قیام پاکستان سے قبل انگریز سرکار نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ہندوستان پر سو سال سے زائد حکومت کی۔ پاکستان میں ان کی حکومت کے آثار آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں، جنہیں دیکھ کر ہماری نئی نسلیں داد دیے بغیر نہیں رہتیں۔
ہمیں جب بھی ترقی کی کوئی مثال دینی ہوتی ہے تو ہم بات کرتے ہیں یورپ کی۔ اور خاص کر یورپ کے بارے میں تو ہمیں اتنا رٹایا گیا ہے جتنا شاعر مشرق کے بارے میں اسکول میں بھی نہیں رٹایا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان بھی اپنی ہر تقریر میں کبھی سوئٹزرلینڈ تو کبھی ہالینڈ، کبھی نیویارک، کبھی جرمنی کی بات کرتے نہیں تھکتے۔ قصہ مختصر یہ کہ وہ ہم سے آگے بڑھ چکے ہیں اور ہم آج بھی لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات وہ لوگ ہمیں بتاتے ہیں جنہوں نے ہم پر عرصہ دراز حکومتیں کی ہیں، صرف پارٹیوں کے نام تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ باقی چہرے تو آج بھی وہی پرانے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کبھی آمر کے جوتوں میں نظرآئے، تو کبھی جمہوریت کے لوٹے میں بیٹھے پائے گئے۔
پاکستان آج تمام تر شعبوں میں دنیا سے پیچھے رہ چکا ہے، مگر اس بات کو جمہوری منڈی کے چیمپئنز کبھی تسلیم نہیں کرتے۔ الٹا عوام کو بے وقوف بناکر ہمیں پرانی گھسی پٹی تقاریر نئے نئے انداز سے سنا دی جاتی ہیں۔ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو خزانہ خالی تھا۔ آج ہم نے خزانہ بھردیا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ خزانہ ہمیشہ سے خالی اور ان کے محل ہمیشہ سے بھرے ہوئے پائے گئے ہیں۔ کئی سیاستدانوں کی تجوریوں سے اربوں روپے برآمد کیے گئے اورپھر بعد میں ان ہی کے ساتھ سیٹلمنٹ کے نام پر عوام کو دھوکا دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد ان ہی چہروں کو پالش کرکے نئے ناموں کے ساتھ زبردست پبلسٹی کے ذریعے عوام میں بھیج دیا گیا۔ بیچارے عوام بھی اس دھوکے میں آجاتے ہیں کہ نئی پیکنگ میں مال بھی نیا ہوگا۔ مگر افسوس ہر مرتبہ صرف پیکنگ تبدیل کی جاتی ہے جب کہ اندر کا مال وہی کرپٹ ہوتا ہے۔
انگریزوں نے جب ہندوستان کا بٹوارہ کیا تو ایک حصے میں بھارت، دوسرے حصے میں پاکستان بنادیا گیا۔ بھارت کے حصے میں کیا آیا اور کیا نہیں آیا، یہ ہمارا موضوع نہیں۔ بلکہ پاکستان کے حصے میں کیا آیا، یہ ہماری توجہ کا مرکز ہے۔ قیام پاکستان کا جب اعلان ہوا تو اس وقت پاکستان کے پاس بہترین ریلوے نظام، بینکنگ سسٹم، روڈ اور بلڈنگ انفرااسٹرکچر، کشادہ سڑکیں، سرکلر ریلوے اور پانی کی منصفانہ تقسیم کا جدید سسٹم بطور تحفہ ملا۔ اس پر ہمیں کوئی کام کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ تاہم ہمیں چاہیے تو یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ان تمام تر نظاموں کو اپڈیٹ کیا جاتا۔ ان میں جدت لاکر دنیا کے سامنے کچھ نیا کرتے۔ ترقی یافتہ ممالک کی صفت میں شامل ہوکر دنیا کو بتا دیتے کہ ہم کسی سے کم نہیں۔ درحقیقت ایسا ہوا بھی تھا، ہم مالی پوزیشن میں بھارت اور بنگلادیش سے کئی گنا زیادہ بہتر تھے۔ چین اورسعودی عرب سے بھی مالی لحاظ سے کافی مضبوط تھے۔ لیکن یہ اس وقت تک رہا، جب تک جمہوریت کے نام پر لوٹ کھسوٹ نہ تھی۔
وقت کے ساتھ آبادی بڑھتی گئی اور پھر ایک وقت آیا جب انگریزوں کا تمامتر سسٹم ٹھپ ہوگیا۔ کیوں کہ ہم نے اس پر کوئی کام نہیں کیا تھا۔ جیسا چل رہا تھا، ویسے چلا رہے تھے۔ آخر بوسیدہ نظام کب تک نئی جدتوں کا ساتھ دیتا۔ اس لیے اسے تو تباہ ہونا ہی تھا۔ یہ ہماری بدقسمتی رہی کہ ہم نے اپنے اوپر ان لوگوں کو آنے دیا جو ذہنی طور پر بیمار تھے۔ انہی بیماروں نے جہاں ملک کو کمزور کیا، وہیں ہمیں بھی تباہی کے دہانے پر پہنچادیا۔ ان جمہوری چیمپئنز نے اپنے کاروبار کو تو عروج پر پہنچادیا مگر پاکستان کو ایسے دوراہے پر کھڑا کردیا جہاں وہ چاہ کر بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔
آج ہم کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ آج ہم مافیاز کے رحم وکرم پر ہیں۔ آج ہم بوسیدہ قانون کی ترمیم در ترمیم شدہ شقوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ گزرے وقتوں کا کمزور عدالتی نظام آج بھی ہم پرمسلط ہے۔ دنیا چاند سے آگے کی بات کرتی ہے اور ہم آج بھی اپنے گلی محلوں کی صفائی کا رونا روتے نظر آرہے ہیں۔ ہم کبھی الیکڑک مافیا کے سسٹم سے مررہے ہیں تو کہیں واٹر اینڈ سیوریج کا بوسیدہ نظام ہمیں نگل رہا ہے۔ تعلیم کے نام پر کاروبار کرنے والے ہمارے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ سرکار نے اپنی عیاشی کی خاطر گورنمنٹ نوکریاں اتنی پرکشش بنادی ہیں کہ ہر شخض صرف سرکاری نوکری ہی چاہتا ہے۔ جائز اور ناجائز طریقے سے حاصل کی جانے والی یہ نوکریاں ہمارے مستقبل کو مسلسل کھوکھلا کیے جارہی ہیں۔ زمینوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچانے والوں نے قبرستان تک کو نہیں چھوڑا۔ آج وہاں بھی ایک مافیا کا راج ہے جو سرکار کی پشت پناہی پر ہمیں روزانہ ڈس رہا ہے۔
سڑکوں کی حالت اتنی خراب ہوچکی ہے کہ اب ان پر گاڑی چلانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان خراب سڑکوں کا ہم سے ٹیکس وصول کرکے اپنی عیاشیوں کا سامان کیا جارہا ہے۔ کھانے پینے کی ملاوٹ شدہ اشیا پر بھی ہم ٹیکس دیتے ہیں۔ حکومت ہمیں خالص غذا تک فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے، لیکن محکمہ فوڈ موجود ہے جس میں ہزاروں افراد ہمارے ٹیکس سے ماہانہ تنخواہ وصول کرکے اپنے بچوں کو عیاشیاں کرارہے ہیں۔
ہم چاہ کر بھی ترقی نہیں کرسکتے۔ ہم میں اتنا بگاڑ پیدا کردیا گیا ہے کہ اب معاشی ترقی اور سی پیک کی کہانیاں سنا کر ہمیں آس وامید دلائی جارہی ہے، لیکن آج ہمارا دماغ صرف اس چیز کو تسلیم کرتا ہے کہ ہم بھی اس لوٹ کھسوٹ کا حصہ بن کر اپنے جیسوں کو لوٹیں اور اپنا گھربار دیکھیں۔ یہ کام زیادہ مشکل نہیں رہا۔ یہ سب کچھ جمہوریت کا حصہ بن چکا ہے۔ اس کام میں جمہوری لوگ بھی ہمارا کھل کر ساتھ دیں گے اور جب دو پیسے جیب میں ہوں گے تو قانون بھی آپ کا احترام کرتا نظر آئے گا۔ آپ جتنی لوٹ مار مچائیں گے آپ اتنے معزز ہوتے جائیں گے۔
اب نئے پاکستان کےلیے کچھ تجاویز ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں آپ کوئی غلط کام کیے بغیر ترقی کریں تو پھر پاکستان کو سو سال کےلیے انگریزوں کو بطور تحفہ قبضے میں دیے جانے کا کھل کر اعلان کریں۔ سو سال بعد آپ آزادی کی نئی تحریک شروع کریں۔ ایک پڑھا لکھا، باوقار اور ایماندار قائد آپ کو مل جائے گا۔ اس کی رہنمائی میں آپ اس آزادی کی تحریک کو پروان چڑھائیں اور تھوڑی بہت قربانیاں دے کر واپس پاکستان کو حاصل کریں۔ آپ یقین کریں جب انگریز آپ کو پاکستان دے کر واپس جا رہا ہوگا تو آپ کے تمام شعبوں میں جدت آچکی ہوگی۔ خراب سڑکیں کشادہ ہوچکی ہوں گی، جگہ جگہ بڑی عمارتوں کی جگہ آپ کو بہترین پارکس اور تفریحی مقامات نظر آئیں گے۔ آپ کے اسکولز اور یونیورسٹیز میں ایک ہی نصاب پڑھایا جارہا ہوگا۔ پرائیوٹ اسکولز ختم ہوچکے ہوں گے۔ ٹیوشنز کا نام ونشان بھی نہیں ہوگا۔ کرپشن زیرو پرسنٹ پر نہیں تو کم از کم نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔ ہر ادارے میں ہر شخص میرٹ پر نظرآئے گا۔
تمام بنیادوں پر کوٹہ سسٹم ختم ہوچکا ہوگا۔ فوری انصاف ملے گا اور قانون بھی آپ کا احترام کرتا ہوا نظر آئے گا۔ پانی اور سیوریج کا ایک جامع اور مکمل نظام آپ کے پاس ہوگا، جو کم از کم اگلے 200 سال تک کارآمد رہے گا۔ بجلی کا نظام بھی بہتر ہوجائے گا۔ لوڈشیڈنگ کا نام ونشان ختم ہوجائے گا۔ ملاوٹی اشیا کہیں نظر نہیں آئیں گی۔ ہر دکاندار آپ سے تمیز سے بات کرے گا۔ معیاری پبلک ٹرانسپورٹ آپ کو اپنے گلی محلوں میں میسر ہوگی۔ اپنا سیٹلائٹ نظام ہوگا اور پورے ملک میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہوگا۔
لیکن اس کےلیے ہمیں سو سال کی قربانی دینی ہوگی۔ اگر ایسا نہ کیا تو پھر 200 سال تک بھی ہم ان ہی مسائل کو روتے رہیں گے۔ ہم اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں، اوراس کےلیے ہمیں یہ قدم اٹھانا پڑے گا۔ ورنہ آنے والی سات نسلیں بھی ان ہی مسائل کو رو رو کر اس دنیا سے گزر جائیں گی، جس طرح آج ہم دنیا سے گزرنے والے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