’’کراچی آرٹ کونسل کا ادبی میلہ‘‘
ایک عرصے تک سنگ و خشت کا یہ ڈھیر ’’خیالِ تازہ‘‘ کی نعمت سے کم و بیش محروم اور خالی تھا۔
اداروں کی کامیابی اُن کے منتظم عہدیداران سے کیسا گہرا اور معیاری تعلق ہے اس کی ایک عمدہ اور زندہ مثال کراچی آٹ کونسل ہے کہ گزشتہ دس بارہ برس میں اس کے صدر احمد شاہ اور اُن کی ٹیم نے اس ادارے کی ترقی اور کارکردگی میں جو غیر معمولی اور مثالی کام کیا ہے وہ اب اپنی جگہ پر ایک روشن روائت کی شکل اختیار کر چکا ہے کہ نہ صرف اُس کی عمارت مختلف تعمیرات اور تزئین و آرائش کے حوالے سے ایک خوبصورت شکل میں ڈھلی ہے بلکہ ادب و فن اور آرٹس کی گہما گہمی کے باعث یہ شہر کا سب سے آباد اور فعال مرکز بھی بن گئی ہے جب کہ ایک عرصے تک سنگ و خشت کا یہ ڈھیر ''خیالِ تازہ'' کی نعمت سے کم و بیش محروم اور خالی تھا۔ سو سب سے پہلے تو احمد شاہ اور اُن کی ٹیم کو ڈھیروں مبارک اور اُن کے لیے یہ شعر کہ:
خاموشی سے پھیل رہا تھا چاروں جانب سناٹا
کیسے سب کچھ بدل گیا ہے ایک آواز لگانے سے
5 سے 8 دسمبر تک یہاں منعقد ہونے والی بارہویں عالمی ادبی کانفرنس کا پروگرام اس وقت میرے سامنے ہے اور اس کی تفصیل ایسی توجہ طلب اور متاثر کن ہے کہ ہر ایونٹ ''کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جا است'' کی مثال نظر آتا ہے ادبی مباحثے ، مکالمے، کتابوں کا تعارف، مرحومین کی یاد، شخصیات سے ملاقات ، مشاعرے، مزاح، رقص و موسیقی، عالمی اور علاقائی ادب غرضیکہ کون سا ایسا موضوع ہے جس کا احاطہ نہیں کیا گیا۔
مندوبین میں کراچی شہر سے لے کر پاکستان کے دیگر شہروں اور دنیا کے کئی ممالک کے نمائندے شامل ہیں یعنی کہ یہ اُردو بولنے ، لکھنے ، پڑھنے اور پڑھانے و الوں کا ایک ایسا اجتماع ہے جس میں آپ ایک ہی پلیٹ فارم پر پوری اُردو دنیا کی سیر کر سکتے ہیں، مجھے ان بارہ میں سے تقریباً دس میں شرکت کا موقع ملا ہے (کہ دو مواقع پر میں ملک سے باہر تھا) اور میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ ہر آنے والے برس میں اس کا معیار بلند اور دائرہ کار مزید وسیع ہوا ہے ۔
ایک ایسے ماحول اور زمانے میں کہ جب شعر و ادب اور فنون لطیفہ سمیت زبانوں اور سوشل سائنسز پر ایک زوال کا دور چل رہا ہے، اس طرح کی کانفرنسوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ ان کی وجہ سے نہ صرف تمام متعلقین اور متاثرین کچھ دیر کے لیے ایک جگہ پر جمع ہو جاتے ہیں بلکہ وہ نئی نسل جو انگریزی زبان کے غلبے ، نظام تعلیم، نصابات اور فوری طور پر نفع آور ڈگریوں کے حصول میں اُلجھی ہوئی ہے، اس کو بھی اپنی روائت ، جمالیات اور اخلاقیات سے رابطے کا ایک ایساموقع مل جاتا ہے جس سے وہ بہت کچھ سیکھنے کے ساتھ روحِ عصر سے بھی براہ راست مکالمہ کر سکتے ہیں، یوں تو گاہے گاہے اکادمی ادبیات، لوک ورثہ، نیشنل بک فائونڈیشن ، ادارہ ہمدرد، فارم ایوو، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، فیصل آباد یونیورسٹی ، فیضؔ فیسٹول کتاب میلوں اور لاہور آرٹ کونسل کے لٹریچر فیسٹیول سمیت کچھ اور ادارے بھی اس سے ملتی جلتی تقریبات کا انعقاد کرتے رہتے ہیں مگر جس تسلسل اور معیار کے ساتھ احمد شاہ اور اُن کے ساتھیوں نے اس عالمی ادبی کانفرنس کا اہتمام کیا ہے وہ لائق تحسین بھی ہے اور لائق تقلید بھی۔
