مگر ہوا کیا…
جس دورے کی اتنی ہاہاکار مچی ہوئی تھی اس کی رتی بھر بھی تیاری نہیں کی گئی تھی
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا... جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکلا۔ وزیراعظم پاکستان کے دورہ امریکا سے پہلے اور بعد میں ہر طرف شور مچا تھا، ہر چینل پر عجب بہار تھی، اینکر پرسنز اور ان کے بلائے ہوئے مہمان اپنی اپنی رائے دے رہے تھے کہ وزیراعظم کا دورہ امریکا بہت کامیاب رہے گا۔ مخالفین پر رعب ڈالے ہوئے کوئی کہہ رہا تھا، ڈالروں کی برسات ہوجائے گی، تو کسی سیانے نے ارشاد فرمایا، شیر امریکا جاکر سب کو پچھاڑ دے گا۔ کسی نے کہا اب سرمایہ داروں کے جہاز بھر بھر کے آنا شروع ہوجائیں گے، ڈرون حملوں کا تو خاتمہ ہی سمجھو، یہ تو شیر کی ایک گرج میں ہی بند ہوئے۔ مگر ہوا کیا؟
جس دورے کی اتنی ہاہاکار مچی ہوئی تھی اس کی رتی بھر بھی تیاری نہیں کی گئی تھی۔ عالمی میڈیا کے سامنے کاغذات کا پلندہ لے کر بیٹھ گئے، سوال گندم جواب چنا۔ پھرحالات نے بتا دیا کہ ہم تو خوئے غلامی سے تاحال نجات نہیں پاسکے ہیں، سرکار! آپ جو چاہیں کریں ہمیں انکار نہ پہلے تھا نہ اب ہے، بس ہمارا اقتدار قائم رہنا چاہیے۔
ہمارا مقصد امریکا کے سامنے ہرکولیس بننا نہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم امریکا کو آنکھیں ہی دکھائیں مگر کیا یہ مناسب تھا کہ اسلامی دنیا کے اکلوتے ایٹمی ملک کے سربراہ، اوباما کے سامنے اپنا موقف بھی کھل کر بیان نہ کرپائے، جس کا عالمی میڈیا کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے۔ ایسے مشیران جوکہ بڑے باتدبیر بتائے جاتے ہیں، انھوں نے نہ پہلے سے کوئی ہوم ورک کیا، نہ ہی جو ایجنڈا لے کر گئے تھے اس پر مکمل اعداد و شمار کے ساتھ کوئی پریزنٹیشن موجود تھی، حتیٰ کہ وزیراعظم کو جو نوٹس دیے گئے تھے وہ بھی وقت کی ضرورت کے مطابق نہ تھے، اور یہی وجہ ہے کہ پورے دورہ امریکا کے دوران ایک طرح کا کنفیوژن سب کو گھیرے نظرآیا ۔ وہ کاغذوں کے پلندے میں ہی الجھے نظر آئے۔ ہمارے حکام تو کیا سناتے، ان کی ہی سن کر اپنے گھر والوں کو لتاڑتے نظر آئے کہ اپنا ہی گھر درست کرنا ہوگا۔
جناب گستاخی معاف ! اپنی خامیاں اپنی خرابیاں سب معلوم ہیں آپ کو بھی اور تمام پاکستان کے رہنے والوں کو بھی لیکن گھر کی بات گھر میں رہے تو اچھا ہوتا ہے۔ پڑوسی ملک کو ہی دیکھ لیں، جس کی چاہت بہت زیادہ ہے ، وہاں کچھ بھی ہوجائے ان کا وزیراعظم یا کوئی دوسرا ذمے دار آدمی اپنی غلطیوں کو اس طرح نہیں بیان کرتا نہ ایسا کہہ سکتا ہے ، ممبئی حملوں کا واقعہ ہو یا کشن گنگا ڈیم کی تعمیر، کشمیر کا معاملہ، سب کو پتہ ہے کہ ہندوستان ناجائز بالادستی قائم رکھنے کے لیے جائز و ناجائز ہر کام کر گزرتا ہے مگر ان کے پاس ہر غلط کام کے لیے بھی ماہرانہ اور ڈپلومیٹک جواز اور دلیلیں ہوتی ہیں۔ یاد رکھیں غلطیاں سب سے ہوتی ہیں مگر ان کو سدھارنے کی ترکیب کی جاتی ہے اور جہاں بہتر سمجھا جاتا ہے ان غلطیوں اور خامیوں کو اپنی کمزوری بنانے کے بجائے اپنی طاقت بنایا جاتا ہے۔ دہشت گردی ہو یا مہنگائی، سرکاری اداروں کی نج کاری ہو یا ریلوے کی درستگی، امن وامان کا مسئلہ ہو یا صحت عامہ کے لیے کیے جانے والے اقدامات، ان سب کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ گھر بنانے کے لیے پہلے پیسہ خود لگانا پڑتا ہے اس کے بعد امداد کی توقع کی جاتی ہے مگر کشکول توڑنے والوں نے بڑا کشکول بنوالیا ہے اور عوام کو قربانی کا سبق دے کر خود عیش و عشرت میں پڑجائیں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ کہیں عزت نہیں ملتی، ڈرون نہیں رکتے، آج پھر حملہ ہوا۔ذلت و رسوائی ہی مقدر ٹھہرتی ہے۔ عوام کے منہ سے نوالا چھین کر آپ اقوام عالم میں کس طرح عزت حاصل کرسکتے ہیں۔
ابھی نئی حکومت کو قائم ہوئے 4 مہینے ہی ہوئے ہیں مگر لوگ زرداری اور ''قیدی ''مشرف کو یاد کرنے لگے ہیں۔ جناب وزیراعظم! اب بھی وقت ہے، آپ کو اﷲ نے تیسری بار یہ موقع دیا ہے، آپ عصری حقائق کو پہچانیں، پاکستان کو بہتری کی راہ پر لانے کے لیے اگر سخت فیصلے بھی کرنے پڑیں تو ضرور کریں مگر عوام کے منہ سے روٹی کا نوالا نہ چھینیں، سیاست دان اور ملکی سرمایہ دار اپنی صنعتیں ہندوستان، سعودی عرب، لندن میں لگا کر کس طرح غیر ممالک کے سرمایہ داروں کو پاکستان میں صنعتیں لگانے کا کہہ سکتے ہیں۔ یہ آخری موقع ہے، آپ کے پاس اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو جمع کریں جو سچے پاکستانی اور عوام سے اور ملک سے محبت کرنے والے ہوں، آپ پاکستان کے با اختیار و طاقتور حکمران ہیں، وقت ابھی آپ کی مٹھی میں ہے۔ پاکستان کی بہتری کے لیے راست اقدامات کریں۔قوم منتظر ہے۔