صدی کی مہنگی ترین جنگ
آج بھی افغانستان کے بیشتر حصے امارت اسلامیہ کے زیر کنٹرول ہیں۔
ISLAMABAD:
افغان جنگ رواں صدی کی مہنگی ترین جنگ بن چکی ہے ، جس میں اربوںڈالر لگانے کے باوجود رسوائی سپر طاقت کا مقدر بنی ہوئی ہے، افغانستان کو فتح کرنے کا خواب دیکھنے والا امریکا بہادر گھٹنوں پر کھڑا افغان سرزمین سے باہر نکلنے کی ٹوہ میں ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے القاعدہ کے تعاقب میں افغانستان پر حملہ کیا اورامارت اسلامیہ کی حکومت کو ختم کرکے ایک آزاد ملک پر قبضہ کرلیا، امارت اسلامیہ تب سے آج تک امریکی جارحیت کے خلاف برسرپیکار ہے اور غیر ملکی قابض فوجوں کے انخلاء کے لیے مسلح جدو جہد کر رہی ہے۔
آج بھی افغانستان کے بیشتر حصے امارت اسلامیہ کے زیر کنٹرول ہیں۔ افغانستان پر امریکی حملے اور افغان قوم پر مسلط کردہ جنگ کے اٹھارہ سال مکمل ہو گئے، اس عرصے میں تین امریکی صدور آئے، پہلے جارج ڈبلیو بش لگاتار دو مرتبہ صدر منتخب ہوئے ، ان کے بعد باراک اوباما ، پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کی عنان اقتدار سنبھالی، بش، اوباما اور ٹرمپ تینوں امریکی صدور نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
اس دوران کبھی جنگی ہتھکنڈے آزمائے جاتے تو کبھی اتحادی افواج کے جرنیلوں کو تبدیل کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی، کبھی غیر ملکی افواج کی تعداد میں کمی کی جاتی تو کبھی اس میں اضافہ ہوتا، انٹیلی جنس اور پروپیگنڈے کی حکمت عملی، سیاسی اور مذہبی دباؤ اور دیگر مختلف منصوبوں پر عمل درآمد کیا۔
امریکی انتظامیہ اور اس کے اتحادیوں نے ایک سے بڑھ کر ایک پینترا آزمایا لیکن افغانستان میں انھیں ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ افغانستان میں مسلح مزاحمت آج بھی نظر آرہی ہے، قابض فوج کی ہلاکتوں اور مالی اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے جو بلاشبہ امریکی انتظامیہ کے لیے درد سر بن چکا ہے۔ طاقت کی پالیسی سے امریکا کو افغانستان سے رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملا ، جب ایک فارمولا ناکام ہوجائے تو لا محالہ دوسرا آزمایا جاتا ہے۔
امریکی فوج نے2001 سے لے کر اب تک افغانستان میں طالبان کی مزاحمت کے خلاف لڑتے ہوئے اربوں ڈالر خرچ کر دیے ہیں، امریکی انتظامیہ کی جانب سے جاری اعدادو شمار کے مطابق شروع دن سے لے کر 2019کی پہلی سہ ماہی تک امریکا افغان جنگ میں 760 ارب ڈالرجھونک چکا تھا حالانکہ آزاد تحقیق کرنے والے ادارے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکا نے افغان جنگ میں بتائے گئے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ سرمایہ خرچ کیا، امریکی انتظامیہ نے جو اعداد و شمارجاری کیے ہیں اس میں سابقہ فوجیوں کو دیے جانے والے اخراجات اور جنگ سے متعلق دیگر ڈیپارٹمنٹس کو دی جانے والی امداد شامل نہیں اور نہ ہی اس میں سود کی وہ رقم شامل ہے جو اس جنگ کے لیے حاصل کیے گئے قرضوں پر ادا کی جارہی ہے، اسی لیے اس جنگ کو صدی کی مہنگی ترین جنگ قرار دیا جارہا ہے، اس کے باوجود امریکا طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے جس روز سے اقتدار سنبھالا تب سے وہ امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے کی باتیں کر رہے ہیں ، انھوںنے اپنی فوجی حکمت عملی کی ناکامی کے بعد مذاکرات اور معقولیت کا انتخاب کیا۔ امارت اسلامیہ ، جس نے ہمیشہ اس معاملے کے پرامن حل پر زور دیا ہے اور یہاں تک کہ امریکی حملے سے پہلے بھی امریکا کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا تھا ، سچے جذبے کے ساتھ مذاکرات کے لیے آگے بڑھی اور مذاکرات کے لیے ایک مناسب اور بااعتماد وفد مقرر کیا اورپچھلے ایک سال میں اس عمل کو بہت اچھے انداز سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
اس دوران امن مذاکرات کے نو دور مکمل کرنے کے بعد معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دی گئی ، معاہدے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے امریکی سفیر زلمے خلیل زاد دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور کر چکے تھے۔ ان مذاکرات کا مقصد افغانستان میں جاری 18سالہ طویل امریکی جنگ کا خاتمہ تھا۔
ستمبرکے اوائل میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ امریکا اور طالبان معاہدے کی دہلیز پر ہیں جو تشدد کو کم کرے گا اور یہ پائیدارامن کے لیے ایک راستہ ہوگا۔بعد ازاں امریکی نمایندہ خصوصی نے کابل میں افغان حکام کو معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا جس پر امریکا، فوج کے انخلا کی صورت میں امارت اسلامیہ کے ساتھ رضامند ہوا تھا۔ افغان حکومت نے امریکا اور امارت اسلامیہ کے درمیان ہونے والے ممکنہ معاہدے کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکام کو اس حوالے سے لاحق خطرات کے بارے میں مزید معلومات جاننے کی ضرورت ہے۔
یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ اشرف غنی اور ان کی حکومت کو امریکا اور امارت اسلامیہ کے درمیان جاری مذاکرات سے بالکل علیحدہ رکھا گیا تھا کیونکہ امارت اسلامیہ، افغان حکومت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے صرف امریکا کے ساتھ معاہدے پر زور دیتی رہی۔
معاہدے کے مندرجات کے مطابق پینٹاگون کو آئندہ برس تک افغانستان میں موجود اپنے 5 فوجی اڈوں سے 13 ہزار فوجی اہلکار واپس بلانا تھے جب کہ امارت اسلامیہ کو سیکیورٹی کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کرنا تھی۔امارت اسلامیہ کے وفد کی خفیہ ملاقات جب امریکی صدر سے ہونے جارہی تھی اس موقع پر 5 ستمبر کو کابل میں خودکش کار بم دھماکے کے نتیجے میں امریکا اور رومانیہ کے 2فوجی اہلکاروں سمیت 12 افراد ہلاک ہوگئے۔جس پر امریکی صدر نے مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کردیا تھا اور ملاقات منسوخ کردی گئی تھی۔
امارت اسلامیہ نے مذاکرات کی کامیابی کے لیے اپنی تمام تر توانائیوں کو صرف کیا اور آخر تک اس عمل کو نہایت سنجیدگی سے جاری رکھا ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امارت اسلامیہ امن کے لیے پرعزم ہے۔ اس کے برعکس مدمقابل فریق جس طرح جنگ شروع کرنے اور جارحیت کا ذمے دار ہے اسی طرح اس جنگ اور خونریزی کا بازار گرم رکھنے کی ذمے داری بھی فریق ثانی یعنی امریکا پر عائد ہوتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امارت اسلامیہ کے ساتھ امن مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کے بعد امارت کے وفد کے دورہ ماسکو کا انکشاف ہوا تھا، جہاں طالبان نمائندوں نے روسی حکام کے ساتھ تازہ ترین صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔روس کے ذرائع ابلاغ نے طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین کے حوالے سے بتایا ہے کہ ماسکو میں طالبان وفد نے روس کے ایلچی برائے افغانستان ضمیر کوبلو سے ملاقات کی اور افغانستان کی صورتحال پر بات چیت کی۔ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیر محمد عباس ستنکزئی نے روسی ٹی وی کو بتایا کہ طالبان اور امریکا کے مذاکرات مکمل ہو چکے تھے۔
ان کے بقول وہ معاہدے کے لیے دستخطوں کی تقریب کی تیاری کر رہے تھے جب اچانک صدر ٹرمپ نے حیران کن طور پر مذاکرات کو مردہ قرار دے دیا۔ طالبان مذاکرات کار محمد عباس نے پہلی مرتبہ معاہدے سے متعلق بعض تفصیلات بھی بتا دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت افغانستان میں مکمل فائر بندی پر اتفاق ہو گیا تھا جب کہ امریکی فوج کے انخلا کے لیے محفوظ راستہ دینے اور 23 ستمبر کو بین الافغان مذاکرات شروع کرنے پر بھی معاملات طے پا گئے تھے۔
محمد عباس ستنکزئی کا کہنا تھا کہ وہ امن مذاکرات بحال کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ افغانستان کے مسئلے کا حل مذاکرات کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر واپس آئیں گے۔ اگر امریکا مذاکرات کے ذریعے امن نہیں چاہتا تو طالبان بھی مزید سو سال تک لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے تعطل کے بعد افغان طالبان نے ماسکو کا رخ کیا ہے، انھیں افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر راستہ اختیار کرنے کا حق ہے اور وہ کریں گے۔
بہتر ہے کہ افغانستان میں دیرپا قیام امن کے لیے امریکا طاقت کی پالیسی ترک کرکے مذاکرات کا راستہ ہی اختیار کرے تاکہ افغان عوام سکھ کا سانس لیں اور یہ خطہ دوبارہ امن کا گہوارہ بن سکے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ، آج بھی پاکستان فریقین کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے کوشاں ہے۔
اکتوبر میں طالبان وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، اس دورے کے دوران یہ اطلاع بھی موصول ہوئی کہ طالبان وفد نے زلمے خلیل زاد سے بھی ملاقات کی ہے، جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا اور طالبان دونوں مذاکرات کے لیے تیار ہیں، تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ مذاکراتی عمل سے راہ فرار اختیار کرنے والے امریکی صدر ٹرمپ بھی مذاکرات کے لیے آمادہ ہیں۔امریکا 18 سالہ جنگی جنون کے بعد زمینی حقائق کی بنیاد پر جان چکا ہے کہ اس جنگی دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں۔