اس کانفرنس کی ایک اضافی خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے توسط سے دنیا بھر سے آئے ہوئے اُردو دوستوں کے ساتھ ساتھ کراچی کے احباب سے بھی ملاقات کا موقع بن جاتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ابھی سے محبان عزیز ، عرفان جاوید، ریاض احمد منصوری ، سید جاوید اقبال، محمد اشرف شاہین، بلال احمد ، عروج رحمن ، انور شعور ، پیرزادہ قاسم، شیخ محمد صدیق ، ارشد محمود ، مطاہر احمد اور ندیم ظفر رابطے میں ہیں اور یہ معمہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے کہ ایسی بھرپور کانفرنس میں شرکت کے بعد ان احباب سے ملاقات کا وقت کب اور کیسے نکل سکے گا؟ اس موقع پر مجھے مشتاق احمد یوسفی ، جمیل الدین عالی، لطف اللہ خان، ڈاکٹرجمیل جالبی ، مشفق خواجہ، فرمان فتح پوری، حاجرہ مسرور، شیخ محمد ادریس اور سجاد اکمل بھی بے طرح یاد آ رہے ہیں کہ یہ کانفرنس اُن سے ملاقات کا ایک مستقل وینیو بھی ہوا کرتی تھی کیا کمال کی بات کر گئے ہیں میرؔ صاحب کہ:
رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں
ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں
اتفاق سے کچھ ہی دن بعد بھارت میں ''ریختہ'' فائونڈیشن کے زیر اہتمام ان کا چوتھا سالانہ پروگرام بھی دہلی میں ہو رہا ہے جس کے اولین پروگرام میں مجھے پاکستان کی نمائندگی کا شرف حاصل ہوا تھا ،کراچی کے پروگرام میں تو شمیم حنفی صاحب سمیت ایک اور بھارتی لکھاری حصہ لے رہے ہیں مگر ''ریختہ'' میں کسی پاکستانی کو اس لیے بھی مدعو نہیں کیا گیا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی انتہا پسند جماعت کے روّیئے سے قطع نظر بھارتی سفارت خانہ بھی اس طرح کا ویزا دینے میں بہت تامل سے کام لیتا ہے اور یوں ریختہ کے بانی برادرم سنجیو صراف کا یہ انتہائی احسن اور اُردو دوست اقدام اب پاکستان کی حد تک محدود سے محدو د تر ہوتا چلا جا رہا ہے جو یقینا ایک تشویش انگیز اور افسوس ناک صورتِ حال ہے جب کہ پاکستانی سفارت خانہ اور یہاں کے علمی و ادبی ادارے ہمیشہ کھلے بازئووں سے اپنے بھارتی مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اس کالم کی اشاعت اس کانفرنس کے چوتھے اور آخری روز متوقع ہے، سو ایک اور دعا کی جانی چاہیے کہ اس بار یہ کامیابی کے لیے معیارات مرتب کرے گی اور اس کی معرفت اُردو زبان و ادب ملک کے اندر اور باہر کی اردو دنیا میں نہ صرف زیادہ فروغ پائیں گے بلکہ ان میں شرکت کرنے و الے مندوبین اور سامعین ایک نئے جذبے اور جوش کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو لوٹیں گے ۔ ظہیر کاشمیری مرحوم کا ایک سدا بہار مطلع کچھ دنوں سے بار بار یاد آرہا ہے اگرآپ کا اس میں اور احمد شاہ میں ربط خفی نظر آئے تو آپ دونوں کی خیر ہو۔
میں ہوں وحشت میں گُم میں تیری دنیا میں نہیں رہتا
بگولہ رقص میں رہتا ہے ، صحرا میں نہیں رہتا