’’دسمبر‘‘
دسمبر کا مہینہ ہم پاکستانیوں پر ہمیشہ بھاری رہا ہے۔ دسمبر کا مہینہ ہمارے زوال کا مہینہ ہے۔
آج صبح جیسے ہی اخبارات کا بنڈل کھولا تو نظر جس خبر پر ٹھہر گئی اس کے ساتھ ایک تصویر بھی جڑی ہوئی تھی، تین خوبصورت بچے جو آپس میں دوست بھی تھے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے کھڑے ہیں، مجھے ایسے لگا کہ میرے اپنے نواسے اور پوتا کھڑے ہیں، تصویر کے ساتھ خبر کی سرخی پر نگاہ دوڑائی تو لکھا تھا ''تین جگری دوستوں کی مائیں بیٹوں کی شہادت کے بعد سہیلیاں بن گئیں۔ آرمی پبلک اسکول کے یاسین، رفیق اور مبین ٹرائی اینگل فرینڈ تھے، مائیں مل کر دکھ بانٹتی ہیں''۔
ایکسپریس پشاور کے رپورٹر احتشام خان کی خبر اپنے اندر کئی کہانیاں لیے ہوئے تھی۔ یہ تینوں دوست اسکول میں ٹرائی اینگل فرینڈزکے نام سے مشہور تھے اور اسی نام سے پکارے جاتے تھے۔ ہر وقت ساتھ رہتے، اسکول سے واپسی کا سفر اکٹھے طے کرتے اور 16 دسمبر کو اکٹھے شہادت کا درجہ پا گئے۔ بچوں کی دوستی کو مائیں نبھا رہی ہیں، فرق اتنا بتا رہی ہیں کہ پہلے ان کی سالگرہ پر ہنستی تھیں تو اب ان پھولوں جیسے معصوم شہیدوں کی سالگرہ پر آنسو بہاتی ہیں۔
سچ پوچھیں تو ڈھلتی عمر میں ایسی خبریں نہ پڑھنے کا حوصلہ ہے اور نہ ہی ٹی وی پر دیکھ سکتا ہوں۔ ہمارے لیے تو یہ خبریں ہیں لیکن جن کے معصوم بچے سفاکانہ دہشت گردی کی نذر ہو گئے ان کے دل میںکوئی جھانک نہیں سکتا۔ شہید بیٹے کی مائیں سچ کہہ رہی ہیں کہ بیٹے کی شہادت کے بعد وہ زندگی جی نہیں رہیں بلکہ زندگی گزار رہی ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنے بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی کے دن گزارتے ہیں، ان کے ساتھ کھیل کود میں مشغول رہتے ہیں ، ان کی معصوم خواہشیں پوری کرتے ہیں۔
ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے لاکھ جتن کرتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو یہ نعمت میسر ہے کہ ہم میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو اس نعمت کے لیے ترستے ہیں۔ یہ سب اﷲ تبارک و تعالیٰ کی حکمتیں ہیں کہ منتوں مرادوں کے بعد اولاد عطا کرنے کے بعد واپس بھی لے لیتا ہے۔ شاید اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کے توکل کو آزماتا ہے کہ اس کا بندہ اس کا شکر گزار ہے یا شکوہ کناں۔ اس کا اپنے رب پر کتنا بھروسہ ہے۔ ''بے شک ہم تو اﷲ کے ہیں اور ہم کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے''۔
چند برس قبل آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کے سفاک حملے میں ہمارے سیکڑوں بچے شہید ہو گئے جن کا غم ہمیشہ تازہ رہے گا۔ ان معصوم شہیدوں کے بے گناہ خون کی مہک ہمیں دہشت گردی کے خلاف ایک نیا جوش اور جذبہ فراہم کرتی رہے گی۔ میرا ایمان ہے کہ میرے شہید معصوم بچے جنت میں اپنے والدین کے لیے دعا گو ہوں گے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے والدین کو صبر دے۔
دسمبر کا مہینہ ہم پاکستانیوں پر ہمیشہ بھاری رہا ہے۔ دسمبر کا مہینہ ہمارے زوال کا مہینہ ہے۔ ڈھاکا کی انمٹ یادیں ہمارے ساتھ جڑی ہیں۔ ہمارے رہنماؤں کی نا اہلیوں کی وجہ سے پاکستان دولخت ہو گیا لیکن اگر مسلم تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو مسلم سلطنتوں کے زوال کی داستانیں کوئی نئی بات نہیں۔ ہمارے رہنماؤں کی غلطیوں کی وجہ سے کئی عظیم سلطنتیں تباہ ہو گئیں اور آج ان کاذکر تاریخ کی عبرتوں میں شامل ہے۔ مسلمانوں کی زوال کی بات کی جائے تو ہمارے زوال کی تاریخ خلافت بغداد کے سقوط سے شروع ہوتی ہے اور اندلس، ہندوستان کی مغلیہ سلطنت، خلافت عثمانیہ کے عبرت ناک ذکر سے ہوتی ہوئی فی الحال سقوط ڈھاکا پر ختم ہوتی ہے۔
ان سلطنتوں کے زوال کی داستانیں بڑی المناک ہیں جن میں مسلم حکمرانوں کی غلط پالیسیاں ان کے شرمناک ذاتی کردار، عیاشیاں اور قومی مفادات سے بے نیازی کے ذکر سے بھری پڑی ہیں۔ ایک طرف تو ان لوگوں کے احترام میں آج بھی گردن جھک جاتی ہے جنھوں نے ان عظیم مملکتوں کی بنیاد رکھی اور دوسری طرف ان عظیم لوگوں کے بعد میں آنے والوں حکمرانوں کی غفلتوں کے سامنے گردن شرم سے جھک جاتی ہے جنھوں نے ان مملکتوں کو تباہ و برباد کر دیا، خود بھی عبرت کی علامت بن گئے اور اپنے عہد کو بھی آنے والوں کے لیے عبرت بنا دیا۔
ہم پاکستانیوں کی زندگیوں میں سب سے بڑا سقوط ڈھاکا کا تھا، اس سقوط کے ذمے دار بھی ہم خود ہی تھے چونکہ ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے بعد مشرقی پاکستان کے عوام کو مغربی پاکستان کے عوام کے ساتھ جوڑنے کی کبھی کوشش ہی نہیں بلکہ ہمارے رہنماؤں کو جب بھی موقع ملا تو انھوں نے اقتدار کی ہوس پرستی میں مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان پر فوقیت دی اور اقتدار کی یہی ہوس پرستی سقوط ڈھاکا کی بڑی وجہ بن گئی۔
سقوط ڈھاکا پر مختلف مکتبہ فکر کے لوگ اپنے اپنے علم اور پسند کے مطابق رائے زنی کرتے رہتے ہیں ۔کوئی فوج کو مورود الزام ٹھہراتا ہے تو کوئی اس وقت کے مغربی پاکستان کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو۔ میری گزارش صرف یہ ہے کہ ہمیں ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر اب آگے بڑھنا ہے لیکن اس کے ساتھ اپنی نوجوان نسل کو وقتاً فوقتاً اس بات کی یاد دہانی کرانی ضروری ہے کہ ہمارے ملک کو کیسی قیادت ملی جس سے ملک کا ایک بازو سنبھالا نہ جا سکا اور ا س قیادت نے اپنے مفادات کے لیے اس بازو کی قربانی سے دریغ بھی نہ کیا۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک المناک اورناخوشگوار حصہ ہے۔
ہر بڑا صدمہ سقوط بغداد ہو یا سقوط اندلس ملت اسلامیہ کو جھنجھوڑنے اور خواب غفلت سے جگانے کے لیے رونما ہوتا رہا، اگر قدرت اس قوم سے مایوس ہو چکی ہوتی تو یہ جھٹکے بار بار نہ لگائے جاتے۔ کسی عضو معطل کو بحال کرنے کے لیے برقی جھٹکے اسی اصول کے تحت لگائے جاتے ہیں، اگر عضو خراب اور ناکارہ ہو جائے تو پھر کاٹنا ضروری ہو جاتا ہے، یقینا جڑ کاٹنے کی نوبت نہیں آئی ورنہ قرآن میں ایسی قوموں کا ذکر ملتا ہے جن کی جڑ ہی کاٹ دی گئی۔ تا ہم اس میں اطمینان کا کوئی پہلو نہیں کہ قدرت ہم سے ابھی تک مایوس نہیں ہوئی۔ تمام قرائن اور شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ رب العالمین مسلمانوں سے راضی نہیں ہے۔
آج مسلمان ہر جگہ ذلت و رسوائی میں مبتلا ہیں، اس کا بڑا سبب عدم اتفاق، فرقہ وارانہ افتراق اور حکمرانوں کا شدید بے حمیتی اور فسق و فجور میں مبتلا ہونا ہے۔ ان اسباب کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس قوم کو جب بھی سزا ملی درست ملی۔ حالات ابھی تک وہی ہیں اور ہم سب ان حالات کی اصلاح پر تیار بھی نظر نہیں آتے۔