نوسرباز دوسرا اور آخری حصہ
مجھے اس گاڑی کی ضرورت نہیں کہ فی الوقت مجھے اس کام کی نوعیت کا ہی پتہ نہیں جس کے لیے یہ مجھے دی جارہی ہے۔
آپ کو نہ سہی آپ کے وطن کو اس کی ضرورت ہے، اس بہانے سے ملک میں گرانٹ آئے گی، اس کا نام بلند ہوگا۔ دنیا ہمارے مسائل کو جان سکے گی اور آپ کو بھی آپ کے شایانِ شان معاوضہ ملے گا۔ ہم نے انتظام کردیا ہے۔ آپ کے نام پر ایک نئی گاڑی آیندہ دس منٹ میں جاری ہوجائے گی جو اب آپ ہی کے پاس رہے گی۔
آپ ٹھوکر نیاز بیگ پر واقع شو روم پر پہنچ جایئے،وہاں ہمارا سرکاری ڈرائیور موجود ہوگا، گاڑی کی ملکیت کے کاغذات تیار ہوں گے، وہ لے کر پنجاب ہاؤس اسلام آباد پہنچ جایئے، میں اور UNDP کا نمایندہ دونوں آپ کے منتظر ہوں گے، بس آپ جلدی کیجیے۔
یہ ساری بات اس قدر اچانک اور تیزی سے ہوئی کہ میری کچھ سمجھ میں ہی نہیں آیا۔ وزیراعظم عمران خان سے جان پہچان کا زمانہ پچاس برسوں پر پھیلا ہوا ہے کہ کچھ عرصہ ہم نے ایک ساتھ کرکٹ بھی کھیلی تھی اور اس کے بعد بھی پاکستان کے اندر اور باہر مختلف حوالوں سے اُن سے ملاقات رہی، ہر چند کہ یہ تعلق سرسری سا تھا ضرور، اُن سے آخری ملاقات کوئی چھ برس قبل 2013ء میں ایک دوست کے ہاں کھانے پر ہوئی تھی۔
جس میں ہم دونوں نے ایک مشترکہ دوست شیخ محمد وارث کے معاملے پر خاصی لمبی گفتگو بھی کی تھی جو ایک حادثے کی وجہ سے اُس وقت امریکا میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے (اور اب تک وہیں اُس وقت کے انتظار میں ہیں جب اُن کی بات سنی جائے گی) مگر اس کے بعد نہ ہی انھوں نے کبھی ملاقات کا موقع نکالا اورنہ ہی اللہ کے کرم سے مجھے اس کی ضرورت پڑی لیکن اب معاملہ چونکہ پاکستان کے مفاد کا بھی تھا اس لیے میں ذہنی طور پر جانے کے لیے تیار ہوگیا، اب یہاں سے کہانی نے پلٹا کھایا اور ایک بار پھر پی اے نے منسٹر صاحب سے فون ملوایا۔
انھوں نے بتایا کہ گاڑی کے ریلیز آرڈر پرتو انھوں نے دستخط کردیے ہیں اور کمپنی کو ای میل بھی کر دیا گیا ہے مگر ابھی ابھی انھیں معلوم ہوا ہے کہ کمپنی کے ہینڈلنگ چارجز کے ضمن میں دو لاکھ ستر ہزار کی رقم گاڑی کی ڈلیوری سے پہلے جمع کرانا ضروری ہے۔ آپ ایسا کریں کہ فلاں بینک میں یہ رقم جمع کروادیں، ہم آپ کو یہ رقم آپ کے اسلام آباد پہنچتے ہی ادا کردیں گے بصورتِ دیگر یہ بات خوامخواہ لٹک جائے گی۔
میں نے کہا اول تو مجھے اس گاڑی کی ضرورت نہیں کہ فی الوقت مجھے اس کام کی نوعیت کا ہی پتہ نہیں جس کے لیے یہ مجھے دی جارہی ہے، میں اپنی گاڑی پر آجاتا ہوں ۔کہنے لگے آپ شاعر آدمی ہیں، معاملے کی نوعیت کو نہیں سمجھ رہے، میں آپ کو ایک بھائی کی حیثیت سے مشورہ دے رہا ہوں کہ اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کونہ ٹھکرایئے ، آپ بینک میں رقم جمع کراکے رسید کمپنی کو دیجیے اور اسی گاڑی پر آیئے اکاؤنٹ نمبر آپ کو بینک پہنچنے سے پہلے مل جائے گا۔
اب یہ بات ایسی تھی جس پر میرا چونکنا بنتا تھا کہ جب معاملہ حکومت کا ہے تو کمپنی کو کس بات کی بے اعتباری ہے، اب میرے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تو میں ''وزیر محترم'' کے مشورے پر عمل کردوں یا اس بات کی تصدیق کروں کہ میری بات وزیر محترم غلام سرور سے ہی ہو رہی ہے یا کسی فراڈیئے سے۔ میں نے سب سے پہلے پی ٹی وی کے اس افسر کے نام ، عہدے اور فون نمبرکی تصدیق کی تو سب کچھ صحیح تھا۔
ان سے دوبارہ بات ہوئی تو میں نے انھیں ساری بات بتائی کہ اگرچہ بہت سی باتیں اس معاملے کو مشکوک بنا رہی ہیں لیکن اگر یہ فون منسٹر صاحب ہی کا تھا تو یہ امکان ہوسکتا ہے کہ واقعی وقت کی کمی، وزیراعظم کے دباؤ یا وطن کی محبت ، کسی بھی وجہ سے یہ صورتِ حال پیدا ہوگئی ہو۔ میں نے وزیر کے پی اے کے اُن کے سیل نمبر سے رابطہ کرنے اور وزیر صاحب کے فوراً ہی لائن پر آنے اور رقم کے اس مشکوک سلسلے کا ذکر کیا تو وہ صاحب ہی گڑ بڑا گئے۔
دماغ پر زور دیا تو دو باتیں سمجھ میں آئیں کہ ایک تو اس بات کی تصدیق کی جائے کہ مجھ سے بات کرنے و الا شخص واقعی غلام سرور صاحب تھے اور دوسرا یہ کہ متعلقہ شو روم کے اس بات کو کنفرم کیا جائے کہ اُن کے اسی قسم کا کوئی ریلیز آرڈر پہنچ چکا ہے، کچھ دوستوں کی مدد سے دونوں کام ہوگئے اور ثابت ہوگیا کہ نہ تو وہ فون غلام سرور صاحب کے تھے اور نہ ہی ایسی کوئی گاڑی اُس شوروم پر موجود ہے ۔ میں نے فوراً برادرم سہیل تاجک ڈی آئی جی پولیس کو فون کرکے ساری بات بتائی جس پر اُن کا عملہ فوراً حرکت میں آگیا۔
اب پانچ دن بعد میں کراچی آرٹ کونسل کی بارہویں عالمی اُردو کانفرنس سے لوٹا ہوں تو جی چاہا کہ اُس کے بارے میںکچھ لکھنے سے پہلے اس موضوع پر بات کی جائے، ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ متعلقہ نو سر باز اور فراڈیئے پکڑے گئے ہیں یا نہیں لیکن اس رُوداد کو قارئین سے شیئر کرنا کئی حوالوں سے زیادہ ضروری تھا کہ اس طرح کی وارداتیں آج کل بہت زوروں پر ہیں اور متعلقہ اداروں کو بھی اس کا فوری اور سنجیدہ نوٹس لینا چاہیے۔