دورہ امریکا کا حاصل
حکمرانوں کے پے در پے امریکی دوروں کے باوجود پاک امریکا تعلقات میں ہمیشہ سرد مہری کا عنصر غالب رہا
امریکی خارجہ پالیسی کے اسرار و رموز کو سمجھنے اور اس کی تاریخ پر نظر رکھنے والے مبصرین و تجزیہ نگار اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکا نے اپنے قومی، علاقائی و عالمی مفادات کے تحفظ کی پالیسی پر کسی بھی ملک سے ایسا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا کہ جس سے اس کی حاکمیت و عالمی بالا دستی پر کوئی حرف آتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا آج دنیا کی اکلوتی سپر پاورکہلاتاہے۔ پاک امریکا تعلقات کی تاریخ بھی ایسی ہی مدوجزر کے مختلف مراحل سے گزرتی رہی ہے کہ جس میں پاکستان امریکی مفادات کے تحفظ کے بھاری پتھر تلے دبا چلا آرہاہے۔ امریکی صدور نے گزشتہ چھ دہائیوں میں پاکستان کے گنتی کے چند دورے ہی کیے ہیں جب کہ لیاقت علی خان سے لے کر میاں نواز شریف تک وطن عزیز کا شاید ہی ایسا کوئی عسکری و سول حکمراں گزرا ہو جس نے امریکی یاترا کا ''اعزاز'' حاصل نہ کیا ہو۔
حکمرانوں کے پے در پے امریکی دوروں کے باوجود پاک امریکا تعلقات میں ہمیشہ سرد مہری کا عنصر غالب رہا اور فریقین کے درمیان اعتماد و اعتبار کا مستحکم رشتہ قائم نہ ہوسکا۔ امریکی حکمران پاکستان کی ضروریات اور مسائل کو سمجھنے کے باوجود انھیں حل کرنے میں مدد دینے سے کہیں زیادہ اپنے مفادات کو فوقیت دیتے اور پاکستان پر دبائو بڑھانے کی پالیسی پر گامزن رہے۔ جس کی تازہ ترین مثال وزیراعظم میاں نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکا سے دی جاسکتی ہے۔ اگرچہ نواز حکومت کے ترجمانوں اور بہی خواہوں کے نزدیک یہ دورہ نہایت کامیاب اور شاندار رہا اور میاں صاحب اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں، غیر جانبدار مبصرین و تجزیہ نگاروں اور ملک کے فہمیدہ و صائب امرائے حلقوں کے نزدیک وزیراعظم کے دورہ امریکا میں کوئی قابل ذکر ''بریک تھرو'' نہیں ہوسکا۔
کہاجا رہا ہے کہ پاکستانی ارباب اختیار صدر باراک اوباما سے ملاقات کے دوران ملکی حالات کے تناظر اور درپیش بڑے چیلنجوں کے پس منظر میں دہشت گردی و ڈرون حملوں کے خاتمے، بیرونی مداخلت بالخصوص بلوچستان میں بھارتی در اندازیاں اور افغان جنگجوئوں کی سرحد پار کرکے پاکستانی علاقوں میں کارروائیاں، تنازعہ کشمیر اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے حوالے سے کھل کر اور مدلل انداز میں پاکستان کا موقف پیش کرنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وطن عزیز کو معاشی بد حالی اور انرجی بحران کا سامناہے، تعلیم ودیگر سماجی شعبوں میں بھی تعاون و امداد کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے امریکیوں کو آگاہ کرنا غلط نہ تھا لیکن یہ حقیقت بھی اظہرمن الشمس ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن تک بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا رخ نہیں کریںگے اور پاکستان مزید مشکلات و مسائل کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔
لہٰذا پہلی ترجیح ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہونی چاہیے تھی۔ اور امریکی ڈرون حملے رکوانے کے لییپاکستان کو ساری توانائیاں صرف کرنی چاہیے تھی، لیکن ابھی تک پاکستان یہ ''ہدف'' حاصل کرنے میں ناکام رہا، الٹا باراک اوباما نے پاکستان پر دبائو بڑھاتے ہوئے کہاکہ امریکا پاکستان میں دہشت گردی کم کرنے کی کوشش کررہاہے، یہاں امریکی صدر کا اشارہ ڈرون حملوں کی طرف تھا کہ جن کے ذریعے بقول امریکا کے ''دہشت گردوں کو نشانہ بنایاجارہاہے'' جس سے دہشت گردی کم ہوگی حالانکہ ڈرون حملے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان نے حکومت سے مذاکرات کے لیے ڈرون حملے رکوانے کی شرط رکھی ہے اور عدم تکمیل کی صورت میں مذاکرات نہ کرنے اور خودکش حملے و بم دھماکے جاری رکھنے کا اعلان کررکھاہے۔
صدر اوباما نے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے پاکستان کو مزید اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کی ہے اور ساتھ ہی جماعۃ الدعوۃ پر پابندی اور حافظ سعید صاحب کی گرفتاری اور اسامہ کی گرفتاری میں مدد کرنے والے شکیل آفریدی کی حوالگی کا مطالبہ بھی کردیا۔ تنازعہ کشمیر پر اوباما نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ بھارت تیسرے فریق کی ثالثی پر آمادہ نہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو پاکستانی حکمران امریکی صدر باراک اوباما سے کوئی قابل ذکر مطالبہ منوانے کی بجائے امریکی صدر کے مطالبات وہدایات پر آمناً وصدقناً کہتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اندرون وطن بعض حلقوں کی جانب سے میاں صاحب کے دورے کو متوقع کامیابی سے تعبیر نہیں کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن اور دیگر اہم مذہبی و سیاسی رہنمائوں کی جانب سے میاں صاحب کے دوریکو کامیاب قرار نہیں دیا جا رہا ۔
امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیدار نے پریس بریفنگ میں اوباما نواز ملاقات کے حوالے سے کہا کہ ڈرون حملوں پر پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ حافظ سعید سے متعلق ٹھوس شواہد پاکستان کو دیے ہیں، عافیہ صدیقی پر مزید بات نہیں ہوگی، پاکستان کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدامات کرے وغیرہ وغیرہ ۔ اس پر کچھ حلقوں نے تبصرہ کیا کہ کیا اب سب کچھ پاکستان امریکی خواہشات اور بھارتی توقعات کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دے گا؟ کیا حکومت امریکی و بھارتی مفادات کے تحفظ کی نگراں بن جائے گی؟ ایسے بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں لیکن ایسا شاید مکمل ممکن نہیں کیوں کہ ہر حکومت اپنے ملکی مفادات کا بھی خیال رکھتی ہے۔بعض حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکی مطالبات اپنی جگہ مگر حکومت پاکستان ملکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچنے دے گی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ جاری کردہ رپورٹ میں امریکی ڈرون حملوں کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ امریکا پاکستان میں ڈرون حملے کرکے جنگی جرائم کا مرتکب ہورہاہے۔
ان حملوں میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر امریکا کو جواب دہ ہونا چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق 22سو افراد ہلاک ہوئے جن میں چھ سو کے قریب بے گناہ لوگ شامل تھے۔ امریکا اس رپورٹ پر خاصا چراغ پا ہوا بالخصوص ڈرون حملوں کو جنگی جرائم قرار دینے پر اپنے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ ڈرون حملے پاکستانی حکومت کی رضامندی سے کیے جارہے ہیں، امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ڈرون حملوں کی توثیق کرتارہاہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے پاکستان کے دیرینہ موقف کی تائید ہوتی ہے تو کیا ہم نے یہ تسلیم کرلیاہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی رضامندی سے ہورہے ہیں جیسا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے۔ تو پھر شور و غل کیسا، آہ و فغاں کیوں ہے؟ اب ہماری موجودہ حکومت اس امر کا اظہار کر رہی ہے کہ وہ ڈرون حملے رکوانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے۔