فونٹین ہاؤس
اخوت کے بعد اب ڈاکٹر محمدامجدثاقب نے فونٹین ہاؤس کے مشن کو چلانے اور خدمات کو آگے بڑھانے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔
ذہنی او رجسمانی صحت دونوں خدائی نعمتیں ہیں جب کہ ان میں سے کسی ایک کی معذوری بہت بڑی آزمائش ہے البتہ جسمانی طور پر معذوری کے باوجود بہت سے انسانوں نے ایسے کمالات دکھائے جن کے حصول میں مکمل صحت مند لوگ بھی کوشش اور وسائل کے باوجود ناکام رہے۔ بیرون ِ ملک ہی نہیں ہمارے ہاں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔
دنیائے سائنس دیگر علوم اور اسپورٹس کے میدان میں ایسی بہت سی شخصیات ہو گزری اور موجود ہیں جنھوں نے نام پیدا کیا بلکہ دوسروں کے لیے بھی علوم و فنون کے رستے کھول گئے۔
پولیو نامی بیماری جو بعض لوگوں کی جہالت کی وجہ سے پاکستان کے کچھ علاقوں میں نسبتاً عام ہے، اس کا شکار امریکی صدر روزویلٹ بھی ہوا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر پولیو وائرس کا حملہ نیویارک کے سکائوٹ کیمپ میں ہوا جس کا اثر اتنا شدید تھا کہ 1933 میں منتخب ہوا امریکا کا صدر وہیل چیئر پر چلا گیا لیکن اس کی یہ بیماری خفیہ رکھی گئی تھی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں بہرے پن کا شکار ہونے والی معروف ایکٹریس اورٹیلیویژن اسٹار Marlee Matlin نے کئی ایوارڈ بشمول گولڈن گلوب اور اکیڈمی ایوارڈ لیے۔
اکیس سال کی عمر میں ALS نامی بیماری میں مبتلا ہونے اور 1980 میں Powerchair پر چلا جانے والا سٹیفن ہاکنگ جو بعد میں کمپیوٹر کی مدد سے بات چیت کے علاوہ سائنسی علوم کے کارنامے انجام دیتا رہا۔ کئی کتب کا مصنّف ہونے کے علاوہ ٹیلیویژن کے پاپولر شو کرتا۔ اس کی انقلابی تصنیف A brief history of Time ہے۔ سائنس و دیگر علوم کے جسمانی طور پر معذور مشاہیر کے علاوہ اسپورٹس کی دُنیا میں بھی کئی معروف شخصیات نے اپنے نام کا لوہا منوایا۔
ذہنی اور جسمانی معذوری میں مبتلا بچے اور بڑے، ہر ملک کی طرح پاکستان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ خوشحال اور تعلیم یافتہ لوگ تو کسی حد تک اپنے گھر کے افراد کی دیکھ بھال کر لیتے ہیں ، ا ن کا علاج بھی کروالیتے ہیں لیکن کم حیثیت لوگ مشکل میںپڑ کر ایسے معذور وں کی وجہ سے خود بھی پریشانی کا شکار ہو کر ان سے لا تعلق ہو جاتے ہیں ۔ان حالات کا ادراک ہونے پر پروفیسر ڈاکٹر محمد رشید چوہدری نے اپنے احباب اور ڈاکٹر ہارون چوہدری کے ساتھ مل کر 1971 میں فونٹین ہائوس نامی ادارہ قائم کیا، ان دونوں اصحاب کی وفات کے بعد ڈاکٹر محمدامجد ثاقب نے اس کی باگ ڈور سنبھالی۔ گزشتہ انچاس برسوں کے دوران یہ ادارہ ایثار، قربانی اور فرض شناسی کی ایک زندہ مثال بن کر اُبھراہے۔
فونٹین ہائوس (لاہور، فاروق آباد، سرگودھا) میں اس وقت 800 سے زائد ذہنی مریض بشمول 200 خواتین زیر ِ علاج ہیں۔ جن میں طالب علم، وکلاء، میڈیکل کے طلباء بزنس مین، حکومتی عہدیدار اور فنکار بھی شامل ہیں۔350 بیڈز پر مشتمل ذہنی پسماندہ خواتین کے لیے عائشہ صدیق کمپیشن ہومز فاروق آباد میں زرعی رقبہ اراضی کے پُر فضا ماحول میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ 750 خواجہ سرا ماہانہ زکوٰۃ فنڈ سے علاج و وظیفہ حاصل کرتے ہیں۔ فونٹین ہائوس کے 17دسمبر کے فنکشن اور ڈنر سے حاصل ہونے والے عطیات فونٹین ہائوس کے مریضوں کی ادویات، کھانے اور علاج معالجہ پر خرچ کیے جائینگے۔
یہ ادارہ گزشتہ 48 سال سے ذہنی معذور بچوں کو تعلیم کی سہولیات فراہم کر رہا ہے جس میں بچوں کی تعلیم ، ووکیشنل ٹریننگ، میڈیکل چیک اپ اور ان کا طریقہ علاج کے ساتھ ساتھJob Placement بھی کی جاتی ہے۔ فونٹین ہائوس کے ماہانہ اخراجات اوسطاً دو کروڑ روپے ہیں جن میں 8لاکھ روپے گورنمنٹ ،42 لاکھ روپے صاحب استطاعت ممبران (مریضوں) کی ادائیگی سے جب کہ ایک کروڑ پچاس لاکھ کے لیے کافی تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ اس سلسلہ سے اہل ِ درد و دل سے درخواست کی جاتی ہے۔
بچوں کی روزمرہ سہولیات میں انھیں صبح اُٹھانا، ٹوتھ برش ، نرسنگ اور دوا، طبی معائنہ ، الائیڈ و آرٹ تھیراپی، ووکیشنل و میوزک تھیراپی، باربر شاپ و لانڈری ، ٹی وی دیکھنا وغیرہ شامل ہے جس کے لیے اٹینڈنٹ ہوتے ہیں۔ دراصل یہ محض ادارہ نہیں، تحریک ہے جو دماغی امراض اور ذہنی کرب میں مبتلا لوگوں کی بحالی کے لیے سرگرم ہے ۔ بہت سے ایسے مریض ہیں جن کے عزیز و اقارب انھیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکے ہیں۔ ان کا کوئی گھر ہے نہ ذریعہ معاش ، نہ علاجگاہ ، نہ کوئی رکھوالا۔ اسی لیے صاحب استطاعت اور در د ِ دل رکھنے والوں کو ڈنر پر بلا کر ہر سال اس تحریک میں حصہ ڈالنے کی تحریک کی جاتی ہے۔ 17 دسمبر کوڈاکٹر محمد امجد ثاقب نے اسی مقصد کے لیے دعوت دی تھی۔
فونٹین ہائوس اب تک ساٹھ ہزار ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی معاشرے میں دوبارہ بحالی کے فرائض انجام دے چکا ہے۔ ہر صاحب ِ استطاعت کا فرض ہے کہ وہ پروفیسر محمد رشید چوہدری اور ڈاکٹر ہارون چوہدری کے شروع کیے ہوئے کار ِ خیر میں تعاون کرے اور اپنا حصہ ڈال کر ثواب کمائے۔
اخوت کے بعد اب ڈاکٹر محمدامجدثاقب نے فونٹین ہاؤس کے مشن کو چلانے اور خدمات کو آگے بڑھانے کا بیڑا اُٹھایا ہے اور جس طرح اخوت کے ذریعے ضرورت مندوں کو قرض ِ حسنہ دے کر غُربت و افلاس کو شکست دینی شروع کی ہے، مُخیرّ اصحاب کے تعاون سے مجبور و معذور لوگوں کا سہارا بن کر مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ہوںگے۔