خود کوتحقیق کیلئے وقف کرچکا ہوں بنگلادیش میں اُردودھیرے دھیرے ختم ہورہی ہے

غالب لازوال شاعر تھے، افسانہ نگاروں میں پریم چند اچھے لگے، محقق ڈاکٹر محمود الاسلام


Iqbal Khursheed November 01, 2013
ڈاکٹر محمود الاسلام ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے ذمے داریاں انجام دے رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

زبان بھی اجنبی، رسم الخط بھی غیرمانوس۔ پھر تلخ سیاسی اور تاریخی تجربات۔ ان حالات میں اردو سے کیسے نبھی؟ یہ بتانا ذرا مشکل ہے۔

بس، یہ یاد ہے کہ اردو اور ان کے تعلق میں بہت جلد انسیت در آئی، جس نے کچھ ہی عرصے میں ایک پختہ رشتے کی صورت اختیار کر لی۔ یہی رشتہ اب زندگی کا محور ہے۔ کہتے ہیں،''میں خود کو تحقیق کے لیے وقف کر چکا ہوں۔ خواہش ہے کہ جتنا وقت میسر ہے، اُسے اردو پر صَرف کروں۔''

یہ ڈاکٹر محمود الاسلام کا تذکرہ ہے، جو اِس سمے ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔ وہاں شعبۂ اردو کے وہ صدر بھی رہے۔ ''اردو پر انگریزی کے اثرات''، ''بنگلا دیش میں اردو کی تاریخ''، ''اقبال لٹریچر'' ،''دنیا میں اردو کی ترقی''، ''اردو گرامر'' اور ''ترجمہ نگاری'' وہ کورسز ہیں، جو ڈاکٹر صاحب ڈھاکا یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔ وہ اپنے شعبے سے نکلنے والے جریدے ''ڈھاکا یونیورسٹی جرنل آف اردو'' اور آن لائن جریدے ''انٹرنیشنل ریفرڈ جرنل فار اردو'' کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بھی ہیں۔ ریڈیو بنگلا دیش کی ایکسٹرنل اردو سروس میں بہ طور مترجم اور نیوز ریڈر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ گذشتہ دنوں وہ ایکسپریس کی دوسری عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور تشریف لائے، تو اُن سے گفت گو کرنے کا موقع ملا۔

مدرس تو ہیں ہی، مگر جو کام جم کر کیا، وہ ہے تحقیق۔ ''اردو ادب کی سرپرستی میں انگریز افسران کا حصہ: اردو ادب پر انگریزی ادب کا اثر'' اُن کے پی ایچ ڈی تھیسس کا موضوع تھا، جس پر عطا ہونے والی ڈگری نے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ لگا دیا۔ 2012 میں یہ تھیسس ''اردو پر مغرب کے اثرات'' کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع ہوا۔ اردو صرف و نحو پر بھی قلم اٹھایا، مگر اِس زبان کے قواعد کو بنگلا میں پیش کرنا مناسب جانا، تاکہ شعبۂ اردو میں داخلہ لینے والے طلبا زیادہ بہتر انداز میں اِس سے آشنا ہوسکیں۔ اِس وقت بھی تحقیق میں جُٹے ہیں۔ پانچ زبانوں کے باہمی تعلق کا جائزہ لے رہے ہیں، جس میں اردو، بنگلا، ہندی، فارسی اور انگریزی شامل ہیں۔ توقع ہے کہ آیندہ برس یہ کتاب شایع ہوجائے گی۔ اِس عرصے میں اقبال اور ٹیگور کی شاعری کا تقابلی جائزہ لینے کا بھی موقع ملا۔ مسائل کے باوجود اُنھیں امید ہے کہ اردو باقی رہے گی۔ اور خواہش ہے کہ وہ موجودہ شکل ہی میں باقی رہے۔

حالات زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ محمود الاسلام 21 فروری 1976 کو بنگلادیش کے ضلعے، بوگرا میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد، الحاج محمد علیم الدین تدریس کے پیشے سے منسلک تھے۔ والد سے روابط میں محبت کا عنصر غالب رہا۔ چار بہن بھائیوں میں ان کا نمبر دوسرا ہے۔ کم گو ہوا کرتے تھے بچپن میں۔ کھیلوں میں فٹ بال کا تجربہ کیا۔ طالب علم بہت ہی قابل تھے۔ تمام امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔ 90ء میں اُنھوں نے سائنس سے میٹرک کیا۔ دو برس بعد گورنمنٹ کالج تلورا سے انٹر کیا۔ اب ڈھاکا یونیورسٹی کا رخ کیا، اور شعبۂ اردو کا حصہ بن گئے۔

اردو کے چناؤ کا سبب یہ تھا کہ انٹر ہی کے زمانے میں وہ اِس سے آشنا ہوگئے تھے۔ اردو اختیاری مضمون تھا تب۔ رسم الخط سے جلد ہی دوستی ہوگئی۔ پھر یہ احساس بھی تھا کہ اگر اُنھوں نے اول پوزیشن حاصل کر لی، تو یونیورسٹی کی جانب سے ملازمت کی پیش کش کر دی جائے گی۔ 96ء میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں ایم اے کا مرحلہ طے کیا۔ اس زمانے میں ڈھاکا یونیورسٹی میں کوئی اسامی خالی نہیں تھی۔ مایوس ہونے کے بجائے وہ تحقیق میں جُٹ گئے۔ ایم فل میں داخلہ لے لیا۔ 2050 روپے بہ طور وظیفہ ملا کرتے تھے اس وقت۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں،''یہ رقم 17 گریڈ کے لیکچرر کو ملنے والی تن خواہ کے مساوی تھی۔'' سپروائزر کے مشورے پر ایم فل کے موضوع کو کچھ عرصے بعد پی ایچ ڈی میں منتقل کر لیا۔ 2005 میں ڈگری ملی۔ بعد میں کتابی شکل میں شایع ہو کر اِس مقالے نے خوب داد سمیٹی۔

پیشہ ورانہ سفر کا آغاز 2004 میں ڈھاکا یونیورسٹی سے ہوا۔ شعبۂ اردو میں وہ لیکچرار ہوگئے۔ ترقی کے لیے دو برس کا تجربہ اور ریسرچ شرط تھی۔ ریسرچ تو وہ بے روزگاری کے زمانے ہی سے کر رہے تھے، اس لیے جلد ہی اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئے۔ 2011 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کا منصب سنبھالا۔ 2008 تا 2011 شعبۂ اردو کے صدر رہے۔

اِس عرصے میں علامہ اقبال پر بھی تحقیق کی۔ اقبال اور رابندرناتھ ٹیگور کی شاعری کا موازنہ کیا۔ کہتے ہیں،''ٹیگور کی شاعری میں ہمیں 'بلاکا' (پرندوں کا جھنڈ) کا تصور ملتا ہے، جب کہ اقبال کے ہاں شاہین ایک علامت ہے۔ اقبال یہ پیغام دیتے ہیں کہ شاہین میں جو خصوصیات ہیں، اُنھیں اپنا کر آپ انسان کامل بن سکتے ہیں۔ ٹیگور نے بلاکا کو بہ طور علامت استعمال کرتے ہوئے یہی پیغام دیا۔ میں نے اپنی تحقیق میں دونوں شعرا کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے مشترکہ پہلوؤں کی نشان دہی کی۔''

بنگلادیش میں اردو کی صورت حال زیر بحث آئی، تو ڈاکٹر صاحب بتانے لگے کہ اس وقت وہاں کی دو جامعات ڈھاکا یونیورسٹی اور راج شاہی یونیورسٹی میں شعبۂ اردو قائم ہیں، لیکن داخلوں کی شرح بہت کم ہے۔ جو طلبا دیگر مضامین میں داخلہ نہیں لے پاتے، وہ شعبۂ اردو کے حصے میں آجاتے ہیں۔ بہ قول ان کے،''ماضی میں پیش آنے والے سانحات کی وجہ سے لوگ اردو میں قطعی دل چسپ نہیں لیتے۔ والدین نہیں چاہتے کہ اُن کے بچے اردو پڑھیں۔ جن افراد کی مادری زبان اردو ہے، وہ بھی اپنے بچوں کو انگریزی پڑھا رہے ہیں، یعنی بنگلادیش میں دھیرے دھیرے اردو ختم ہورہی ہے۔ ہاں، عربی کے مانند اِسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، مگر ملازمتوں کے مواقع بہت کم ہیں۔ یہ کہنا پڑے گا کہ وہاں اردو کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔''

