وہ جنگ ہو بھی چکی

جب جنگیں ہو جاتی ہیں تو جنگوں کی باقیات رہ جاتی ہیں اکثر جنھیں عجائب خانوں میں سجایا جاتاہے...


جاوید قاضی November 02, 2013
[email protected]

جب جنگیں ہو جاتی ہیں تو جنگوں کی باقیات رہ جاتی ہیں اکثر جنھیں عجائب خانوں میں سجایا جاتاہے، وہ بوسیدہ سی بندوقیں، ٹوٹی پھوٹی توپیں، کچھ پھٹی ہوئی وردیاں وغیرہ وغیرہ، عجائب خانے کے اندر داخل ہوں تو یوں گمان ہو گا کہ جنگ ابھی ٹھہری ہوئی ہے، ابھی بم کا گولا کہیں سے گرجے پھٹے گا۔ کوئی للکار تا ہوا آگے بڑھے گا، کوئی گرتا ہوا تو کوئی سنبھلتا ہوا نظر آئے گا۔

سچ کتنا بھی کڑوا کیوں نہ ہو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اگر انکار کیا جائے تو پھر ہم بھی نتیجتاً ان عجائب گھروں کی مانند ہو جاتے ہیں۔ جہاں جنگ اب بھی ٹھہری ہوئی ہوتی ہے۔ میں نے نوے کی دہائی میں کسی اخبار میں پڑھا تھا کہ ویت نام کے جنگلوں میں بیس سال گزرنے کے بعد بھی وہ متوالا بندوق تان کر بیٹھا تھا کہ ابھی کہیں سے امریکی فوجی لپک پڑے گا۔بے شک جنگیں کتنی بھیانک ہوتی ہیں، کتنی مائوں کے کلیجے چھلنی کر دیتی ہیں، وہ ماجرا تو میں نے ایک روسی کہانی میں پڑھا تھا کہ ایک ماں دوسری جنگ عظیم کے کئی سال گزرنے کے بعد بھی اپنے بیٹے کی تصویر لیے ڈھونڈنے نکلی تھی، بازاروں میں لوگوں سے پوچھتی رہتی تھی، وہ یہ سچ ماننے کو تیار ہی نہیں تھی کہ اس کا بیٹا جنگ کی نذر ہو چکا۔

ہماری بد نصیبی بھی کچھ اسی عجائب خانے کی طرح ہے جو سرد جنگ کے گزر جانے کی حقیقت سے انکاری ہے۔ ہمیں حالت جنگ میں کچھ سال پہلے تک تو اچھا لگتا تھا اور اگر اب اچھا نہیں بھی لگتا تو بھی ہم اس دلدل سے نکل نہیں سکتے، یعنی میں کمبل کو تو چھوڑ رہا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑے ہے۔ ہم پالیسی میں تبدیلی تو لا چکے مگر ہمارے بیانیہ Narrative میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی۔

ہماری داستان بھی کراچی میں رہتے ہوئے اس کامریڈ جیسی ہے جو جون کی تپتی دھوپ میں گرم کوٹ اوڑھے گھوم رہا تھا، کسی نے ماجرا پوچھا تو بولا ''کامریڈ ماسکو میں بڑی سردی پڑ رہی ہے'' یعنی مدعی سست گواہ چست، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہم ہیں۔ دنیا بھر کو اسلام کا قلعہ بنانے کی فکر ہم ہی کو ہے، عربوں کے اپنے تاریخی تضادات جو ان کے اندر مختلف رنگ اختیار کر لیتے ہیں، ان کے بادشاہوں کے ان کے پس پردہ معاشی مفادات ہیں، ان سے زیادہ ان تضادات کے ترجمان ہم بنے ہوئے ہیں، امریکا نے شام کے خلاف جنگ کرنے سے انکار کر دیا، سعودی عرب کو برا لگا تو ہمیں اس سے کیا غرض، وہ جانے امریکا جانے، کوئی پکا مسلمان اگر ہو گا بھی تو اپنے اندر سے ہو گا، نہ یہ کہ اس نے عرب ثقافت کتنی اپنائی ہے۔

ہم بشار الاسد کے خلاف ہوتی ہوئی جنگ کو تو اپنی جنگ سمجھتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ہزاروں معصوموں کی جانیں ضایع ہوئیں اس کو اپنی جنگ نہیں سمجھتے۔ یہ سچ ہے کہ وہ مان بھی گئے آخر کہ یہ جنگ ہماری ہے لیکن لہجے میں ان کے اب بھی انکار و نفی کی گھن گرج ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے ساتھ ایک ٹاک شو میں ملالہ کی کتاب کے حوالے سے جو خود ساختہ رویہ اختیار کیا گیا وہ کیا تھا، ایسے کئی واقعات روزانہ ہمیں اپنے میڈیا میں نظر آتے ہیں جس سے لاشعوری طور پر ہم یہ باور کرواتے ہیں کہ ہم اب بھی یہ نہیں مانتے کہ یہ جنگ ہماری ہے۔ ہمیں شاید جنگیں اچھی لگتی ہیں۔ ہم امجد اسلام امجد کے شاندار کردار ''وارث'' طرح حقیقت سے انکاری ہیں، ہم ٹس سے مس نہیں ہونا چاہتے اور اب جب جان کے لالے پڑ چکے ہیں، ڈالر کے فقدان نے ہماری کمر جھکا دی ہے تب پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔

جمہوریت کی باگ تھام تو لی ہے، کچھ کچھ ادارہ سازی بھی ہو ہی ہے اور سب سے بڑی بات کہ واشنگٹن یاترا سے لوٹتے ہوئے میاں صاحب نے لندن میں اپنے مختصر قیام کے وقت صحافیوں کو یہ بتایا کہ گڑبڑ اصل میں ہمارے گھر کے اندر ہے، ہمیں اپنے گھر کو درست ڈگر پر لانا ہو گا اور پھر ان کے اس بیان پر کچھ مخصوص عینک والے تجزیہ کار مختلف ٹاک شوز میں ابل پڑے۔ میاں صاحب نے یہ تک کہہ دیا کہ طالبان سے مذاکرات آئین کی روح کے مطابق ہوں گے، لیجیے قیاس آرائیاں بھی ختم جو طالبان کے ترجمان کے بیان پر پیدا ہوئی تھیں، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ حکومت سے بات چیت تب ہو گی جب وہ آئین کو چھوڑ کر آئے گی مگر میاں صاحب نے بالکل یہ واضح انداز میں باور کرا دیا کہ حکومت آئین اوڑھ کر آئے گی۔ مگر حکیم اﷲ محسود پر ہولناک ڈرون حملہ کے بعد کیا ہو گا؟

ہمیں یہ غلط فہمی ہے کہ سوویت یونین کو ہمارے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔ یہ سچ ہے کہ سرد جنگ کی آخری صف بندی طورخم کے سرحد پر ہوئی تھی مگر جنگ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے نئی جوڑ توڑ کا نتیجہ ہے جس میں سوویت یونین کو خود سوویت یونین نے شکست دی تھی اس کی معیشت بیٹھ گئی وہ خود ایک تباہ کن صورتحال کو جنم دے کر سقوط زدہ ہو گئی ۔ وہ اپنے عوام کی انفرادی آزادی کے حوالے سے جو انسانی حقوق تھے ان کو نہ دے سکے، پیٹ بھر کر روٹی تو اس ریاست نے سب کو خوب دی مگر آئین کی اصل روح یعنی بنیادی حقوق ہڑپ کر لیے، جمہوریت کو نگل لیا اور بالآخر قوت و طاقت کا قلعہ گر گیا۔

