عدالتی نظام کس راہ پر

ہمارا عدالتی نظام جن افرادِ کار پر مشتمل ہے، وہ انگریز یا برطانوی قانون کے تربیت یافتہ ہیں


اکرام سہگل December 25, 2019

گزشتہ دو تین برسوں سے وکلا عوامی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے ابتدائی ایام میں جب یہ ریاست ابھی اپنے پیروں پر کھڑی ہورہی تھی 'نظریہ ضرورت' کو بنیاد بنا کر آمر حکمرانوں کو جواز فراہم کیا گیا۔ 21مارچ 1955کو وفاقی عدالت(موجودہ سپریم کورٹ آف پاکستان)کے چیف جسٹس محمد منیر نے پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کو قانونی قرار دیا۔ مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر نے قرار دیا کہ اسمبلی خودمختار ادارہ نہیں۔ انھوں نے فیصلہ دیا کہ دستور ساز اسمبلی 'احمقوں کی جنت' میں ہوگی اگر اسے کبھی یہ گمان رہا ہے کہ وہ ریاست کا خود مختار ادارہ ہے۔''

ہمارا عدالتی نظام جن افرادِ کار پر مشتمل ہے، وہ انگریز یا برطانوی قانون کے تربیت یافتہ ہیں، اس کے باوجود حیرانی ہوتی ہے کہ بہت سی خرابیوں نے کیوں جنم لیا۔ وجہ جو بھی رہی ہو ، پاکستانی نظام انصاف ابتدا ہی سے عام آدمی کو انصاف کی فراہمی میں سست رو رہا ہے۔ بعض مقدمات طے ہونے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں، بھاری رشوتیں عدالتی عمل کو متاثر کرتی ہیں اور بعض مقدمات میں تو درخواست گزاروں کی موت کے بعد فیصلے آتے ہیں۔ اس کے باوجود ریاست کو عمل درآمد کا پابند بنانے کا اختیار نہ ہونے کی وجہ سے عدلیہ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوپاتا۔

ہماری تاریخ میں عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے سے لے کر سپریم کورٹ پر حملے جیسی مثالیں موجود ہیں۔

ہمارے'جمہوریت پسند' یہ بھول جاتے ہیں کہ 30نومبر1997کو نواز شریف پیشی کے لیے اپنی جماعت کے کارکنوں، وزرائے اعلیٰ اور حلقے کے لوگوں کے ساتھ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ پارٹی کے کارکنوں نے سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی روکنے پر مجبور کردیا گیا۔

ایس ایم ظفر جس وقت نواز شریف کے کیس میں عدالت کے سامنے دلائل پیش کررہے تھے مسلم لیگ ن اور ایم ایس ایف کے سیکڑوں کارکن پولیس کی رکاوٹیں عبور کرکے عدالت کے گرد جمع ہوگئے۔ صحافیوںنے کمرۂ عدالت میں جا کر اس حملے کے بارے میں اطلاع دی۔ چیف جسٹس فوی طور پر اٹھے اور ایس ایم ظفر کا شکریہ ادا کرکے سماعت ملتوی کردی۔ جسٹس صاحبان فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوئے تھے لیکن اس وقت تک کارکن کمرۂ عدالت میں داخل ہوچکے تھے جہاں انھوں نے نعرے بازی اور توڑ پھوڑ شروع کردی۔

افتخار چوہدری کی معزولی کے خلاف چلنے والی تحریک نے وکلا کو تشدد کی راہ دکھائی۔ اس فیصلے کے فوری بعد تحریک کا آغاز ہوا اور وکلا نے تین روزہ احتجاج اور عدلیہ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے عدالتی ہڑتال کا اعلان کیا۔ وکلا کا ملک گیر احتجاج اور عدالتی بائیکاٹ شروع ہوگیا۔ 12مارچ 2007کو لاہور میں پولیس اور وکیلوں کا تصادم ہوا جس میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور اس نے بعد میں آنے والی ریلیوں اور جلسوں کے لیے ایک جارحانہ رُخ کا تعین کردیا۔

