آٹھواں قومی مالیاتی ایوارڈ آنے کا کوئی امکان نہیں

قومی مالیاتی ایوارڈز کے ڈانڈے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور سے جاملتے ہیں


Shahid Hameed December 22, 2019
قومی مالیاتی ایوارڈز کے ڈانڈے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور سے جاملتے ہیں

مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے پورے پانچ سال اقتدار میں گزار کر رخصت ہوئی تاہم اس نے قومی مالیاتی ایوارڈ کا اجراء نہیں کیا اور وہ پیپلزپارٹی دور کے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو ہی توسیع پہ توسیع دیتے ہوئے کام چلاتی رہی تاہم جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو یہ امید ہوچلی تھی کہ اب یہ حکومت ضرور جلد ہی آٹھواں این ایف سی ایوارڈ جاری کرے گی جس سے صوبوں کا قومی وسائل میں حصہ بڑھ جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور تحریک انصاف نے اپنا ایک سال پیپلزپارٹی دور ہی کے ایوارڈ کے ساتھ گزار دیا ہے۔

خود پی ٹی آئی والوں نے یہ توقع ظاہر کی تھی کہ جاری سال کے دوران دسمبر تک نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کے اجراء کے حوالے سے معاملات پر اتفاق ہوجائے گا اور مالی سال 2020-21ء کے لیے اگلا این ایف سی ایوارڈ جاری کیا جائے گا اور نئے ایوارڈ کے تحت ہی سال 2020-21 ء کے لیے مرکز اور صوبوں کے مابین قومی وسائل کی تقسیم کی جائے گی۔

لیکن اب صورت حال تبدیل ہوگئی ہے تاہم نئی صورت حال کا جائزہ لینے سے قبل ذرا ماضی میں جھانکتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ قومی مالیاتی ایوارڈز کے حوالے سے اب تک کیا صورت حال رہی، ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ2009-10ء میں اس وقت جاری کیا گیا تھا جب ابھی اٹھارویں آئینی ترمیم، آئین پاکستان کا حصہ نہیں بنی تھی تاہم اس اٹھارویں آئینی ترمیم کے آئین کا حصہ بننے کے ساتھ ہی مرکز سے کم ازکم اٹھارہ وزارتیں اور ڈویژنز ختم ہوکر صوبوں کومنتقل ہوگئے۔

وہ تمام امور جو یہ وزارتیں سرانجام دیا کرتی تھیں وہ صوبوں کے پاس آگئے اور ساتھ ہی وہ ملازمین بھی جو ان وزارتوں میں خدمات انجام دے رہے تھے، اس وقت یہی فیصلہ کیا گیا تھا کہ جب تک آٹھواں این ایف سی ایوارڈ جاری نہیں ہوتا تب تک مرکز ہی ان وزارتوں اور ڈویژنز کا بوجھ اٹھائے گا اور آٹھویں ایوارڈ میں مرکز کا حصہ کم اور صوبوں کا زیادہ کردیا جائے گا تاکہ صوبے یہ اضافی بوجھ سہولت سے اٹھاسکیں۔

ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ جس کا اجراء18مارچ2010ء کو ہوا جس میں صوبوں کا حصہ49 فیصد سے بڑھاکر56 فیصد اور مرکز کا51فیصد سے کم کرتے ہوئے 44فیصد کردیا گیا تاہم صوبوں کا56فیصد حصہ صرف پہلے مالی سال یعنی 2010-11ء کے تھا جبکہ دیگر4سالوں کے لیے یہ حصہ مزید بڑھاتے ہوئے57.5فیصد کردیا گیا جبکہ اس سے مرکز کا حصہ مزید کم ہوکر42.5 فیصد رہ گیا۔

ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت پہلی مرتبہ صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے افقی (Horizontal) فارمولے کو بھی تبدیل کیا گیا، روایتی طور پر اس تقسیم پر آبادی کا عنصر چھایا رہتا تھا تاہم ساتویں ایوارڈ میں اس فارمولے کو کثیرالجہتی بنایا گیا اور 82 فیصد وسائل آبادی،10.3فیصد غربت اور پسماندگی، 5 فیصد ریونیوجنریشن، 2.7 فیصد آبادی کی شرح میں اضافہ کی بنیاد پر تقسیم پر اتفاق کیا گیا، جب کہ خیبرپختون خوا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے مجموعی قومی وسائل کا ایک فیصد دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کی آئینی مدت30جون2015ء کو پوری ہوچکی اس لیے اصولی طور پر چاہیے تو یہ تھا کہ اس سے پہلے ہی آٹھویں قومی مالیاتی ایوارڈ کا اجراء ہوتا تاکہ مالی سال 2015-16ء کے بجٹ کے لیے مرکز اور صوبوں اور پھر صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم نئے ایوارڈ کے تحت کی جاتی تاہم مرکزی حکومت کی جانب سے ساتویں ایوارڈ کو صدارتی حکم نامے کے ذریعے ایک سال کی توسیع دے دی گئی۔

مرکز نے ایسا تو کرلیا لیکن اس کے بعد یہ امید تھی کہ سال 2015-16ء کے دوران مرکز آٹھویں قومی مالیاتی ایوارڈ کو جاری کرے گی اور سال 2016-17ء کے لیے آٹھواں قومی مالیاتی ایوارڈ جاری کیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا اور ایک اور صدارتی حکم نامہ آگیا جس کے تحت جاری مالی سال کے لیے بھی ساتویں ایوارڈ کو ہی برقرار رکھا گیا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے اور ہر مالی سال کے شروع ہونے سے قبل ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کو صدارتی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے توسیع دے دی جاتی ہے۔

آٹھویں قومی مالیاتی ایوارڈ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ مردم شماری کا نہ ہونا تھا۔ مردم شماری کرانے کے حوالے سے بھی مرکز کی جانب سے لیت ولعل سے کام لیا جارہا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے تحت مردم شماری کا عمل بھی مکمل کیا جاچکا ہے جب کہ دوسری جانب مرکز کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات یعنی کہ فاٹا کو بھی خیبرپختون خوا میں ضم کردیا گیا ہے۔

جس کی وجہ سے وسائل کی تقسیم کا پورا فارمولا ہی تبدیل ہوجاتا ہے لیکن ان اہم ترین تبدیلیوں کے باوجود مرکز ٹس سے مس نہیں ہورہا جس کا واضح مطلب ہے کہ مرکز نیا ایوارڈ جاری کرتے ہوئے مزید وسائل صوبوں کی جھولی میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ وہ اس بات کا خواہاں ہے کہ صوبوں کے حصے سے کٹوتی کرتے ہوئے اپنے وسائل میں اضافہ کرے۔ تاہم ایسا کرنے سے چوںکہ پنڈورا بکس کھلنے کا امکان ہے اور سندھ سمیت سارے ہی صوبے اس کی مخالفت کریں گے۔ اس لیے نئے ایوارڈ کا راگ چھیڑا ہی نہیں جارہا۔

آٹھواں قومی مالیاتی ایوارڈ کب جاری ہوتا ہے؟ اور اس حوالے سے کیا صورت حال بنتی ہے؟ اس بارے میں بھی بات کرتے ہیں لیکن پہلے قومی وسائل کی تقسیم کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ اس کے تحت کیا کیا جاتا ہے؟ اور اس کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ یہ تمام سوالات قومی مالیاتی ایوارڈ یا این ایف سی ایوارڈ سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن ان سوالات کے جوابات کا کھوج لگانے سے قبل یہ ضروری ہے کہ جانا جائے کہ مجموعی قومی وسائل کی تقسیم کا آغاز کب ہوا اور کیوں کر اس کی ضرورت پیش آئی؟

قومی مالیاتی ایوارڈز کے ڈانڈے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور کے معاشی پروگرام سے جاملتے ہیں، جنہوں نے 1951ء میں یہ معاشی پروگرام دیا اور وسائل کی تقسیم کا یہ پروگرام ''Raisman Award Program'' کہلایا، جسے سرکاری طور پر ''Raisman Award of 1951'' کہا گیا اور یکم اپریل1952ء کو اس کا باقاعدہ طور پر اعلامیہ جاری کیا گیا۔

اس ریزمین پروگرام کے تحت ٹیکسوں پر کنٹرول حاصل کرتے ہوئے آمدنی کا50 فیصد حصہ صوبوں کو منتقل کیا گیا۔1951ء کے بعد اسی ریزمین پروگرام کے تحت مزید تین مالیاتی ایوارڈز جاری کیے گئے جو1961ء، 1964ء اور1970ء میں جاری ہوئے، تاہم یہ تینوں ایوارڈز غیرمعمولی صورت حال اور حالات کے تحت دیے گئے۔

جس کے باعث یہ تینوں ایوارڈز نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے، ریزمین پروگرام کے تحت یہ ایوارڈز اس وقت تشکیل دیے گئے جب ون یونٹ تھا یعنی کہ پورا پاکستان ایک صوبہ یعنی مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان ان ایوارڈز کے تحت مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان وسائل کی تقسیم مساوی بنیادوں پر کی جاتی تھی۔ 1970ء میں ریزمین پروگرام کے تحت تیسرا ایوارڈ دیا گیا جب ملک میں مارشل لائی سیٹ اپ تھا اور یہ ایوارڈ اس وقت دیا گیا جب ابھی مشرقی پاکستان الگ ملک نہیں بنا تھا۔ تاہم اس کے بعد بننے والے حالات، وسائل کی تقسیم پر اختلافات اور1971ء میں مشرقی پاکستان کے الگ ملک بن جانے کے باعث صورت حال ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوگئی۔

1971ء میں مشرقی پاکستان کے بنگلادیش کے نام سے الگ ملک کے طور پر قائم ہونے کے بعد سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے جب چیف جسٹس حمودالرحمٰن کی سربراہی میں مشرقی پاکستان کے حوالے سے تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا تو اس کمیشن کی جانب سے بھی جہاں دیگر بہت سے عوامل کی جانب نشاندہی کی گئی وہیں مالی وسائل کی تقسیم میں مسائل کا بھی ذکر کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب1973ء کا آئین بنایا گیا تو اس میں مالی وسائل کی تقسیم، معاشی مساوات اور معاشی انصاف پر فوکس رہا اور اس کے لیے آئین میں ایک الگ باب درج کیا گیا جو آئین کے آرٹیکل160کے تحت آتا ہے اور یہی قومی مالیاتی کمیشن کی بنیاد ثابت ہوا۔

پہلا قومی مالیاتی کمیشن9فروری 1974ء کو تشکیل پایا جبکہ پہلے این ایف سی ایوارڈ کا اطلاق یکم جولائی 1975ء سے ہوا۔ اس وقت کے صدر پاکستان چوہدری فضل الہٰی کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق مذکورہ پہلے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ 80 فیصد مقرر کیا گیا اور مرکز کا20 فیصد جبکہ صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کے لیے بنائے گئے فارمولے کے مطابق پنجاب کا حصہ 60.25 فیصد، سندھ22.50 فیصد، شمال مغربی سرحدی صوبہ (اس وقت) کا 13.39فیصد اور بلوچستان کا حصہ 3.86 فیصد مقرر ہوا ہے، جبکہ بلوچستان کے لیے سالانہ 5 کروڑ اور این ڈبلیو ایف پی کے لیے 10کروڑ روپے الگ سے بطور گرانٹ ان ایڈ دینے کی بھی منظوری دی گئی۔

دوسرا این ایف سی کمیشن11فروری1979ء کو تشکیل دیا گیا لیکن نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا جبکہ یہی صورت حال تیسرے این ایف سی کمیشن کے ساتھ بھی رہی، جو25جولائی 1985ء کو تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم اس دوران 1983ء میں اس وقت کے صدر ضیاء الحق نے مارشل لاء کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے وسائل کی تقسیم کے لیے صدارتی حکم نامہ جاری کیا جس کا نفاذ یکم جولائی 1983ء سے کیا گیا۔ مذکورہ حکم نامے کے ذریعے بھی مرکز کا حصہ 20 اور صوبوں کا80 فیصد ہی رکھا گیا۔ تاہم صوبوں کے حصہ میں ردوبدل کیا گیا۔ مذکورہ صدارتی حکم نامے کے ذریعے صوبوں کے لیے جو حصہ مقرر کیا گیا اس میں پنجاب57.97 فیصد، سندھ23.34 فیصد، شمال مغربی سرحدی صوبہ 13.39فیصد جبکہ بلوچستان کا حصہ 5.30 فیصد مقرر کیا گیا۔

