طلبا تنظیموں کی بحالی نظرثانی کی ضرورت

ایک باپ بن کر سوچیے کہ اگر آپ کا بیٹا طلبا تصادم کا ایندھن بن جائے تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی؟


طلبا تنظیموں پر سیاسی پارٹیاں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وہ مجھے نہر والے پل پر نہ ملی تو میں اسے تلاش کرتے ہوئے لاری اڈے تک آگیا۔ مگر وہ یہاں پر بھی نہیں تھی۔ اس سے پہلے کہ اپنے روٹ کی کوسٹر کی تلاش میں واپس نہر والے پل کا رخ کرتا، ایک اجنبی آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا ''آپ کو صدر صاحب بلارہے ہیں۔''

''کون صدر صاحب؟''
''آپ ادھر آئیے، آپ کو معلوم ہوجائے گا۔'' آنے والے نے سخت لہجے میں مجھے گویا اپنی پیروی کرنے کا حکم دیا۔ میں جیسے ایک ربوٹ کی مانند اس کی پیروی کرتا ہوا جنرل بس اسٹینڈ پر واقع چھپر ہوٹل تک جا پہنچا۔ جہاں میرے جیسے پندرہ بیس کالج کے طلبا پہلے سے جمع تھے۔ مرکزی کرسی پر ایک درمیانی عمر کے صاحب براجمان تھے۔ یہی صدر صاحب تھے۔ کچھ ہی دیر میں جناب صدر (جو گزشتہ کئی سال سے بی اے کے طالب علم تھے) کا قوم سے خطاب شروع ہوا، جس کے آخر پر موصوف نے اعلان کیا کہ طلبا کے مسائل (مفت ٹرانسپورٹ وغیرہ) حل کرنے کےلیے کل ہڑتال کی جائے گی۔

''مگر میں ہڑتال نہیں کروں گا۔''

''کیوں؟'' صدر صاحب نے حیرانگی اور غصے سے میری طرف دیکھا۔ ''میں کالج میں پڑھنے آتا ہوں، اس طرح کے فضول کاموں کےلیے نہیں۔ اور میں کوسٹر میں پیسے ادا کرکے جاسکتا ہوں، اس لیے مجھے مفت ٹرانسپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔'' اس کے بعد صدر صاحب نے میری وہ درگت بنائی کہ مجھے معافی مانگنا پڑی اور ہڑتال کی حامی بھرنا پڑی۔

اگلے دن میں نے کالج سے چھٹی کی۔ خبریں یہ آئیں کہ طلبا نے نہ صرف ہڑتال کی بلکہ جلوس بھی نکالا، جس میں انہوں نے پولیس پر پتھر پھینکے، چند ایک طلبا زخمی بھی ہوئے۔ اور اس کے بعد میری کوشش رہی کہ جناب صدر سے میری ملاقات نہ ہو۔ میں اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہا، کیونکہ ان کا تعلق گورنمنٹ ڈگری کالج سے اور میرا کامرس کالج سے تھا۔ اور پھر ماہ و سال گزرتے چلے گئے۔ تین سال قبل سرگودھا سے واپسی پر جیسے ہی میں کوسٹر کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تو توت سیاہ شکل کے ڈرائیور کو دیکھ کر دماغ میں جیسے ایک جھماکا سا ہوا۔ ''سر جی آپ؟'' میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ''ہاں یار میں۔'' جناب صدر بس اتنا ہی بول سکے اور سر جھکالیا۔ اس کے بعد سارے راستے انہوں نے سر جھکائے رکھا۔

یہ واقعہ مجھے وطن عزیز میں طلبا تنطیموں کی بحالی کی گونج سے یاد آگیا۔ ملک کے وسیع تر مفاد میں آج سے 35 سال قبل 09 فروری 1984 کو جنرل ضیاالحق کے دور میں لگائی گئی پابندی ختم ہونے کو ہے۔ اس معاملے میں اتنی تیزی سے پیش رفت ہورہی ہے، جیسے یہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں سے متعلق بل ہو۔ ایسے لگ رہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ملک بھر میں موجود تعلیمی ادارے دھڑادھڑ سیاستدان پیدا کررہے ہوں گے، کیونکہ اس بل کے حق میں بولنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ طلبا یونینز پر پابندی کی وجہ سے سیاستدانوں کی تربیت بند ہوگئی ہے۔ گویا والدین اپنے جگر گوشوں کو اسکول، کالج میں پڑھنے کےلیے نہیں بلکہ سیاستدان بننے کےلیے داخل کرواتے ہیں۔

میری ارباب اختیار و اقتدر سے التماس ہے کہ خدارا اس ملک پر، جہاں سرکار کی سرپرستی میں تعلیم کی حالت پہلے ہی دگرگوں ہے، رحم کھائیں۔ اگر آپ کو سیاستدانوں کی تربیت ہی مقصود ہے تو تعلیمی ادروں سے یہ اضافی خدمت لینے کے بجائے ہر صوبے میں سیاستدانوں کی تربیت کےلیے ایک ادارہ قائم کردیجئے۔ کیونکہ وطن عزیز کی تاریخ گواہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں موجود طلبا تنظیموں پر سیاسی پارٹیاں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ صرف یہ تنظیمیں اپنے مقاصد سے ہٹ جاتی ہیں بلکہ تشدد کو بھی فروغ ملتا ہے۔ تنظیموں کے اختلاف کی وجہ سے جامعات میدان جنگ کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں پہلی بار گولی 1979 میں چلی، جب انتخابات کے بعد تقریب کی حلف برداری تھی۔ اور اب تو آئے روز طلبا تنظیموں میں تصادم کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ہمارے تعلیمی ادرے دہشت گردانہ حملوں میں سرفہرست ہوں، اپنے ووٹ بینک کی بڑھوتری کےلیے اس طرح کا اقدام تعلیمی اداروں پر خودکش حملہ ہوگا۔ (امریکی ادارے کے مطابق تعلیمی اداروں پر حملوں میں پاکستان میں گزشتہ چالیس سال میں 461 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے)

اور آخری بات کہ اگر پھر بھی بات سمجھ میں نہ آئے تو ایک باپ بن کر سوچیے کہ اگر آپ کا بیٹا طلبا تصادم کا ایندھن بن جائے تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی اور کیا آپ پھر بھی طلبا تنظیموں کی بحالی کی اجازت دیں گے؟ میری وزیراعظم عمران خان اور تمام متعلقہ افراد سے عاجزانہ گزارش ہے کہ وطن عزیز میں تعلیمی اداروں کی حالت زار پر رحم کھاتے ہوئے طلبا تنظیموں کی بحالی کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