چند ہفتے قبل ہی وکلا کی بڑی تعداد ''تضحیک آمیز ویڈیوز'' کے خلاف احتجاج کے لیے پی آئی سی لاہورکے گرد جمع ہوئی۔ یہ احتجاج بھی پرتشدد ہوگیا اور وکلا نے اسپتال کی کھڑکیاں اور باہر کھڑی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ شروع کردی۔ وکیل ایمرجنسی تھیڑکے دروازے توڑ کر اندر داخل ہوگئے اور عملے کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ اس افرا تفری کے باعث اسپتال میں موجود اور باہر پھنس جانے والی ایمبولینسوں میں موجود مریض علاج سے محروم رہے۔ بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے ایک معمر خاتون سمیت تین مریضوں کی موت واقعہ ہوئی۔ پولیس اس ہنگامہ خیزی کے گھنٹوں بعدصرف چند وکلا کو گرفتار کرسکی اور راستے کھلوا پائی۔ امن و امان قائم کرنے کے لیے حکومتِ پنجاب کو رینجرز طلب کرنا پڑی۔

یہ اور ان جیسی دیگر مثالوں کو ذہن میں رکھیں تو وکیلوں کی جانب سے شروع ہونے والی کسی تحریک سے جمہوریت کی آس لگانے والوں کی امیدیں پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔

اس کے علاہ کرومویل کی مثال بھی بے محل لگتی ہے۔ کرومویل نے سلطنت سے اختیار چھینا تھا۔ شاہی خاندان نے دوبارہ اقتدار میں آکر اپنا اختیار واپس حاصل کیا تھا اور انتقاماً اس کی لاش کو پامال کیا۔ 'رمپ پارلیمنٹ' کی برطرفی اور اس کی ''خدا کے نام سے '' کے عنوان سے معروف ہونے والی تقریر کے باوجود اسے برطانوی طرز کی پارلیمانی جمہوریت کا بانی کہا جاسکتا ہے۔

کیا کرومویل کی تقریر نے کسی پارلیمینٹیرین کو کچھ یاد دلایا، اس نے کہا تھا : '' وقت آ پہنچا ہے، میں تمھیں اس منصب سے علیحدہ کردوں، تم ہر اعتبار سے اس کی توہین اور اپنے ہر اقدام سے اسے بے توقیر کرچکے ہو۔ تم ایک منافق ٹولہ اور ہر اچھی حکومت کے دشمن ہو۔ کیا تمھارے اندر کوئی ایک بھی اچھی خصلت باقی بچی ہے؟ میرا گھوڑا تم سے زیادہ مذہبی ہے۔

سونا تمہارا خدا ہے۔ کیا تم نے رشوت لے کر اپنے ضمیرکا سودا نہیں کیا؟ کیا تم میں کوئی ایک آدمی بھی ہے جسے دولت مشترکہ کی بھلائی کی کوئی پروا ہو؟ تمہارے غیراخلاقی اصولوں اور کالے کرتوتوں نے اس مقدس مقام کو آلودہ کردیا ہے، تم اب پوری قوم کے لیے ناقابل ِ برداشت ہوچکے ہو۔

تمہیں عوام نے یہاں اپنے مصائب دور کرنے کے لیے بھیجا تھا اور تم خودان کے لیے سب سے بڑی مصیبت بن چکے ہو۔ تمہارا ملک مجھے اس ایوان میں تمہاری بے اصولیوں کا خاتمہ کرکے اس آجین کے(غلیظ) طویلے کی صفائی کے لیے پکار رہا ہے۔ میں خدا کی مدد اور اس کی دی گئی طاقت سے یہ کام انجام دینے کے لیے آچکا ہوں۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ زندگی چاہتے ہو تو فوری طور پر یہاں سے دفعہ ہوجاؤ۔ نکلو، دفعہ ہوجاؤ! جلدی کرو! اے ضمیر فروش غلامو نکل جاؤ! اور یہ چمکتے کھلونے بھی اپنے ساتھ لے جاؤ اور دروازے بند کردو۔ خدا کے لیے چلے جاؤ!''

بلاشبہ کوئی بھی معاشرہ اور ریاست عدل و انصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ نے عدل و انصاف کی تاکید فرمائی ہے۔ ناانصافی سے اس ملک اور معاشرے میں مزید تشدد اور تباہی جنم لیں گے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان سمیت سب اسٹیک ہولڈرز کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے لیکن ہمارے نظام قانون و انصاف میں یہ بات نظر انداز کی جارہی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ مزید کسی انتشار کو جنم دے ناانصافی ختم ہونی چاہیے۔

(اکرام سہگل سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں اور ڈاکٹر بیٹینا روبوٹکا ہمبلوٹ یونیورسٹی برلن کے شعبہ برائے جنوبی ایشیا کی سابق سربراہ ہیں۔ )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں