ڈرون حملہ امن عمل کا قتل
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اﷲ محسود پر امریکی ڈرون حملے سے قیام امن کی کوششوں کو زبردست دھچکا لگاہے۔
KARACHI:
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اﷲ محسود پر امریکی ڈرون حملے سے قیام امن کی کوششوں کو زبردست دھچکا لگاہے۔ بلا شبہ یہ افسوسناک کارروائی خطے میں قیام امن کے قتل کے مترادف ہے۔ امریکا نے یہ حملہ ایسے نازک وقت پر کیا ہے جب طالبان کے ساتھ فیصلہ کن ڈائیلاگ کا آغاز صرف چند گھنٹوں کے فاصلے پر تھا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دورہ امریکا کو ابھی چند روز ہی ہوئے تھے کہ اس حملے نے اس دورے کی کامیابی اور اس سے وابستہ کی جانے والی تمام توقعات پر ایک دم پانی پھیر دیاہے۔
افغان طالبان نے اس سانحے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اسے ایک بہت بڑا نقصان کہاہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید امریکی ڈرون حملے رکوانے کے لیے بھرپور کوشش کرے۔ امریکا کی جانب سے حالیہ ڈرون حملہ پاکستانی عوام اور پاکستانی حکمرانوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ امریکیوں کے نزدیک ان کی کوئی وقعت اور حیثیت نہیں ہے۔ اس پس منظر میں ہمارے سیاسی قائدین یہ کہنے میں قطعی حق بہ جانب ہیں کہ ڈرون حملے پاکستان میں خودکش حملوں کو پروان چڑھانے کی منظم سازش کے مترادف ہیں۔ پاکستان کی سیاست کے ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ پر حالیہ امریکی ڈرون حملے سے اس تاثر کو بہت تقویت حاصل ہوئی ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو صرف اور صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔ امریکا نے یہ وطیرہ اختیار کررکھاہے کہ وہ جب چاہتاہے ڈرون حملہ کردیتاہے۔ ایک ایسے نازک وقت پر جب حکومت کے طالبان کے ساتھ ہم مذاکرات اور مکالمے کا آغاز ہونے والا تھا، امریکا کا ظالمانہ اور سوچا سمجھا ڈرون حملہ اس حقیقت پر دلالت کرتاہے کہ امریکا چاہتاہے کہ پاکستان کے اندرونی حالات خراب سے خراب تر ہوں اور بد امنی کا سلسلہ جاری رہے، امریکا نے ڈرون حملہ کرکے ایک مرتبہ پھر یہ باور کرادیا ہے کہ وہ پاکستان کا دوست نہیں بلکہ واقعتاً اور عملاً ایک بہت بڑا دشمن ہے، اسی لیے اس کے بارے میں اکثر یہ کہاجاتاہے کہ :
''ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو''
یہ تیسرا موقع ہے جب امریکا نے طالبان کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات میں رخنہ ڈالنے کی گھناؤنی کوشش کی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پر امن مذاکرات پر تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ آمادگی ایک بہت بڑی اور انتہائی اہم پیشرفت جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی علاوہ ازیں وطن عزیز کے جید علمائے کرام کی امن کی خواہش کی تکمیل کے سلسلے میں طالبان کی جانب سے بھی مثبت رد عمل ایک خوش آیند بات تھی اور پوری قوم کو یہ امید ہو چلی تھی کہ ان مذاکرات کی کامیابی کے نتیجے میں ملک میں امن وامان قائم ہوجائے گا جس کے بعد پوری قوم سکون واطمینان کا سانس لے گی اور معاشی بحالی اور ترقی کے عمل کو بڑی زبردست تقویت حاصل ہوگی۔ مگر امریکا کی اس تازہ ترین شر انگیزی نے قوی اتفاق رائے کو بڑا زبردست دھچکا پہنچایاہے اور اس کے نتیجے میں رائے عامہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔
بعض حلقوں کا کہناہے کہ وقت آگیاہے کہ اب قومی حمیت وغیرت کے تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے معذرت خواہانہ رویے کو ترک کیا جائے اور دلیرانہ اقدامات کیے جائیں ان کا کہناہے کہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکا کے اس شر انگیز اقدام پر روایتی زبانی مذمت اور رسمی احتجاج پر اکتفانہ کرتے ہوئے اس کا عملی جواب دیتے ہوئے نیٹو سپلائی بند کردے۔
پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کا موقف بھی یہی ہے۔ ملک کے بعض جید علمائے کرام نے ایک مشترکہ بیان میں کہاہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کی خود مختاری کو پامال کرتے ہوئے ڈرون حملوں کی دہشت گردی سالہا سال سے جاری ہے جس میں ہزاروں معصوم مرد، خواتین اور بچوں کو وحشت اور بربریت کا نشانہ بنایا جارہاہے، لیکن تازہ ترین ڈرون حملہ پاکستان اور اس کے عوام کے خلاف دشمنی کا بہترین مظاہرہ ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور رہنما ڈرون حملوں کی مخالفت میں توزمین و آسمان ایک کررہے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی دہشت گردی کی وارداتوں میں جاں بحق ہونے والے ہزاروں بے گناہ اہل وطن کے لواحقین اور پسماندگان سے تعزیت اور داد رسی کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ہماری قیادت کی صفوں میں تضاد اور ابہام موجود ہے۔ ایک جانب ہمارے الیکٹرونک میڈیا پر یو ایس ایڈ کی زبردست تشہیری مہم جاری ہے اور حکومت کی جانب سے امریکی امداد بلا تکلف وتامل قبول کی جارہی ہے اور دوسری جانب امریکا کے بارے میں تلخ باتیں کرنے کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔ یہ ایک عجیب وغریب قسم کا دوغلا پن ہے جس کے حوالے سے بزبان شاعر یہی کہاجاسکتاہے کہ:
دورنگی چھوڑدے یک رنگ ہوجا
مثال موم ہو یا سنگ ہوجا
ادھر وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹر پرویز رشید نے جنھیں ہم دھیمے لہجے کا شاعر کہتے ہیں نیٹو سپلائی روکنے کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہاہے کہ جنگ کے بدلے جنگ نہیں بلکہ آگ پر پانی ڈالنا چاہیے۔ ان کا کہناہے کہ نیٹو سپلائی بند کرنے سے ڈرون حملے ختم نہیں ہوںگے۔ انھوںنے فرمایا کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستان کا موقف آج بھی وہی ہے جو روز اول سے تھا۔ ان کا کہناتھا کہ ہمیں مذاکرات کا عمل جاری رکھنا چاہیے، ہم ڈرون حملوں کے باوجود مذاکراتی عمل کو سبوتاژ نہیں ہونے دیں گے، ہم نے 40ہزار سے زائد بے گناہ جانوں کے ضیاع کے باوجود مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے اور انتہائی صبر و تحمل سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ان کا استدلال تھا کہ سلالہ چیک پوسٹ پر ڈرون حملے کے بعد بھی پاکستان نے نیٹو سپلائی بند کردی تھی مگر اس کے باوجود امریکی ڈرون حملے جاری رہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا لب ولہجہ اس سے مختلف تھا۔ انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہاکہ امریکا نے جان بوجھ کر امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے، اگر امریکا کا ہدف حکیم اﷲ محسود تھا تو اس سے قبل اتنے مواقع کیوں ضایع کیے؟ ڈرون حملے سے حکیم اﷲ محسود سمیت چند اشخاص کا نہیں بلکہ خطے کے امن کا قتل کیا گیا اور چھپ کر امن پر گولی چلائی گئی، گزشتہ ہفتے کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اﷲ محسود کی ڈرون حملے میں ہونے والی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر وزارت داخلہ میں منعقدہ ہنگامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چوہدری نثار علی نے ڈرون حملوں سے متعلق 5فیصلوں کا اعلان کیا جس میں پاک امریکا تعلقات اور تعاون کا از سر نو جائزہ لینے سے متعلق اہم فیصلہ بھی شامل تھا۔ انھوں نے بڑے بولڈ لہجے میں سوال کیا کہ امریکا بتائے کہ کیا حکیم اﷲ محسود پر حملہ امن مذاکرات کی حمایت ہے؟
دوسری جانب اے این پی کے مرکزی رہنما حاجی غلام احمد بلور نے واشگاف الفاظ میں کہاہے کہ امریکا نے ڈرون حملے میں حکیم اﷲ محسود کو نشانہ بناکر ثابت کردیا ہے کہ وہ نہ تو پاکستان میں امن چاہتاہے اور نہ ہی پختونوں کی نسل کشی کے سلسلے کو بند کرنے کا خواہاں ہے۔ ہم حکیم اﷲ محسود پر ڈرون حملے کی مذمت بھی کرتے ہیں اور ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ انھوںنے یہ کھری بات طالبان کے ساتھ اپنی جماعت کے تلخ تعلق کے باوجود کہی۔
امریکی ڈرون حملے میں حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شدید گرما گرمی اور امریکا کے خلاف رد عمل بالکل فطری اور حق بہ جانب ہے۔ غیر معمولی سنگین نوعیت کا یہ واقع ابھی کافی عرصہ تک نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ ملک کی مجموعی صورتحال اور میڈیا پر بھرپور انداز میں اثر انداز ہوتا رہے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کے آیندہ تعلقات پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے اور طالبان کے ساتھ متوقع مذاکرات اس سے کس حد تک متاثر ہونگے؟