گیم آن ہے
موجودہ حکومت کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار مولانا نے تحریک انصاف کے عنان اقتدار سنبھالنے سے پہلے کر دیا تھا۔
ناقدین کا خیال ہے مولانافضل الرحمٰن کا آزادی مارچ فلاپ شو تھا، وہ خالی ہاتھ آئے اور خالی جھولی ہی واپس لوٹ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تعصب کی عینک نہ اتاری جائے تو پھر ذہن ایسی ہی درفنطنیوں کا ''پروڈکشن ہاؤس'' بن جاتا ہے۔ مولانافضل الرحمٰن قومی سیاست میں ایک عرصہ سے متحرک ہیں، ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام سیاسی منظر نامے میں ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔
مولانا کے سیاسی ویژن کے اپنے ہی نہیں اغیار بھی معترف ہیں۔ یہ بات مبالغہ آرائی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے کہ اس وقت پاکستان کے سیاسی افق پر مولانا فضل الرحمٰن سے زیادہ زیرک، مدبر اور دور اندیش سیاستدان دکھائی نہیں دے رہا۔ 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سب سے پہلی اور زوردار آواز مولانا فضل الرحمٰن کی سنائی دی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے یہ راہ بعد میں اختیار کی۔ مولانا جو بھی قدم اٹھاتے ہیں نہایت سوچ بچار کے بعد اٹھاتے ہیں اور نتائج سے باخبر ہوتے ہیں، وہ ہوا میں تیر چلانے کے عادی نہیں اس لیے یہ بات ٹھنڈے پیٹ ہضم نہیں ہو پا رہی کہ مولانا خالی ہاتھ واپس لوٹ گئے۔ اس لیے حقیقت حال تک پہنچنے کے لیے باریک بینی سے مشاہدہ ناگزیر ہے۔
موجودہ حکومت کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار مولانا نے تحریک انصاف کے عنان اقتدار سنبھالنے سے پہلے کر دیا تھا ، قوم آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ حکومت کی ڈیڑھ سال کی کارگزاری،سیاسی واقتصادی پالیسیوں، معاشی اشاروں اورگورننس کی صورتحال نے یہ بات طور روز روشن کی طرح عیاں کردی ہے کہ موجودہ حکمران نالائق ہی نہیں،بلکہ انتہائی لاپرواہ بھی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے تحفظات اور خدشات ایک ایک کر کے درست ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
مولانا دھرنوں کی سیاست کے قائل نہ تھے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تحریک انصاف کے دھرنے کی شدید مخالفت کی تھی لیکن حالات کے جبر نے انھیں بھی دھرنا دینے پر مجبور کردیا۔ ناقدین کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مولانا کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا ، اس لیے انھوں نے آزادی مارچ کے ذریعے صرف پایا ہی پایا ہے۔ عمران خان کے دھرنے اور مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
مولانا کا آزادی مارچ اور دھرنا پرامن تھا۔ دھرنے کے اسٹیج سے ہر لمحہ قال اللہ و قال رسول کی صدائیں بلند ہوتی رہیں ، کوئی ناچ گانا تھا نہ کسی بیہودہ پروگرام کا لالچ ، پھر بھی لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہر وقت موجود رہے۔
کراچی سے لے کر اسلام آباد تک لاکھوں افراد سڑکوں پر نظر آئے اور اسلام آباد میں آکر دھرنا دیے بیٹھے رہے ، کہیں کوئی سڑک بند ہوئی نہ کوئی پرتشدد واقعہ پیش آیا ، کوئی پتا گرا نہ گملا ٹوٹا ، سر دست تو مولانا عمران خان کا استعفیٰ نہیں لے کر گئے لیکن بہت سارے سیاسی اہداف حاصل کر لیے۔
اگر یہ ثابت ہے کہ آزادی مارچ میںشرکاء کی تعدادپی ٹی آئی کے دھرنے سے کئی گنا زیادہ تھی تو جمعیت علماء اسلام کے ووٹوں کی تعداد کس طرح کم ہو گئی اور پی ٹی آئی کو ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹ کیسے مل گئے؟ بیشک مولانا کی جماعت کے ووٹوں کی تعداد تحریک انصاف کے برابر نہ ہوتی لیکن اتنا زیادہ فرق یہ بات ثابت کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی تھی۔
مولاناکو دھرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ جو بات وہ الیکشن کے فوری بعد 27جولائی 2018ء کو کر رہے تھے، جب کہ اُ س وقت ان کی بات کوئی سننے کو تیار نہ تھا لیکن لمحہ موجود میں وہ اپنی بات ارباب اختیار و اقتدار کو منوانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں ، مولانا پُراعتماد ہیںکہ وہ اپنے اہداف مستقبل قریب میں حاصل کر لیں گے اور بہت جلدناصرف وزیر اعظم بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ بھی ہو جائے گا، اور منصفانہ الیکشن کے بعد اقتدار عوام کے حقیقی نمایندوں کو ہی سپرد ہو گا۔ جب مولاناسے پوچھا گیا کہ آپ کے اعتماد کی وجہ، تو مولانا نے پُراعتماد جواب دیا کے اللہ ہی کی ذات ۔ مولانا اس بات کا بھی برملا اظہار کررہے ہیں کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو وہ مزید سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
مولانا کے آزادی مارچ کا ایک بڑا فائدہ جہاں ان کی اپنی جماعت کو پہنچا کہ وہ سیاسی طور پر منظم ہوگئی وہاں ایک بڑا فائدہ ملک بھر کی دینی قوتوں، مدارس دینیہ اور دیندار طبقے کو پہنچا۔ نائن الیون کے بعد مشرف حکومت جس طرح ایک فون کال پر امریکا کے آگے ڈھیر ہوئی اور ملک کو امریکی پالیسیوں کے تابع چلانا شروع کردیا اس سے دینی قوتوں، مدارس اور دیندار طبقے کو دیوار کے ساتھ لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔
مدارس دینیہ کو برملا دہشت گردی کے اڈے اور علماء و دین سے محبت رکھنے والوں کو دہشت گرد کہا جانے لگا، اس وقت سے اب تک ایک تسلسل کے ساتھ یہ منفی پروپیگنڈا دینی قوتوں، مدارس اور دیندار لوگوں کا امیج خراب کرتا چلا آرہا تھا ، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مولوی لفظ کو گالی بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی، مولانا کے آزادی مارچ نے ناصرف اس منفی پروپیگنڈے کے سامنے بند باندھا بلکہ دینی قوتوں اور مدارس کو ایک نیا ولولہ و جوش دیا، بلکہ انھیں نئی تحریک سے آشنا کردیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں محب وطن ہیں اور ان کے کارکن مسلمان ہیںلیکن جس طرح اس ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مذہب کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں ہوتی رہیں، اس سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ مولانا کا یہ پوری امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے لاکھوں لوگوں کامنظم اور پرامن مارچ کرکے دینی قوتوں پر سے یہ دھبہ دھودیا۔
جے یو آئی کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام پر جس طرح دہشت گرد تنظیم کا لیبل لگانے کی کوشش کی گئی، آزادی مارچ میں انصار الاسلام کے نظم و ضبط نے اس الزام کو بھی دھو ڈالا۔
مولانا نے جب بھی کسی کی مخالفت کی ہے اس مخالفت میں اخلاقی گراوٹ کا کبھی مظاہرہ نظر نہیں آیا، ان کی مخالفت میں بھی باعمل عالم دین اور قومی لیڈر کے وقار کی جھلک نمایاں رہی ، مولانا کی اس خوبی نے سب کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کے ساتھ اس احتجاجی تحریک میں صرف جے یو آئی کے کارکن شامل نہیں تھے بلکہ پاکستان کی تمام دینی جماعتوں، مسالک اور مدارس کے لوگ بھی شامل تھے۔ اس دھرنے کی ایک بڑی کامیابی اسلام پسندوں اور لبرلز کے درمیان موجود دوریوں کو کم کرنا بھی ہے۔ مولانا کے آزادی مارچ میں بلاول بھٹو، اسفند یار ولی اور محمود اچکزئی جیسے لبرل ازم کے علمبردار بھی مولانا کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا قطعی طور پر غلط نہ ہوگا کہ مولانا کی قیادت و سیادت میں تمام مذہبی ولبرل قوتیں ایک پیج پر متحد تھیں۔
ناقدین جے یو آئی کو دو صوبوں کی جماعت قرار دیتے تھے لیکن آزادی مارچ نے اس لیبل کو بھی اتار کر پھینک دیا اور یہ بات سچ ثابت کردکھائی کہ جے یو آئی صرف خیبرپختونخوا یا بلوچستان تک محدود نہیں بلکہ ملک کے چپے چپے میں مولانا کے فالورز کی بڑی تعداد موجود ہے۔
مولانا کا آزادی مارچ اور دھرنا گو کہ اب ختم ہوچکا ہے لیکن یہ بات کھلے دل سے تسلیم کرنی چاہیے کہ اس تحریک سے مولانا کے سیاسی قد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، ان کی جماعت چاروں صوبوں کی وفاقی جماعت بن کر سامنے آئی ہے، اس تحریک نے جے یو آئی کا جثہ بڑھا دیا ہے اور آنے والے انتخابات کے بعد جو سیاسی سیٹ اپ بنے گا اسے اس بڑھے ہوئے جثے کے مطابق حصہ ملے گا۔ ناقدین اگر تعصب کی عینک نہیں اتارنا چاہتے تونہ اتاریں لیکن یہ بات انھیں یاد رکھنی چاہیے کہ دھرنا ختم ہونے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ گیم بھی ختم ہوچکی ہے۔مولانا کا دھرنا کوئی ہاکی میچ نہیں تھا کہ گول ہوا یا نہیں ، وقت ختم ہونے پر میچ بھی ختم ہوگیا۔ مولانا کا احتجاج اب باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے اور ابھی گیم آن ہے۔