چوتھا قومی مالیاتی ایوارڈ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اس ایوارڈ کے ساتھ دو دیگر اہم امور بھی انجام دیے گئے۔ ایک پہلی مرتبہ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے خیبرپختون خوا کا حق تسلیم کرتے ہوئے اسے بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوا، اے جی این قاضی فارمولا سامنے آیا جس کے نتیجے میں صوبہ کو بجلی کے خالص منافع کی مد میں سالانہ بنیادوں پر6ارب کی ادائیگی شروع کی گئی، جبکہ ساتھ ہی صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پایا جو ''Water Accord''1991ء کہلاتا ہے اور چاروں صوبوں کے مابین یہ طے پاگیا کہ کس صوبہ کا کتنے پانی پر حق ہے۔

چوتھا قومی مالیاتی ایوارڈ جو20 اپریل1991ء کو اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کے دستخطوں سے جاری ہوا کے لیے کمیشن کی تشکیل 23 جولائی 1990ء کو کی گئی تھی۔ مذکورہ چوتھے قومی مالیاتی ایوارڈ میں بھی صوبوں اور مرکز کے مابین وسائل کی تقسیم 80:20بنیاد پر کی گئی، پنجاب کا حصہ57.88فیصد، سندھ23.28 فیصد، شمال مغربی سرحدی صوبہ 13.54فیصد اور بلوچستان کا حصہ 5.30 فیصد مقرر کیا گیا جبکہ پہلی مرتبہ صوبوں کی جانب سے تیل اور قدرتی گیس کی پیداوار پر بھی رائلٹی کی صورت میں ان کا حصہ مقرر کیا گیا۔ اس چوتھے قومی مالیاتی ایوارڈ میں صوبوں کو گرانٹ ان ایڈ کی مد میں ادائیگی پر بھی اتفاق کیا گیا جو پنجاب کے لیے تین سالوں میں ایک ارب، سندھ کو پانچ سالوں میں 70کروڑ، شمال مغربی سرحدی صوبہ تین سالوں میں 20کروڑ جبکہ بلوچستان کے لیے تین سالوں میں10کروڑ کی ادائیگی پر اتفاق کیا گیا۔

پانچواں قومی مالیاتی کمیشن دسمبر1996ء میں تشکیل پایا اور اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری کے دستخطوں سے جاری شدہ پانچویں قومی مالیاتی ایوارڈ کا نفاذ یکم جولائی 1997ء سے کیا گیا، مذکورہ پانچویں قومی مالیاتی ایوارڈ صوبوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا کیوںکہ چوتھے اور اسے قبل جاری شدہ مالیاتی ایوارڈز جن میں صوبوں کا حصہ 80 فیصد رہا، ان کے برعکس اس پانچویں قومی مالیاتی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے میں تباہ کن حد تک کمی کی گئی اور صوبوں کا حصہ 37.5 فیصد پر آگیا جبکہ دوسری جانب مرکز کا حصہ 62.5 فیصد کردیا گیا اور افقی طور پر وسائل کی تقسیم میں صوبوں کا وہی حصہ برقرار رکھا گیا جو چوتھے مالیاتی ایوارڈ میں مقرر کیا گیا تھا۔

گرانٹ ان ایڈ چاروں کی بجائے صرف دو صوبوں کے لیے مقرر کی گئی جن میں شمال مغربی سرحدی صوبہ کو 5 سالوں میں 3ارب31 کروڑ جبکہ بلوچستان کو 5 سالوں میں 4 ارب 8 کروڑ کی فراہمی کی بات کی گئی۔ تاہم سالانہ بنیادوں پر گرانٹ ان ایڈ میں11فیصد اضافہ کی بھی بات کی گئی جبکہ صوبوں کو یہ ہدف بھی دیا گیا کہ اگر وہ ٹیکسوں میں اضافہ اور اپنے اخراجات میں کمی کے حوالے سے 14.2فیصد اضافہ کی شرح حاصل کرلیں تو انہیں میچنگ گرانٹ کی صورت میں الگ سے ادائیگی کی جائے گی جو پنجاب اور سندھ کے لیے50،50کروڑ جبکہ شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان کے لیے 10،10کروڑ روپے مقرر کی گئی۔

چھٹا قومی مالیاتی ایوارڈ آنے میں9 سال لگ گئے۔2001ء سے چھٹے قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کے سلسلے میں نوٹیفکیشنز کا اجراء ہوتا رہا، تاہم چھٹا مالیاتی کمیشن بالاخر ستمبر2005ء میں ہی تشکیل پاسکا، مذکورہ کمیشن کی تشکیل کے بعد اس کے اجلاس مرکز اور چاروں صوبوں میں منعقد ہوئے لیکن بدقسمتی سے صوبے وسائل کی تقسیم کے سلسلے میں کسی بھی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔

کیوںکہ چاروں میں سے ہر ایک صوبہ کا اپنا موقف تھا اور ہر صوبہ اپنے موقف پر اس شدت کے ساتھ ڈٹا رہا کہ اس میں کسی قسم کی لچک دکھائی نہیں دے رہی تھی، جس کے باعث صوبے متفقہ طور پر ایوارڈ نہ دے سکے اور اس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف نے صدارتی حکم نامہ کے ذریعے چھٹے قومی مالیاتی ایوارڈ کا اجراء کیا۔ یہ ایوارڈ اگرچہ کسی جمہوری طور پر منتخب صدر کی جانب سے نہیں دیا گیا تھا اور ایک باوردی صدر نے جاری کیا۔ تاہم اس میں ایک مرتبہ پھر صوبوں کا حصہ بڑھایا گیا اور یہی ایوارڈ وہ بنیاد ہے کہ جس پر ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کی عمارت کی تعمیر ہوئی اور صوبوں کا حصہ قومی وسائل میں پچاس فیصد سے بڑھ گیا۔

چھٹے قومی مالیاتی ایوارڈ میں صوبوں اور مرکز کا جو حصہ مقرر کیا گیا وہ ہر سال کے لیے الگ اورسالانہ بنیادوں پر صوبوں کے حصے میں اضافہ اور مرکز کے حصہ میں کمی تھی۔ مالی سال 2006-07ء کے لیے صوبوں اور مرکز کے حصہ 41.50 اور 58.50 فیصد، سال2007-08ء کے لیے 42.50 اور 57.50 فیصد، سال2008-09ء کے لیے43.75 اور56.25 فیصد، سال 2009-10ء کے لیے45 اور55 فیصد جبکہ سال2010-11ء کے لیے46.25 فیصد اور53.75 فیصد حصہ مقرر ہوا۔

صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کے حوالے سے فارمولے میں قدرے ردوبدل کی گئی جس کے تحت پنجاب57.36 فیصد، سندھ23.71 فیصد، شمال مغربی سرحدی صوبہ 13.82فیصد اور بلوچستان کے لیے 5.11 فیصد حصہ مقرر کیا گیا۔ صوبوں کے لیے گرانٹ ان ایڈ کی مد میں جو حصہ مقرر کیا گیا اس میں پنجاب11فیصد، سندھ21 فیصد، شمال مغربی سرحدی صوبہ35 فیصد اور بلوچستان کے لیے33 فیصد حصہ مقرر کیا گیا۔

ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ اس لیے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ چاروں صوبوں کے اتفاق رائے سے جاری کیا گیا اور اس ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ مزید بڑھا تاہم اس ایوارڈ کے حوالے سے یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت جو وزارتیں اور ڈویژنز ملازمین اور وسائل ومسائل سمیت صوبوں کو منتقل ہورہے ہیں ان کے حصہ کا بوجھ آئندہ این ایف سی ایوارڈ کے اجراء تک مرکز ہی اٹھائے گا اور اگلے ایوارڈ میں یہ حصہ صوبوں کو آئینی طور پر منتقل کردیا جائے گا۔

مذکورہ ایوارڈ کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس ایوارڈ کے اجراء سے قبل خیبرپختون خوا نے بجلی کے منافع کے بقایاجات کا مسئلہ حل کروایا۔ جسٹس (ر) اجمل میاں کی سربراہی میں جو ثالثی کمیشن 2005ء میں تشکیل دیا گیا اس نے مرکز، واپڈا اور خیبرپختون خوا کا موقف سننے کے بعد خیبرپختون خوا کا بجلی کے منافع کے 110ارب کے بقایاجات پر حق تسلیم کرلیا۔ تاہم اس کی ادائیگی نہیں ہوپارہی تھی، لیکن جب ساتویں قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاسوں کا انعقاد شروع ہوا تو خیبرپختون خوا اَڑ گیا کہ مذکورہ بقایاجات کی ادائیگی بھی کی جائے اور صوبہ کے حصہ کا وہ پانی جو دیگر صوبوں نے استعمال کیا ہے اس کی رقم کی صورت میں ادائیگی بھی کی جائے۔

جس پر مرکز نے بجلی کے منافع کے بقایاجات کی مد میں صوبہ کو 110ارب میں سے فوری طور پر10ارب کی ادائیگی کی جو اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے پشاور میں وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا امیر حیدر ہوتی کو چیک کی صورت میں کی جبکہ بقایا100ارب، پچیس، پچیس ارب کی چار اقساط میں ادا کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

صوبے کے حصے کے پانی کے حوالے سے 48 ارب کے دعوے کو تسلیم کرلیا گیا اور مرکز نے یقین دہانی کرائی کہ اس رقم کے بدلے صوبہ کو ایک بڑا منصوبہ دیا جائے گا جو چشمہ رائٹ بنک کنال کی صورت میں ملنا تھا، تاہم یہ حق صوبہ کو آج تک نہ مل سکا۔ ساتواں قومی مالیاتی کمیشن 24جولائی2009ء کو تشکیل دیا گیا اور ایوارڈ کا اجراء10مئی2010ء کو کیا گیا جس کا نفاذ یکم جولائی 2010ء سے کیا گیا، مذکورہ ایوارڈ کے تحت صوبوں کو پہلے سال یعنی2010-11ء کے لیے56 فیصد اور مرکز کو44 فیصد جبکہ مالی سال 2011-12ء سے 2014-15ء تک کے چار سالوں کے لیے صوبوں کو57.5 فیصد اور مرکز کو42.5 فیصد کی ادائیگی کا فیصلہ ہوا، یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ مالیاتی ایوارڈز میں صوبوں کا حصہ کم نہیں کیا جاسکے گا اور ردوبدل کی صورت میں صوبوں کا حصہ مزید بڑھایا اور مرکز کا کم کیا جائے گا۔

مذکورہ ایوارڈ میں صوبوں کے مابین وسائل کی افقی تقسیم کے حوالے سے بھی فارمولے کو تبدیل کیا گیا اور ایک کثیرالجہت فارمولا ترتیب دیا گیا جس کے تحت صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم 82 فیصد آبادی،10.3فیصد غربت وپسماندگی،5فیصد ریونیو اکھٹے وپیدا کرنے اور2.7فیصد آبادی کی کثافت کی بنیاد پر ہوگی، مذکورہ فارمولے کے تحت صوبوں کو جو حصہ دیا جارہا ہے وہ پنجاب51.74 فیصد، سندھ24.55 فیصد، خیبرپختون خوا 14.62فیصد اور بلوچستان کو9.09 فیصد مقرر ہے۔ اس ایوارڈ میں خیبرپختون خوا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے مجموعی قومی وسائل کا ایک فیصد دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ30جون2015ء کو اپنی آئینی مدت پوری کرچکا ہے اور یکم جولائی 2015ء سے آٹھویں قومی مالیاتی ایوارڈ کا نفاذ ہونا چاہیے تھا تاہم مسلم لیگ (ن) حکومت اپنے دور میں نیا ایوارڈ نہ لاسکی اور صدارتی حکم ناموں کے ذریعے ساتویں ایوارڈ ہی کو جاری رکھا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صوبوں کا حصہ وہیں کا وہیں اٹکا ہوا ہے اس میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں ہو پارہا اور اب یہی صورت حال پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بھی جاری ہے اور پہلا سال گزرنے کے بعد دوسرے سال میں بھی قومی مالیاتی ایوارڈ کے آنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔

اسی بنیاد پر خیبرپختون خوا کے وزیرخزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے بڑی ہی مناسب تجویز دی ہے کہ مردم شماری کے ذریعے آبادی اور دیگر تمام امور کے بارے میں ڈیٹا آچکا ہے اس لیے اسے بنیاد بناتے ہوئے اگلے مالی سال 2020-21ء کے لیے قومی وسائل میں صوبوں کا حصہ بڑھایا جائے جبکہ قبائلی اضلاع کے لیے خیبرپختون خوا کو ان کے وسائل بھی منتقل کیے جائیں جس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اگر مرکز ایسا نہیں کرتا تو پھر قبائلی اضلاع کے لیے وسائل کی فراہمی کی ذمہ داری بھی مرکز ہی کی ہوگی۔ تیمور سلیم جھگڑا کی یہ دونوں تجاویز انتہائی مناسب ہیں تاہم اگر مرکز ان پر کان نہیں دھرتا تو اس کے نتیجے میں صوبوں اور مرکز کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوگا اور دوسروں کے ساتھ اپنے بھی عمران خان حکومت کے مخالف ہوسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں