ٹھنڈ سے کانپتی کیمپوں کی زندگی
شامی اور عراقی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اس وقت لبنان، اردن اور مصر میں پناہ گزیں ہے۔
سنا ہے سرد موسم کے تھپیڑوں سے بچنے کے لیے پرندے بھی ہجرت کرجاتے ہیں اور موسم کی سختی سے بچنے کے لیے نسبتاً گرم علاقوں میں ایستادہ درختوں کی شاخوں اور پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا کر سکون سے موسم گرما کا انتظارکرتے ہیں لیکن مہاجرین کا شمار انسانوں کے اس قبیلے سے ہے جنکی آزادی کہیں سلب اورکہیں گروی رکھی جا چکی ہے۔
رہائی کے انتظار میں یہ خیمے نما پنجروں میں جانوروں کی طرح قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے لیے ان کے پاس یہ اختیار بھی نہیں کہ پرندوں کی طرح ہجرت ہی کر جائیں۔ بے بسی اور لاچاری کی یہ زندگی اس وقت مختلف کیمپوں میں موجود لاکھوں مہاجرین بسر کر رہے ہیں ، ان میں رنگ ، نسل ، مذہب ، جنس اور عمر کی کوئی تخصیص نہیں۔ ہجرت یوں تو ایک بھیانک تصور ہی ہے، لیکن موسمِ سرما کی آمد کے ساتھ یہ مزید خطرناک روپ دھار لیتا ہے۔
میرے سامنے اس وقت دنیا کے بڑے بڑے مہاجرکیمپوں کی مختلف تصاویر ہیں۔ موسمِ سرما یہاں اپنے پَر مکمل کھول چکا ہے۔ میں نے لاکھ چاہا کہ ان تصویروں میں دسمبرکے وہ رنگ ڈھونڈ سکوں جو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ہمارے چہروں پر بکھر جاتے ہیں لیکن تصاویر میں یہ رنگ عنقا ہیں۔ یہ تصویریں عکاسی کر رہی ہیں موسم کی شدت کی، انسان کی بے بسی اور عالمی بے حسی کی۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں عرصہ دراز سے دنیا کے بیشتر حصوں میں واقع ان مہاجرکیمپوں کو مختلف مسائل کی وجہ سے بند کرنے پر زور دیتی رہی ہیں۔ لیکن ان کی پکار پرکوئی کان دھرنے کو تیار نہیں۔ صفائی کے ناقص انتظامات ، خوراک کی کمی ، وبائی امراض کا پھوٹنا ، غلامی ، انسانی اسمگلنگ ، ریپ اور بے شمار بڑے انسانی مسائل سے یہ کیمپ بھرے پڑے ہیں۔ بوسنیا میں اس وقت پارہ ناقابلِ برداشت حد تک گر چکا ہے۔
جب سے ہنگری ، کروشیا اور سلووینا نے اپنی سرحدیں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے مہاجرین کے لیے بندکی ہیں۔ اس وقت سے بوسنیا پر مہاجرین کا دباؤ بڑھ چکا ہے۔ 2018ء سے اب تک چالیس ہزار سے زائد مہاجرین بوسنیا میں داخل ہو چکے ہیں ، جن میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
بوسنیا کے حکام اب تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکے کہ ان مہاجرین کو آخر بسایا کہاں جائے۔ یہ مہاجرین جنگلات میں لگائے گئے ٹینٹ میں ٹھونس دیے گئے ہیں ، جہاں یخ بستہ بلقانی ہوائیں انھیں لمحے بھرکو چین سے سونے بھی نہیں دیتیں۔ یہ کیمپ بلاشبہ انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں۔ ریڈکراس کی جانب سے یہاں پہنچنے والی خوراک اس قدر ناکافی ہوتی ہے کہ چھینا جھپٹی کے دوران آئے دن مہاجرین آپس میں بھڑتے اور زخمی ہوتے ہیں۔ ان مہاجرین میں پاکستانیوں کی بھی تعداد اچھی خاصی ہے۔ یہاں سے کئی مہاجرین سرحد پارکرکے کروشیا میں داخل ہونے کی کوشش میں پکڑے اور واپس بوسنیا کی طرف دھکیل دیے گئے ہیں۔
مہاجرین یہاں سے فرار چاہتے ہیں، لیکن ان کے پاس کوئی محفوظ راستہ نہیں۔ اس وقت برف باری اپنے عروج پر ہے جس نے مہاجرین کی زندگی اور بقا کے لیے اندیشے مزید گہرے کر دیے ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے اور امدادی ٹیمیں اندیشہ ظاہر کر رہی ہیں کہ اگر موسمِ سرما میں یہاں سے مہاجرین کوکسی محفوظ مقام پر منتقل نہیں کیا گیا تو ہلاکتیں پچھلے سال کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ بوسنیا کی کل آبادی ساڑھے تین ملین ہے اور یہاں مہاجرین کی تعداد فقط سات ہزار ہے۔ ایسے میں مہاجرین کی رہائش کے بہتر انتظامات بظاہر کوئی اتنا بڑا مسئلہ تو نہیں لیکن بوسنیا کے اس کیمپ میں پھنسے سات ہزار مہاجرین موجودہ دور کی وہ بدترین مخلوق ہیں جن پر نظر ڈالنے کو پوری دنیا میں کوئی تیار نہیں۔