رومن اسکرپٹ کے بڑھتے ہوئے برتاؤ پر بات ہوئی، تو کہنے لگے، اگر اردو کو رومن اسکرپٹ میں لکھا جائے، تو ابلاغ سہل ہوجائے گا، بنگلادیش اور ہندوستان میں رہنے والے، جو اردو بولی سمجھ لیتے ہیں، مگر رسم الخط سے ناواقف ہیں، وہ بھی ابلاغی عمل میں شامل ہوجائیں گے۔ البتہ اس بات کی نشان دہی بھی ضروری خیال کرتے ہیں کہ اگر یہ چلن عام ہوگیا، تو اردو رسم الخط کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

پاکستان کا پہلا دورہ زندگی کا خوش گوار ترین لمحہ تھا۔ 2006 میں وہ حکومتِ پاکستان کے مہمان تھے۔ اس وقت تاریخی مقامات دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ بے روزگاری کے زمانے سے تلخ یادیں جڑی ہیں۔ ان دنوں ہر کوئی پوچھا کرتا تھا؛ کب ملازمت ملے گی؟ طنزاً یہ بھی کہہ دیا جاتا؛ دیکھ لیا اردو پڑھنے کا نتیجہ! اُسی زمانے میں شادی ہوئی تھی۔ بس، ایم فل کے وظیفے پر گزربسر ہوتا۔

ڈاکٹر صاحب خوش لباس آدمی ہیں۔ پینٹ شرٹ میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ گوشت اور چاول سے اُنھیں رغبت ہے۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔ فلموں میں شہنشاہ اچھی لگی۔ سلمان خان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ لتا کی آواز بھاتی ہے۔ اردو شعرا میں غالب کے مداح ہیں، اُسے لازوال تصور کرتے ہیں۔ بنگلا شعرا میں قاضی نذر الاسلام کو سراہتے ہیں۔ فکشن نگاروں کی بات نکلی، تو بنگلا فکشن نگار، بیدئن صمد کا نام لیا۔ اردو افسانہ نگاروں میں پریم چند کا تذکرہ کرتے ہیں۔ خدا نے اُنھیں ایک بیٹے سے نوازا۔ کہتے ہیں،''بیٹا تو اردو نہیں جانتا۔ ہاں، بیگم اردو تھوڑی بہت بول لیتی ہیں، مگر پڑھ نہیں سکتیں۔''

ہندی اردو جھگڑے کی بنیاد فورٹ ولیم کالج میں پڑی
جون گل کرسٹ کی قدرومنزلت کے باب میں ان کے نزدیک مورخین میں تھوڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔

ہندی اور اردو، دونوں ہی محققین ان پر جانب داری کا الزام لگاتے ہیں۔ ''کچھ کے خیال میں ان کی لسانی حکمت عملی ہی سے اردو ہندی جھگڑا کھڑا ہوا۔ اور یہ کچھ حد تک درست بھی ہے۔ دراصل فورٹ ولیم کالج میں انگریز اساتذہ پروفیسر، مسلمان منشی اور ہندو پنڈت کہلاتے تھے۔ منشیوں کے ذمہ دیگر زبانوں کی کتب سلیس اردو میں ترجمہ کرنے کی ذمے داری تھی، اُن ہی کتب کو پنڈتوں نے سلیس ہندی میں ترجمہ کیا۔

