جوانی میں ضرورت سے زیادہ دل پھینک تھا نجیب اللہ انجم

اردو، پشتو اور ہندکو کے صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار نجیب اللہ انجم کے حالات زیست


Naveed Jaan October 31, 2013
اردو، پشتو اور ہندکو کے صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار نجیب اللہ انجم کے حالات زیست فوٹو : فائل

وہ یقیناً کوئی عرفانی لمحہ ہوگا جب اس پر وا ہوا کہ وہ نجیب ہی نہیں، انجم بھی ہے۔

کسی کو یہ معلوم پڑ جانا بڑی سعادت ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے مخلوق ہے اور نجیب اللہ انجم اس لحاظ سے خوش بخت ہیں۔ آج وہ نوواردانِ شہرِ فن کے لیے رہ نما ستارہ ہیں، دوستوں کی محفل سجی ہو تو یوں دمکتے ہیں کہ اداسیوں کی دھند چھٹ جاتی ہے۔

باریش، سیماب صفت، اپنی ذات میں اکادمی کا درجہ رکھنے والے اس فن کار نے ایسے وقت میں اپنی انفرادیت تسلیم کرائی جب فن کے آسمان پر ایک سے ایک ستارہ درخشاں تھا۔ یہ ایک عہد تھا کہ جس میں قوی خان، فردوس جمال، طلعت حسین، عظمیٰ گیلانی، صلاح الدین، عابد علی، فاروق ضمیر، رشید ناز اوران جیسے دوسرے ہیوی ویٹ صاحبانِ کمال کا میلا لگا ہوا تھا۔ چار عشروں پر محیط اس عرصۂ فن میں انہوں نے لاتعداد سیریلز، سیریز، مزاحیہ خاکے اور سکٹس کیے اور کمال فن یہ ہے کہ ناظرین ان کے کام سے اب بھی سیر نہیں ہیں، وہ آج بھی انہیں اسی ذوق و شوق سے دیکھتے سنتے ہیں جیسے آج سے چالیس برس پہلے۔

جولائی 1955 کو مردم خیز اور زرخیز خطۂ ارضی خیبر پختون خوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے اسی محلے میں آنکھ کھولی جہاں پاک و ہند کے عظیم فن کار خانوادے کپور کے جدامجد کا مسکن حویلی بشمبر ناتھ کپور موجود ہے۔ والد کا تعلق افغانستان سے بتاتے ہیں جب کہ والدہ پشاور کی باسی تھیں، جو بیگم شہاب الدین اسکول میں بہ طور معلّمہ درس و تدریس کے فرائض انجام دیتی رہیں۔ والد کا خشک میوہ جات کا کاروبار تھا جو وہ افغانستان سے درآمد کر کے پشاور میں فروخت کیا کرتے تھے، سو گزر بسر والا قافیہ تنگ نہ تھا۔

پرکشش اور سحر انگیز نجیب اللہ انجم کی ابتدائی تعلیم فارورڈ ہائی اسکول سے ہوئی، میٹرک کا معرکہ ایڈورڈ ہائی اسکول سے سر کیا، اگلی چھاؤنی گورنمنٹ کالج پشاور میں چھائی لیکن دشمن آسماں تاک میں تھا اور یوں 1972 کا سال ان کے لیے الم کا سال بنا، وہ سیکنڈ ایئر کے طالب علم تھے کہ ناگاہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ایک بہن اور تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے چناںچہ گھر کی کفالت کا بار ان کے کندھوں پر آن پڑا، تعلیم کا تسلسل برقرار نہ رہ پایا اور محکمۂ تعلیم میں ملازمت اختیارکرلی۔ کچھ عرصہ بعد میونسپل کارپوریشن میں کام مل گیا، چند سال یہ سلسلہ جاری رہا۔

ان کے ماموں پروفیسر عبدالودود منظر (مرحوم) فلم، ٹی وی، سٹیج اور ریڈیو کے حوالے سے ایک معتبر شخصیت تھے، یہ ان کے ہم راہ فارغ اوقات میں پاکستان ٹیلی ویژن سنٹر چلے جایا کرتے تھے۔ یہ 1974 کے دن تھے۔ کسی ڈرامے کی ریہرسل کے دوران چائے کا وقفہ ہو جاتا تو نجیب کسی ایک فن کار کے مکالموں کو دہرانے کی مشق کرتے، کہتے ہیں ''طارق سعید کی ڈائریکشن میں ایک ڈرامے کی ریہرسل ہو رہی تھی، جس میں ایک کردار گوالے کا بھی تھا، جو فن کار یہ کردار کر رہا تھا، اس کی سمجھ نہ سکرپٹ آ رہا تھا اور نہ اسے ٹائمنگ کا کوئی اندازہ تھا طارق سعید غالباً زچ ہو رہے تھے،

اچانک سکرپٹ مجھے تھمایا اور مکالمے ادا کرنے کو کہا، اب اس ''اِنکا اَؤ پنکا، خو دا پٹئے شِنکا'' جیسے آرڈر نے تو پسینے ہی چھٹا دیے، مرتا کیا نہ کرتا، میں نے مکالمے بولنا شروع کر دیے، طارق صاحب نے تحمل سے مجھ کو سنا اور پھر میرے ماموں سے کہا کہ آپ کا بھانجا ہی اس کردار کے لیے موزوں ہے لیکن ماموں نے انکار کر دیا کہ ابھی اس کی عمر اس کام کے لیے مناسب نہیں، اس کے بعد ہم گھر لوٹ آئے، میرے دل میں اتھل پتھل ہو رہی تھی، میں نانی ماں کے پیچھے پڑ گیا، انہوں نے ماموں کو احکامات صادر کیے تو ماموں نے مجھے قسمت آزمائی کی اجازت دے دی، یوں میری فن کارانہ زندگی کی ابتدا ایک ہندکو پلے ''سفید پوش'' میں گوالے کے کردار سے ہوئی، بس پھرچل سو چل اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔''

ماضی کی راکھ کریدتے ہوئے نجیب اللہ انجم کو ابتدائی دور کا ایک واقعہ کیا یاد آیا کہ ان سے ہنسی ضبط نہیں ہو رہی تھی، کہا '' جب اگلا سکرپٹ ملا تو یہ ٹھان لی کہ اگر اس سے ڈائریکٹر اور ساتھیوں کو متاثر نہ کر سکا تو بوریا بستر سمیٹ کر اس لائین سے چلتا بنوں گا، بس پھر کیا تھا بڑے جوش و خروش سے سکرپٹ اٹھایا اور مکالمے یاد کرنے کو جناح پارک مے جا کر ایک بنچ پر بیٹھ گیا، ساتھ گنڈیریاں بھی لے گیا، ابھی ڈھنگ سے کام شروع بھی نہیں کر پایا تھا کہ دو پولیس والوں کی نظرِ بداثر میں آ گیا، انہوں نے مجھے شک بھری نظر سے گھورا اور میری طرف بڑھنے لگے، میرا بھی ماتھا ٹھنکا یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔

ان دونوں نے تفتیش کا روایتی آغاز کیا، جس میں بنیاد اس بات کو بنایا گیا کہ میں کچھ جاسوس واسوس قسم کی کوئی چیز ہوں اور پڑوسی ملک کے لیے کام کر رہا ہوں، مت پوچھیے کہ مجھے ان کو سمجھانے کے لیے کیا کیا اور کس کس طرح استدلال کرنا پڑا اور بالآخر ان کی کھوپڑی میں دھرے مغز میں کچھ آ ہی گیا لیکن انہوں نے مجھ کو وہاں سے دفعان ہونے کا حکم جاری کیا اور میں کورنش بجا لاتا ہوا وہاں سے یوں سرپٹ ہوا کہ پیچھے پلٹ کر نہ دیکھا۔'' دوران گفت گو نجیب اللہ انجم شعر و شاعری سے ماحول کو رومانوی رنگ دینے میں بھی ماہر نظر آئے، مثلاً امیر مینائی کا یہ شعر کہ گئے

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

کہتے ہیں ''میرا پہلا ہندکو سیریل ''ٹھنڈیاں چھانواں'' 76 میں آیا، اس کے پروڈیوسر ضیاء الرحمٰن تھے، اس میں، میں نے مسیتی کا کردار کیا، جس کو بہت پذیرائی ملی، اس کے بعد پہلا سیریل ''ایک تھا گاؤں'' کیا، اس میں میرا کردار ولن کا تھا، اس کے پروڈیوسر عتیق احمد صدیقی تھے، اسی طرح طنز و مزاح پرمبنی سیریز ''آپ سے کیا پردہ'' تھا جو زیادہ تر خاکوں پر مشتمل تھی۔



اس میں، میں نے مختلف کریکٹرز اور گٹ اپ میں ناظرین سے داد پائی، پانچ سو سے زیادہ ڈراموں ،خاکوں اورفلموں کی اس فہرست میں چترال کی حسین و سحر انگیز وادی بمبوریت میں رہنے والوں کی زندگی پر مبنی کیلاش سیریل اسلام آباد مرکز سے، مستنصر حسین تارڑ کا ''خواب کم خواب''، زی ٹی وی کی معروف سیریل ریڈ کارڈ اور اسی طرح پانچ سوکے لگ بھگ ہندکو، اردو اور پشتو کے سیریلز اور سیریز میں سیکڑوں کردار ادا کیے''۔