یونان میں واقع موریا مہاجرکیمپ یورپ کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ ہے۔ اس کو زمین پر دہکتا جہنم بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں اکتوبر کے اولین دنوں میں مزید مہاجرین ٹھونسے گئے جس کے بعد تعداد بڑھ کر ساڑھے تیرہ ہزار تک جا پہنچی ہے۔ پچھلے سالوں کی نسبت اس سال یہاں مہاجرین کا دباؤ سب سے زیادہ ہے۔ حشرات الارض کی بھرمار، سیوریج کے پانی سے کیمپوں کا آلودہ رہنا، غذا اور پانی کی قلت وہ بڑے عذاب ہیں جنہوں نے مہاجرین کی صرف جسمانی صحت ہی نہیں بلکہ ذہنی صحت کو بھی بہت زیادہ متاثر کر دیا ہے، جس کی وجہ سے روز روز کے جھگڑے یہاں عام ہوچکے ہیں اور مہاجرین میں خود کشی کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
موسم سرما سے نمٹنے کا ہر سال کی طرح اس سال بھی کوئی انتظام نہیں۔ ٹینٹ مہاجرین کے لیے ایک لگژری اور عیاشی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ مہاجرین جن میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے رفتہ رفتہ موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عراق سے آئے ایک مہاجر کا کہنا ہے کہ کیمپ کی یہ زندگی ان کے لیے عراق میں گزاری گئی زندگی سے زیادہ بد تر ہے، اس کا کہنا ہے کہ ہم مرنا نہیں چاہتے لیکن زندگی کے معاملے میں ایسے بے بس ہو چکے ہیں کہ واپس عراق گئے تو وہاں بھی مارے جائیں گے اور یہاں رہے تو یہاں بھی مارے جائیں گے۔ اس کے سوا ہمارا کوئی انجام نہیں۔
یونانی حکومت خود کو اس پوری صورت حال سے بے خبر ظاہر کر کے مہاجرین کی بقا اور بحالی کے تمام معاملات سے ہاتھ اٹھا چکی ہے۔ 2015ء سے اب تک یورپی یونین نے یونانی حکومت کو مہاجرین کے لیے ڈھائی بلین ڈالر کی خطیر رقم ادا کی ہے اس کے باوجود کوئی نہیں جو یونان کی حکومت سے سوال کرے کہ آخر اس رقم کا کیا کیا؟ مہاجرین دن بہ دن بدتر حال کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟ اور یونان کی نئی حکمت ِ عملی اس حوالے سے کیا ہے؟
یورپی یونین اور ترکی کے درمیان حالیہ ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں کیمپوں میں مہاجرین کی تعداد ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکی ہے، اس تعداد نے یہاں کے مسائل کو بھی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔
شامی مہاجرین موسمِ سرما کا یہ نواں سال دربدری میں کاٹ رہے ہیں۔ اس وقت عراق اور شام سے تعلق رکھنے والے تقریباً چار ملین مہاجرین مختلف کیمپوں میں زندگی کے لیے گڑگڑا رہے ہیں۔ یو این ایچ سی آر اور ریڈ کراس نے شام میں بے گھر ہونے والے اور مختلف ممالک میں پناہ لینے والے ساڑھے تین لاکھ اور عراق کے ساڑھے چھ لاکھ خاندانوں کو کمبل، ٹینٹ اور گرم کپڑے تو مہیا کر دیے ہیں لیکن ہر ذی عقل اس بات سے اتفا ق کرے گا کہ موسمِ سرما کی شدت سے بچنے کے لیے کیے جانے والے یہ اقدامات کسی بھی طرح انھیں موسم کی تلخی سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔
شامی اور عراقی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اس وقت لبنان، اردن اور مصر میں پناہ گزیں ہے۔ شامی مہاجرین کو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی مہاجر آبادی کہا جاتا ہے۔ ساڑھے پانچ ملین شامی اس وقت پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہیں اور چھ ملین سے اوپر شام کے اندر ہی بے گھر ہیں۔ کئی ملین لوگوں کو سردی سے بچانا اورکسی بھی امدادی ٹیم اور انسانی حقوق کے ادارے کے لیے ممکن نہیں۔ ان کو موسم کی شدت سے صرف اسی طور بچایا جا سکتا ہے جب امن قائم کر کے انھیں واپس گھروں کو لوٹا دیا جائے، تا کہ معمول کی زندگی گزارتے ہوئے یہ مہاجرین پہلے کی طرح اپنی گزر بسر اور موسم سے بچاؤ کے اقدامات خود کریں۔
پوری دنیا کا بالعموم اور مہاجرین کا المیہ بالخصوص امن و امان کے مکمل قیام کا محتاج ہے۔ دنیا کا امن تاراج کر کے آخر بڑی طاقتوں کو ملا کیا۔ انا کی تسکین اور محض اپنی طاقت کا اظہار۔ اس دھن میں باقی دنیا کا جو حال ہو ا وہ میں ان تصاویر میں کرب ناک آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں۔