ہیروشیما کل اور آج
دنیا سے آنے والے سیاح جاپان کے دارلحکومت ٹوکیو کے بعد سب سے زیادہ ہیرو شیما کی سیاحت کرتے ہیں۔
AMSTERDAM:
کچھ عرصہ پہلے مجھے گرپس GRIPS یونیورسٹی جاپان کی طرف سے ایک دعوت نامہ ملا جس میں Conflict Reporting کے حوالے سے ایک سیمینار میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔میں نے جانے کا ارادہ کرلیا۔ جاپان میں قیام کے دوران میں نے تاریخی شہر ہیروشیما کا دورہ کیا۔
72 سال پہلے 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکا نے زندگی سے بھرپور اس شہر پر ایٹم بم گرایا اور اسے مقام عبرت بنا دیا۔جس کی یاد آج بھی نسل انسانی نہیں بھولی۔اس کی ہر سال یاد منائی جاتی ہے۔ امریکا کے B-29 بمبار طیارے سے گرائے جانے والے اس ایٹم بم سے چند لمحوں میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ہیروشیما پر بم گرانے کے تین دن بعد امریکا نے ایک اور جاپانی شہر ناگا ساکی پر بھی ایٹم بم گرایا جس سے لمحے بھر میں 80 ہزار سے زائد انسانوں کی ہلاکت ہوئی۔
ہیروشیما جاپان کا انتہائی پررونق شہر ہوا کرتا تھا۔ہیرو شیما اب ایک بالکل مختلف شہر ہے۔ دنیا سے آنے والے سیاح جاپان کے دارلحکومت ٹوکیو کے بعد سب سے زیادہ ہیرو شیما کی سیاحت کرتے ہیں۔ ٹوکیو سے بلٹ ٹرین کے ذریعے 980 کلو میٹر کی یہ مسافت تقریبا ًچار گھنٹے اور بیس منٹ میں طے ہوتی ہے۔ ہم بھی اسی ٹرین کے ذریعے Kyoto اور Osaka کے راستے ہیروشیما پہنچے۔ دو دریائوں کے کناروں پر بسا ہیروشیما ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔
یقین نہیں آتا کہ یہ شہر کبھی ایٹم بم سے تباہ بھی ہوا تھا۔ ریلوے اسٹیشن کے ساتھ سیاحوں کے لیے اعلیٰ اور اوسط درجوں کے ہوٹل اور ریسٹورنٹ ہیںجو سیاحوں سے بھرے رہتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن ہی سے سیاحوں کے لیے مخصوص بسیں چلتی ہیں۔ اگر آپ نے جاپان کی سیاحت کے لیے غیر ملکیوں کے لیے جاری کیے جانے والے ریل ٹکٹ لیے ہوئے ہیں تو آپ ہیرو شیما کی سیاحتی بسوں میں بھی اسی ٹکٹ پر مفت سفر کر سکتے ہیں۔
33 ہزار ین (جاپانی کرنسی) یعنی تقریباً تین سو ڈالر میں لیے جانے والے اس ٹکٹ کے ذریعے آپ جاپان کی تیز رفتار بلٹ ٹرین میں ایک ہفتے تک کہیں بھی جتنی بار چاہیں آ اور جا سکتے ہیں۔ عام جاپانی شہری کے لیے ٹوکیو سے ہیروشیما کا دو طرفہ کرایہ تقریباً بیالیس ہزارین ہے۔ جسے صرف ایک بار استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن سیاحون کے لیے خصوصی طور پر جاری کیے جانے والے اس ''ریل پاس'' سے آپ جاپان بھر میں لا محدود سفر کر سکتے ہیں۔ یہ سیاحتی پاس صرف ان افراد کو دیا جاتا ہے جو ویزٹ ویزا پر جاپان آئے ہوں۔
آج کا ہیروشیما دنیا کا ایک جدید ترین شہر ہے۔ جاپانی قوم نے اس شہر کی تعمیر نو کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ''راکھ'' بننے والی اس سرزمین کو بھی ''گل و گلزار'' کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔دنیا میں ایسی مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ویسے تو ہیرو شیما میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن اس شہر کے دو مقامات ایسے ہیں کہ جہاں ہمہ وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ ایک وہ مقام ہے جسے Bomb Dome کہا جاتا ہے۔ یہ کئی منزلہ ایک ایسی عمارت ہے جس کا ڈھانچہ ساخت کی مضبوطی کی وجہ ایٹمی حملے سے کسی حد تک بچ گیا تھا۔ تاہم اس کے تمام مکین اور ساز و سامان جل کر راکھ ہو گیا۔ اس عمارت کے ڈھانچے کی دیواروں پر اب بھی انسانی جسم اور یہاں کبھی موجود چیزوں کے سائے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ابتداء میں ان سایوں کو جن اور بھوت کے سائے قرار دیا جاتا تھا لیکن جدید سائنسی تحقیق کا کہنا ہے کہ یہ سائے ایٹمی شعائوں کے انسانی جسم سے گزرنے کے بعد ''ایکسرے'' کی طرز پر ان دیواروں پر ظاہر ہوئے ہیں۔ اس عمارت کے گرد مضبوط جنگلہ لگا کر سیاحوں کو اندر جانے سے روک دیا گیا ہے تا ہم خصوصی اجازت سے اسے اندر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس تاریخی عمارت کے گردا گرد اب ایک خوبصورت پارک اور دریا رواں دواںہے۔ جہاں دنیا بھر کے سیاحوں کا ہجوم تصویریں بناتا نظر آتا ہے۔
