لمحہ لمحہ اس کے ساتھ اور اس میں شامل رہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے صنعتی و تجارتی ادارے اور شعبے اس طرف مزید اور مسلسل توجہ دیں کہ ادب اور فنونِ لطیفہ کی سر پرستی کے بغیر کوئی بھی مشاعرہ اپنی روایات اور احکامات کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرسکتا اور بلاشبہ ہمارے معاشرے میں ٹیلنٹ کی کمی نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