اُسی زمانے میں یہ تقسیم واضح ہوگئی، اردو اور ہندی جھگڑے کی بنیاد پڑی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اردو اور ہندی کا جھگڑا ڈاکٹر جان گل کرسٹ کی حکمت عملی پر مبنی تھا۔ انگریز جانتے تھے کہ اگر ہندو اور مسلمانوں میں تفریق پیدا کر دی جائے، تو برصغیر پر حکومت کرنا آسان ہوگا۔ اس کے باوجود اردو ادب کے مورخین نے گل کرسٹ کی خدمات کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لیا۔ ڈاکٹر لکشمی ساگر اور مولوی عبدالحق نے ان کی خدمات کو سراہا۔ سچ تو یہ ہے کوئی شخص اس مرتبے کا حامل نہیں ہوسکتا، جو گل کرسٹ نے اردو ادبی و لسانی تاریخ میں حاصل کیا۔''

جون گل کرسٹ اور کرنل ہالرائیڈ، اردو کے محسنین

پی ایچ ڈی تھیسس پر بات نکلی، اُن کا موضوع زیر بحث آیا، تو کہنے لگے، انگریزوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اندازہ لگایا کہ برصغیر میں یوں تو کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، مگر اردو رابطے کے عمل میں زیادہ معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ تو انگریزوں نے اردو میں دل چسپی لی، اُسے سرکاری زبان کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ 10 جولائی 1800 کو فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی گئی۔
ڈاکٹر جان گل کرسٹ شعبہ برائے ہندوستانی (اردو) زبان کے سربراہ تھے، جنھوں نے اس موضوع پر سولہ کتابیں لکھیں۔ بہ قول اُن کے،''اِس نقطۂ نگاہ سے ہم جون گل کرسٹ کو جدید اردو نثر کا جنم داتا قرار دے سکتے ہیں۔ انگریز دور میں، سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو نے جو ترقی کی، اس کا سہرا جان گل کرسٹ کے سر ہے۔ شاعری میں جو ترقی ہوئی، اس کا کریڈٹ کرنل ہالرائیڈ کو جاتا ہے، جو ڈائریکٹر، سررشتہ تعلیم، پنجاب کے منصب پر فائز تھے۔

انھوں نے اہم ترین کام یہ کیا کہ 1874 میں لاہور میں ایک انجمن قائم کی، جس نے نیچرل مضامین پر عمدہ نظمیں لکھوائیں۔ الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد نے بعض نظمیں ان ہی کی تحریک پر لکھیں۔ الغرض اردو نثر کی طرح جدید شاعری کی بنیاد بھی ایک حد تک انگریزوں ہی نے ڈالی۔
''
اردو کو کب سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا؟ اِس ضمن میں اُن کے مطابق اختلاف پایا جاتا ہے،''کوئی 1828 کہتا ہے، کوئی 1832، البتہ اکثریت کی رائے میں نومبر 1837 صحیح سن ہے، جب اردو کی سرکاری حیثیت کا اعلان ہوا، اور فارسی کو دفاتر سے خارج کر دیا گیا۔''

انگریزی نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے!
اردو ادب پر انگریزی ادب کے اثرات بھی اُن کی تحقیق کا ایک موضوع تھا۔ اس بابت سوال کیا، تو کہنے لگے،''انگریزوں کی برصغیر میں آمد سے قبل اردو میں داستانیں اور رومانوی غزلیں تھیں، مگر اس میں ناول، افسانہ، نظم، تنقید اور ڈرامے جیسی جدید اصناف نہیں تھیں۔

جب انگریز حکومت میں آئے، تو اُن کے کئی ادیبوں نے یہاں کا رخ کیا، جن کی سرپرستی میں اردو میں مختلف اصناف متعارف کروائی گئیں۔ فورٹ ولیم کے بعد 1827 میں دہلی کالج قائم ہوا، جہاں 'ٹرانسلیشن سوسائٹی' کی بنیاد رکھی گئی، جس کے تحت سائنس اور ٹیکنالوجی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرکے قسط وار اخبارات میںشایع کروایا گیا، اور پھر انھیں کتابی شکل دی گئی۔ اس طرح سائنس، ٹیکنالوجی اور قانون سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ ہوا۔ اگلے مرحلے میں ادب کا ترجمہ کیا گیا، جس کے بعد یہاں کے تخلیق کاروں نے ان اصناف میں لکھنا شروع کیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انگریزی ادب نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں