گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے
غصے سے بے قابوہوکر ہی ہمارے اور آپ کے سارے کام بگڑتے یا خراب ہوتے ہیں۔
ہم نے اپنی زندگی میں گھٹ گئے انسان، بڑھ گئے سائے کے بڑے عجیب وغریب مناظر دیکھے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب بڑے سے بڑے آدمی میں بلا کا انکسار اور عاجزی ہوتی تھی۔ وہ ''خاکسار'' کا لاحقہ لگانا ضروری خیال کرتے تھے۔
بیشتر لوگ اپنے نام کے ساتھ احقر ، مخلص اور گناہ گار کا لفظ بکثرت استعمال میں لاتے اور خود نمائی سے بڑی حد تک اجتناب کرتے تھے البتہ ان عظیم شخصیتوں کو قوم کی طرف سے اعلیٰ القابات نوازے جاتے رہے، جو تاریخی کارنامے سر انجام دیتے رہے۔ حکیم الامت ، علی برادران ، قائداعظم اور قائد ملت کے خطابات یا القابات عامۃ المسلمین نے دیے تھے جو ہماری تاریخ میں کہکشاں کی طرح جگمگاتے ہیں۔
افسوس برسہا برس سے ایسے نابغۂ روزگار ہمارے معاشرے میں پیدا ہونا ہی بند ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ سطحی، اخلاق سے گرے ، ذہنی پستی میں پڑے لوگوں نے لے لی ہے جن کے پاس علم تو ہے لیکن عمل نہیں، دل تو ہے لیکن احساسات وجذبات سے یکسر عاری نتیجے میں ایسے لوگ معاشرے ، خطے یا اطراف میں سوائے انتشار ، خلفشار اور غصے ، تلخی کے اور کچھ نہیں پھیلا رہے۔
اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں اس وقت ہر دوسرا فرد ذہنی تنائوکا شکار ہے۔ ہر وقت کی فکر مندی ، جلد غصہ آجانا ، خوفزدہ یا پریشان رہنا اور مستقل چڑچڑا پن یہ ہے آج کے ہر دوسرے انسان کی پہچان یا شناخت ۔ غورکیاجائے تو ایسا اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ آج تقریباً ہر پہلا انسان معاشی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ حددرجہ گھریلو مسائل و مصائب کا شکار ہے۔ بے پناہ مہنگائی اور قلیل آمدنی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری نے آج کے انسان کو عبرت بنا دیا ہے۔ ایسے لوگوں کو اچھی بات بھی بری لگتی ہے ان کے چہرے پر تفکر کی انمٹ لکیریں اور ماتھے پر بل پڑچکے ہیں۔ وہ اصلاح اور سدھار کے حوالے سے بھی کچھ سننا پسند نہیں کرتے۔ معمولی معمولی بات پر سیخ پا یا حددرجہ تلخ ہوکر وہ اپنے اطراف میں زہرگھول دیتے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ذہنی تنائوکی وجہ سے ڈپریشن ، سردرد ، دل کے امراض ، ہائی بلڈپریشر ، دمہ، ذیا بیطس اور جوڑوں اور معدے کے درد جیسے مہلک امراض کا لوگ شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی نہیں وطن عزیز میں 15سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں میں خودکشی کا رحجان بھی بڑھتا جا رہا ہے اور ایک جائزے کے مطابق اس طرح کی خودکشیوں میں 79فیصد خودکشیاں تیسری دنیا کے ممالک میں ہورہی ہیں۔
حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ ''ہر انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے'' لیکن کیا ہے کہ بدکلامی یا غلط بات کہہ کے وہ اپنا آپ ظاہر کر دیتا ہے۔ دانائوں نے ہمیشہ سے کم بولنے کو عافیت کہا ہے لیکن فرسٹریشن ، ہیجان، معاشی ناہمواری اور حد درجہ عوامی استحصال نے کسی کی بھی عافیت کو قائم رہنے نہیں دیا۔ کون نہیں جانتا کہ زیادہ بحث و مباحثہ ہمیشہ سے جھگڑے لڑائی کی وجہ رہی ہے اور اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بحث ، جھگڑا یا زبان درازی روح کو تڑپا دیتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ صرف سخت کلامی ہی آگ کا وہ شعلہ ہے جو ہمیشہ کے لیے انسانی ذات پر داغ چھوڑ دیتا ہے اور بے قابو زبان ڈنک بن جاتی ہے۔ کبھی کسی کے لیے اور کبھی خود اپنے لیے۔ زبان ہی وہ واحد درندہ ہے جسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ اپنے ہی وجود کو کاٹ لیتا ہے۔
گردوپیش پر نگاہ کی جائے تو پتا چلے گا کہ ہر دوسرا وجود اس وجہ سے گھائل ہے، مگر نہ تو مضبوط آدمی کی پہچان صبر وتحمل کا مظاہرہ ہی ہے لیکن اس قسم کے مظاہر افسوس کمیاب ہوکر رہ گئے ہیں ہمارے معاشرے سے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے(اللہ تعالیٰ کمی بیشی معاف فرمائے) ایک بار ایک شخص حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کسی بات پر بری طرح جھگڑ پڑا۔ ابتدا میں حضرت ابوبکر ؓ خاموشی سے سنتے رہے اور اس کی تلخ کلامی کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اس موقع پر حضور اکرمﷺ بھی تشریف فرما تھے جو یہ سب دیکھ اور سن کر مسکرا رہے تھے۔ وہ شخص جب بہت ہی زیادہ غصے میں آکر ہذیان بکنے لگا تو ابوبکر صدیقؓ بھی اسے جواب دینے لگے۔ یہ دیکھ کر حضور اکرمﷺ اٹھ کر خاموشی سے چلے گئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ پریشان ہو گئے اور وہ حضور اکرمﷺ کے گھر پہنچ گئے اور کہا ''جب وہ شخص مجھے اول فول بک رہا تھا اور میں خاموش تھا تو آپ مسکرا رہے تھے، لیکن جب میں جواب دینے لگا تو آپ اٹھ کر چلے گئے آخر آپ نے ایسا کیوں کیا؟'' آنحضرتﷺ نے فرمایا ''جب وہ شخص تمہارے ساتھ بدزبانی کر رہا تھا تو فرشتہ تمہاری نیکی لکھ رہا تھا اور میں بھی تمہارے صبر و تحمل کی داد دے رہا تھا، لیکن جب تم نے بھی اپنا طرز عمل اس شخص کی طرح کا اختیارکرلیا تو فرشتے نے تمہاری نیکی لکھنے کا باب بند کر دیا۔ اس لیے میں بھی اٹھ کر آگیا۔''
کون نہیں جانتا کہ انسان کا گھر میں ، باہر یا ادارے میں بے لگام غصے کا اظہارکرنا اس کے لیے عزت میں کمی ، بیماریاں، پریشانیاں ، مصیبتیں ، تباہی اور بربادی ہی لاتا ہے۔ بے جا خون کا کھولنا ، بھڑکنا، آگ بگولا ہونا ، جھگڑا کرنا ، عداوت رکھنا ، مخالفت کرنا ، دشمنی، بد مزاجی ، ناراضگی اور ترش روئی سے بچنے کے لیے سوچوں میں تبدیلی ، تحمل برداشت ، نظر اندازکرنے اور معاف کر دینے کا جذبہ لانا ضروری ہے اور معاشرے کی سدھار بھی اس سے ہی ممکن ہے۔ غصہ دنیا میں وہ واحد حرام چیز ہے جسے پینے کی تلقین فرمائی گئی ہے، لیکن خاکی انسان حرام چیزوں کو اپنائے رکھنے پر ہی کمر بستہ چلا آرہا ہے۔
یہ درست ہے کہ غصے میں انسان واقعی عقل و خرد سے بیگانہ ہوجاتا ہے لیکن دماغ میں تعفن زدہ خیالات کے سبب اٹھتے ہوئے بدبو کے بھبکے سماجی یا ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب نہ بنیں ، اس کا اہتمام اور بندوبست تو کیا جاسکتا ہے۔ اگر نفرت کے تیزاب میں گل سڑ جانے والی اخلاقی قدریں آلائشوں میں تبدیل ہوچکی ہیں تو انھیں ٹھکانے لگانے کی تدبیرکرنی چاہیے اور اگر بوجوہ یہ بھی ممکن نہیں تو جا بجا اس کی قے کرنے سے گریز ضرور کرنا چاہیے تاکہ معاشرہ ہمارے اور آپ کے دماغ کی غلاظت سے محفوظ رہ سکے۔
غصے سے بے قابوہوکر ہی ہمارے اور آپ کے سارے کام بگڑتے یا خراب ہوتے ہیں۔ کیا ہم انسان بڑی آسانی سے اپنی غلطیوں ، کمزوریوں ، خامیوں اور عیبوں کو مقدرکے کھاتے میں ڈال کر خود کو بری الزمہ کرلیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے احمقوں کی ویسے بھی بہتات ہے جو یہ تک نہیں جانتے کہ وہ کچھ نہیں جانتے اور لاعلمی ، بدخبری کا یہ کرب انسان کو اس کے ساتھ ساتھ اس کے پیاروں اور گھر بار تک کو بعض اوقات تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے اور یوں وہ رہتی سانسوں تک دل کے پھانسی گھاٹ پر روز چڑھے رہتے ہیں اور دل کے پھانسی گھاٹ پر جھولنے والوں کو باہر کی سولی کبھی نصیب نہیں ہوتی۔