نجیب اللہ انجم کے بہ قول پشاور سنٹر سے سب سے زیادہ گٹ اپ ان ہی کے بنے، ریجنل اور قومی ایوارڈ زکے علاوہ 1986 میں نیشنل سرکٹ میں بننے والے ڈرامے ''مٹی اور مشکیزہ'' میں بیسٹ ایکٹر پی ٹی وی ایوارڈ اور 2006 میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی پانے والے اس ورسٹائل اداکار نے متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہربھی دکھائے، جن میں شعیب منصور کی فلم ''خدا کے لیے'' اور مرحوم رؤف خالد کی فلم ''لاج'' قابل ذکر ہیں، اسی طرح کاریگر، باران، کروبی، چلتے چلتے، ''کوا بھول پیے'' آج بھی ناظرین کو یاد ہیں، سینیئر اداکار فی الوقت ایک نجی چینل سے ''سچ گپ'' کے نام سے لائیو پروگرام میں ہلکی پھلکی مگر نپی تلی گفت گو سے حاضرین کو محظوظ کر رہے ہیں۔

اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ پروگرام میں معاشرے اور سماج کی وہ سچائیاں سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے جو واقعی گپ بنی ہوئی ہیں مثلاً معاشرتی اقدار، حسن اخلاق، بھائی چارہ، امن و آشتی، دکھ درد میں یک جہتی، ضبط و برداشت، تحمل وبردباری اور ان جیسی بے شمار خاصیتیں ہیں، جو کبھی ہمارے سماج کا حصہ ہواکرتی تھیں لیکن آج مادیت پرستی کی دھند میں کہیں گم ہو گئی ہیں اور جس نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ کر ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مادیت پرستی کے بھنور سے خود کو نکال کر پرامن اور پرخلوص معاشرہ تشکیل دیں، جہاں امن اور خوش حالی کا دور دورہ ہو۔

نجیب انجم پاکستان ٹیلی ویژن سے سخت شاکی ہیں، کہتے ہیں ''جو ادارہ ایک اکیڈیمی کا درجہ رکھتاتھا، آج وہاں چند سفارشی عناصر کی موجودی سے ہمارا ڈرامہ زوال آشنا ہو چکا ہے، باہر سے درآمد کیے گئے ڈرامے ہمارے کلچر، تہذیب اور تمدن سے بالکل لگا نہیں کھاتے، ان کی چمک دمک بہت جلد ماند پڑنے والی ہے، اسی طرح نااہل اور نان ٹیکنیکل افرا دکے باعث فلم ریڈیو اور تھیئیٹر بھی تباہ ہو چکا ہے، اس تباہی کی دوسری بڑی وجہ خود رو اور اداکاری کی الف بے سے بھی واقفیت نہ رکھنے والوں کا سفارش کے بل پر آگے آنا بھی ہے، اداکار، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر دو جمع دو کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں، مختلف چینلز اور خاص طور پر ایف ایم ریڈیو چینلز پر نان کوالیفائیڈ بے سرے اور لاعلم پریزنٹرز اور آرجیز کی اوٹ پٹانگ حرکتوں نے معیاری کام کا بیڑا غرق کردیاہے بل کہ معاشرے کی اقدار کو بھی بری طرح مسخ کر دیا ہے لیکن جلد ہی ان کو اپنی اہمیت کا احساس ہو جائے گا جب حاضرین و ناظرین ان کو دیکھنا اور سننا چھوڑ دیں گے''۔

کلچر ڈائریکٹوریٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ''یہ ادارہ صوبے میں ثقافتی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کے لیے قائم کیا گیا تھا لیکن یہ سفید ہاتھی بن چکا ہے، یہاں بھی نان پروفیشنل لوگ جمع ہیں، جس کے باعث کوئی ثقافتی سرگرمی نظر نہیں آتی، اگر یوں کہا جائے کہ اس ادارے کا وجود ہی نظر نہیں آتا تو درست ہو گا، ستم بالائے ستم یہ کہ یہ ادارہ سینیئر اداکاروں کی حالت زار پوچھنے کا تکلف ہی گوارہ نہیں کرتا، کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، سینیئر اداکارہ صفیہ رانی نے اسپتال میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دی، نظرالدین درانی بھی بے یار و مددگار ہیں، سینیئر اداکار نعیم جان ایک عرصے سے صاحبِ فراش ہیں لیکن اس ادارے کے کرتا دھرتا پیروں پر مہندی لگائے مست پڑے ہیں، یوں جیسے ان کی باری نہیں آنی۔

اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جو ادارہ صوبے میں ثقافتی سرگرمیوں کے نام پر وجود میں آیا ہے، وہ خود ہی ثقافت کے پیچھے لٹھ لے کر پڑا ہوا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ وہاں پروفیشنل لوگوں کو لایا جائے جو صحیح معنوں میں ماضی کی روایات اورموجودہ دورکے تقاضوں سے ہم آہنگ اقدار کو اجاگر کرنے کا ڈھنگ جانیتے ہوں۔

ذاتی زندگی کی بات چھڑی تو پہلے ''آہ'' اور پھر ''واہ واہ'' ہونے لگی، کہا '' 1985 میں ارینجڈ شادی ہوئی، میری شریک حیات اس وقت آرمی میں لیفٹیننٹ تھیں چوں کہ میں بہن بھائیوں میں بڑا تھا اورسب کی خیر سے شادیاں انجام پا چکی تھیں، میری اماں میرے لیے پریشان رہنے لگیں، رشتے کی بات چلی تو میری ہونے والی بیوی کی چند سہیلیاں کسی بہانے مجھے دیکھنے آئیں اور یہ تاثر دیا کہ میری فین ہیں، خیر اس دوران ڈھنگ اور بے ڈھنگ، مختلف موضوعات پر بات ہوئی۔

انہوں نے ایک طرح سے میرا انٹرویو بھی لیا، جب رخصت ہوکرچلی گئیں تو معلوم ہوا کہ یہ تو اُدھر سے مجھے دیکھنے کو آئی تھیں، بس میرے تو پسینے چھوٹ گئے، خدا جانے میرے منہ سے کوئی ایسی بات نکل گئی ہو جو معاملے کو غت ربود کر دے لیکن الحمدُللٰہ چند دن بعد ریزلٹ آؤٹ ہوا تو معلوم ہوا کہ پاس ہوں ۔۔۔۔ ہماری آپس میں اللہ کے فضل و کرم سے بہت اچھی انڈر سٹینڈنگ ہے، وہ اب لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہو چکی ہیں، ہمارا نکاح سادگی سے 27 رمضان کو کھجوروں ہی پر انجام پایا تھا''۔

بڑے واشگاف انداز میں کہا ''شادی سے قبل میرے کئی افیئرز چل چکے تھے، میں کچھ زیادہ ہی دل پھینک واقع ہوا تھا، کوئی لڑکی ذرہ بھر اپنائیت کا اظہار کرتی تو میں فوراً (شادی کے لیے) سیریس ہو جاتا لیکن اب ایسا نہیں کیوں کہ اللہ نے مجھے اتنی کیئرنگ اور پیار کرنے والی شریک حیات سے نوازا ہے کہ اللہ کا جتنا شکر بجا لاؤں کم ہے''۔ کہتے ہیں '' 1999 میں حج اکبر اور 2006 میں عمرے کی سعادت حاصل ہوئی چوں کہ میرے بچے نہیں اس لیے خانۂ کعبہ کے سامنے اللہ کے حضور یہ دعا مانگی کہ اے میرے اللہ میں تیری رضا پر راضی ہوں جو تو کرتا ہے بے شک ہمارے بھلے کے لیے ہی کرتا ہے''۔

نجیب اللہ انجم کو کھانے میں سفید چاول اور دال پسند ہیں تاہم ہر چیز کو اللہ کی نعمت سمجھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ آج خواہشات ضروریات بن گئی ہیں اگر ہم اپنی خواہشات کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں تو یہ زندگی بہت پرسکون گزرے، معاشرتی اقدار، روایات، تحمل و بردباری کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے تو ہمارے اپنے ہی پیدا کردہ مسائل کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں، کہتے ہیں کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں، پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے، چوں کہ میرا تعلق شوبز سے ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ فائن آرٹ لائف کو فائن بنانے کا آرٹ ہے، جو لوگ فائن آرٹ سے دور ہیں وہ زندگی کے رنگوں سے بے بہرہ ہیں اور وہ جمالیاتی ذوق سے کوسوں دور بھی ہیں، اس لیے ان کی زندگی بہت کرخت بن جاتی ہے جب کہ ذہنی خلفشار، چڑچڑا پن اور پژمردگی کے اسباب بھی یہ ہی ہیں کہ ہم آرٹ سے بہت دور ہیں، کہتے ہیں کہ انسان کی سب سے بڑی جدوجہد اپنے آپ سے دیانت دارہونا ہے، اگر آپ اپنے جج خود ہیں تو زندگی میں پچھتاوے کا احساس تک بھی آپ کا دامن گیر نہیں ہوگا۔ کہا '' زندگی کے یادگار واقعات تو بہت ہیں لیکن دلیپ کمار سے ملاقات اور ان سے اپنے کام پر تحسینی کلمات، آج بھی یاد آتے ہیں تو سرشاری طاری ہو جاتی ہے''۔ مصروفیات کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ پہلے پہل بہت ہلا گلا کیا کرتا تھا لیکن اب محتاط ہو گیا ہوں کیوں کہ بہت سوں نے اعتبار ڈس بھی لیا ہے، حضرت علیؓ کا قول ہے کہ جس کے ساتھ نیکی کرو اس کے شر سے بچو''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