ہیروشیما کا دوسرا اہم ترین مقام Peace Memorial Park یا ''امن یادگار پارک'' ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہر سال ایٹمی حملے میں ہلاک ہونے والے افراد اور شہر کی ہولناک تباہی کی یاد میں سالانہ تقریب ہوتی ہے اور ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ اس تقریب میں جاپانی قوم اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے اپنی حتی المقدور کوششیں کریں گے۔
ہم نے بھی ہیروشیما میں قیام کے دوران ان تمام یادگاروں کا دورہ کیا ۔ خاص طور پر امن یادگار پارک میں قائم ہیروشیما میوزیم بہت حدتک ایک زندہ تاریخ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور ترقی کے مثالی ملک جاپان نے اس میوزیم میں اپنے اس اس ہولناک تاریخی لمحے اور اس کے اثرات کو جس طرح محفوظ کیا ہے اس سے دنیا بھر کے عجائب گھروں میں اس میوزیم کو منفرد مقام حاصل ہے۔
اس میوزیم کے دورے کے ذریعے آپ ایٹم بم گرائے جانے سے پہلے کے سرسبز و شاداب دریائوں کی سرز مین ہیروشیما میں زندگی کی چہل پہل دیکھتے ہیں اور پھر اچانک ایٹمی دھماکے کے صوتی اور تصویری اثرات آپ کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ چند لمحوں میں ہنستا بستا شہر راکھ کا ڈھیر بن جاتا ہے اور پھر انسانیت کے اس اذیت ناک عمل کے اثرات سے نسلیں کیسے متاثر ہوئیں انھیں دیکھ کر سیاحوں کے دل لرز اور قوت گویائی سلب ہو جاتی ہے۔
ہیروشیما میں ایٹمی تباہی اور اس کے اثرات پر بہت سی تحقیقی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ انھی میں سے ایک کتاب میں ہے کہ ایٹمی حملے کے بعد زندہ بچ جانے والی ایک خاتون نے بتایا کہ ایٹمی حملے کی چندھیا دینے والی چمک سے آنکھوں کو بچانے کے لیے میں نے ہاتھ اٹھائے تو اس کے چہرے اور ہاتھ کا گوشت لٹک گیا۔ ہر طرف لوگ مدد کے لیے پکار رہے تھے۔ انھیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے اس کے جسم کے اعضاء الگ کیوں ہو رہے ہیں۔ گوشت کیوں پگھل رہا ہے۔
لوگوں کی آنکھیں ، ان کے چہروں سے باہر لٹک رہی تھیں اور ان کے حلقے خالی تھے۔ تابکاری کے اثرات سے ان کے بال گر رہے تھے اور جسم پر دھبے نمودار ہو رہے تھے۔ زندگی کی اذیت سے گزرنے والے موت کی دعا کر رہے تھے۔ ایٹمی حملے کے ساتھ ہی موت کی پہلی لہر نے ہزاروں افراد کو لقمہ اجل بنا دیا۔ دوسری لہر نے لاکھوں کو اور تیسری لہر نے اذیت کا ایسا منظر دکھایا کہ لوگ پہلی اور دوسری لہر میں مرنے والوں پر رشک کرنے لگے۔
ہیروشیما پر برسایا جانے والا بم 6 اگست 1945 کو صبح آٹھ بج کردس منٹ پر زمین کی سطح سے تقریبا 1800 فٹ بلندی پر پھٹا جس کی تابکاری کے اثرات نصف صدی سے زائد عرصے تک دیکھنے میں آتے رہے۔ قابل تعریف اور قابل تقلید ہے جاپانی قوم کہ اس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر برسائے جانے والے ایٹمی بموں اور دوسری جنگ عظیم میں ٹوکیو اور دوسرے شہروں میں شدید بمباری اور عظیم جانی اور مالی نقصان کے باوجود ہمت نہ ہاری اور اپنے ملک کو اب دنیا کی نہ صرف یہ کہ تیسری بڑی معیشت بنا دیا ہے بلکہ دنیا بھر میں امن اور بھائی چارے کے قیام میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہی زندہ قوموں کی پہچان ہے۔