یہ ساری باتیں معاملہ فہمی اور سوچ کے ایک روایتی بندے کے بھی سمجھ میں آ جاتی ہیں، ہمیں کیوں نہیں سمجھ آتیں؟ سندھ میں لوک قصوں کا ایک کردار ہے جسے وتایو فقیر کہا جاتاہے۔ ( جس طرح اردو ادب میں ملا نصیرالدین کا کردار ہے) ایک دن راستے سے گزر رہے تھے دیکھا ایک شخص درخت کی ٹہنی پر چڑھ کر اس ٹہنی کو کاٹ رہا ہے جس سے نظر آ رہا تھا کہ وہ ٹہنی کے گرنے کے ساتھ خود بھی گر جائے گا، وتایو فقیر نے اسے کہا کہ ایسا نہ کرو، مگر بجائے اس کے وہ سمجھ لیتا اس نے وتایو فقیر کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور جب گرا تو وتایو کے پیچھے بھاگا اور جا کے اس کے پیروں میں گر کر گڑ گڑاتے ہوئے کہا کہ ''وتایو تم ولی ہو'' وتایو نے یہ کہا کہ اس میں ولی ہونے کی کوئی بات نہیں، سب کچھ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اب اگر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اس نام نہاد مسلم سائنسدان آغا وقار کی چوری پکڑے اور پھر ہم اس کے خلاف صف آرا ہو جائیں تو ہم ڈاکٹر صاحب کا تو کچھ نہیں بگاڑ رہے اپنا سب کچھ ضرور بگاڑ دیں گے، ضرورت اس رویے کو تبدیل کرنے کی ہے۔ ہم دنیا کو فتح کرنے کا خیال ترک کر دیں تو بہتر ہو گا۔ یہ اتنا ہی غیر فطری رویہ ہے جتنا واٹر کِٹ سے گاڑی چلانے کا خیال۔

ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ حصول آزادی کے ساتھ دنیا سرد جنگ کی لپیٹ میں آ گئی، ہم پہلے دن سے جمہوریت سے انکار کر کے بیٹھ گئے، ہندوستان نے وہ ڈگر نہ چھوڑی، ہمیں جب اپنے لوگوں کے حق حکمرانی پر ڈاکہ ڈالنا تھا اس کے لیے ہمیں ایک بیرونی طاقت کی ضرورت تھی اور اس بیرونی طاقت سوویت یونین کی خطے کے اعتبار سے توسیع پسندی کو روکنے کے اعتبار سے ہم اہم کردار تھے۔ یوں ہم اس سرد جنگ کی فرنٹ لائن ریاست بن گئے اور پھر ایک دن سوویت یونین ہماری دہلیز پر آ کے بیٹھ گیا، ہماری قسمت بگڑی تھی یا ہمارے حکمران مقدر کا سکندر بن گئے، انھوں نے اس جنگ کو جہاد کا رنگ دیا اس وقت یہ نہیں کہا کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے۔ یہ جنگ تو دو سپر طاقتوں کے درمیان ہے، ہم اس جنگ میں کود پڑے، بہت پیسہ کمایا، جب سوویت یونین ٹوٹ گیا تو امریکا کے تیور بھی تبدیل ہوئے لیکن ہمیں فرنٹ لائن ریاست بننے کی لت پڑ گئی، اور اب ہم اس جنگ کا عجائب گھر بن گئے ہیں۔

طرح طرح کی آوازیں آتی ہیں۔ اب ایک ایسا بم ایجاد کیا ہے جو انسانوں کی طرح چلتا پھرتا ہے اس سے اب کسی سامراج کو نہیں بلکہ اپنے ہی لوگوں کو مارتے ہیں تا کہ عجائب گھر تو کم از کم چلتا رہے۔ لوگ ٹکٹ لے کر ہمارے پاس آ سکیں اور ہم انھیں بتا سکیں کہ یہ ہے وہ جگہ جہاں سرد جنگ کا آخری معرکہ ہوا تھا۔جنرل ضیاء صاحب نے پرانے جاگیرداروں اور گماشتہ سرمایہ داروں پر مبنی شرفاء کے طبقے کو نئی شکل دی اور اب اشرافیہ اس باقیات سے لڑنے کی، اس عجائب گھر کو بند کرنے کی سکت نہیں رکھتی، کیوں کا بہتوں کا روزگار چلا جائے گا۔ کئی ٹاک شوز بند ہو جائیں گے، کئی آغا وقار پکڑے جائیں گے، کئی سابق جرنیل محب وطن کے لقب سے محروم ہو جائیں گے اور اس طرح وتایو فقیر کی منطق جیت جائے گی۔ دلیل و علم کی فراوانی ہو جائے گی لیکن اس عجائب گھر والی کیفیت کو ختم کرنے کے لیے ابھی ایک معرکہ باقی ہے یا پھر ہم بھی اس ٹوٹتی ٹہنی کے ساتھ خود بھی گر جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں